آئی۔سی۔ایس افسر کے گھر پیدا ہونے والی سلمیٰ احمد نے نگر نگر کی خاک بھی چھانی مگر طرفہ تماشا یہ کہ ہر قدم کے بعد گھر کا راستہ بھولنے میں بھی ماہر تھیں۔
مری کانونٹ سے تعلیم حاصل کرنے والی سلمیٰ احمد نے سینئرکیمبرج کے امتحان میں ریکارڈ قائم کیا۔والد بھی ایسے انگریز پرست کہ شادی کے بعد بیوی کو کیمبرج یونیورسٹی انگلستان میں انگریزی سیکھنے کے لۓ داخلہ لے دیا۔سو مصنفہ نے ساری زندگی انگریزی اطوار کے تحت گزاری مگر دلچسپ بات یہ کہ پیروں،فقیروں پر بھی اندھا اعتقاد رہا۔حال مقیم کراچی ہیں مگر بعد از موت دو گز زمین کا انتظام درگاہ نظام الدین اولیاء دہلی میں کر چکی ہیں۔سلمیٰ احمد نے وزیراعظم اندرا گاندھی اور ضیاالحق کے درمیان ملاقات کے لۓ خواجہ نظام الدین پر منت مانی جبکہ ضیا نے مصنفہ کے کہنے پر ہی دورہ دہلی کے دوران اندرا گاندھی سے ملاقات کے بعد درگاہ پر حاضری بھی دی۔سلمیٰ احمد جنرل ضیا،اندرا گاندھی،سنجے کی ساس اور راجیو سے ایک ہی وقت میں برابری کی سطح کے تعلقات رکھتی تھیں۔
الطاف حسین مصنفہ کے کہنے پر مہاجروں کی تنظیم کی بنیاد رکھنے کے بعد دن رات گلی کوچوں میں مہاجر فرنٹ کے لۓ پوسٹر لگاتے۔جبکہ پیر صاحب پگاڑا دوستی کی بنیاد پر مصنفہ کے سامنے اپنی بیوی کی برائیاں کرتے۔بھٹو صاحب نصرت بھٹو کی سر گرمیوں سے با خبر رہنے کے لۓ سلمیٰ احمد سے رابطہ کرتے۔جونیجو کو وزیراعظم بنانے کی اولین پیش رفت بھی مصنفہ نے کی اور ان کی اسمبلی میں بطور ایم۔این۔اے خواتین کی مخصوص نشتوں پر بیٹھنے کی بجاۓ ضد کر کے حروف تہجی کے تحت فاٹا کے ایک پٹھان کے ساتھ کرسی سنبھالی۔جونیجو کے ساتھ مل کر کاروبار کیا مگر شریف النفس جونیجو ایک فیکڑی اُوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے لینے میں کامیاب رہا۔مسکین جونیجو نے لندن سے ایک چپل منگوانے کے لۓ پاؤں کا ناپ بتانے کی بجاۓ کاغذ پر پاؤں کے گرد لائن بنا کر بچوں کی طرح للچائی ہوئی نظروں سمیت وہ کاغذ مصنفہ کے حوالے کیا۔
وزیروں،سفیروں کے علاوہ سلمیٰ احمد وڈیروں سے بھی دوستی رکھتی تھیں احمد نواز بگٹی جب نظر بند تھے تو مصنفہ روز ان کو خط لکھ کر زندگی کے نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ احوال دل بھی بیان کرتیں۔شادی سے پہلے کھر اور تہمینہ درانی کے درمیان ملاقاتوں کا اہتمام کرنے میں بھی سلمیٰ احمد نے کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔کاروباری حضرات اور بینکاروں سے بھی اپنی بات منوانے کے ہنر سے وہ بخوبی واقف تھیں۔
سیاست دانوں،وزیروں،سفیروں اور وڈیروں کا کیا مذکور کہ مصنفہ جب ایران میں کچھ عرصہ کے لۓ گئیں تو رضا شاہ پہلوی کا کمسن بیٹا ایک دعوت میں مصنفہ کی ساڑھی سے لیپٹ گیا۔شاہ کا بھائی محمود رضا پہلوی مصنفہ کے لۓ شکار کے بعد مرغابیاں مصنفہ کی رہائشگاہ پر خود پہنچا جاتا۔جبکہ رضا شاہ پہلوی نے ایک بار مصنفہ سے کہا وہ اکیلے جہاز اڑا کر جا رہے ہیں، کیا تم فضا میں شاہِ وقت کی مہمان بننا پسند کرو گی۔القصہ مختصر مصنفہ ایک ہی وقت میں فرزندِ شاہ،برادرِ شاہ و دلبرِ شاہ کے منصب پر فیض رہیں۔ایسے دلچسپ مشغلے،کھیل اور عُشاق مصنفہ کو عمر بھر پسند رہے۔
لگاوٹ،عداوت اور دل لگی سے بات بستر کی شکن تک پہنچی تو سفارتی و سماجی حلقوں میں مصنفہ کے والدین نے اپنی ساکھ بچانے کے لۓ نیوی کے لفٹیننٹ فاضل جنجوعہ سے جھٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق سلمیٰ احمد کی شادی کر دی۔مصنفہ بھلا کب تک ایک پسماندہ گھرانے کے نوجوان چھو کرے سے نباہ کرتی، کراچی کے مشہور سنار علی محمد جوہری کے توسط سے صادق حسین قریشی کے چھوٹے بھائی نوابزادہ نسیم حسین قریشی سے متعارف ہونے کے بعد سلمیٰ احمد نے جنجوعہ سے طلاق لی اور بیگم قریشی کے روپ میں وڈیرہ شاہی کو قریب سے دیکھا۔جہاں چار دیواری کی سلطنت میں قریشی برادران کی والدہ ایک ملکہ کی طرح حکم چلاتیں۔نسیم قریشی پرُ جمال بھی تھا اور اپنے اندر ایک جلال بھی رکھتا تھا، اس کا مزاج تعلقات کو نفرت اور محبت کی انتہا پر ٹھہر کے نبھانے کا عادی تھا۔مصنفہ قریشی کے جلال کے زمانے میں زیر عتاب رہتی مگر شادی بچانے کی خاطر سب کچھ برداشت کرتی رہی۔وہ زندہ لاش کے روپ میں فرض جانتے ہوۓ قریشی کے ساتھ بستر تک بھی جاتی۔
“And so I went with him and had to go through the motions of the most meaningless and mechanical sex I had ever experienced. In fact, it had been like that for long time,and without chemoi’s(Naseer) knowledge,I had two more abortions the previous year.”
سلمیٰ احمد بھلا یہ یہ سب کچھ کہاں برداشت کرتی لندن جاتے ہوۓ مصنفہ کی ملاقات جہاز میں سوار پاکستان کرکٹ ٹیم کے نوجوان سعید احمد سے ہوئی بس پھر سفر خوشگوار ٹھہرا اور ہمسفر دل میں بس گیا۔
“- -Saeed Ahmed who came and sat next me,and we talked all the way to London. To find the national team on board was something I had not expected, but destiny had obviously willed it so.”
سعید احمد سے ملاقات کے بعدحفیظ پیر زادہ نے مصنفہ کو ایک نوجوان وکیل سے متعارف کروایا جس کے ذریعے مصنفہ نے نسیم قریشی کے خلاف خلع کا دعویٰ دائر کیا، وہ نوجوان وکیل آج کا معروف سیاست دان اور قانون دان فاروق۔ایچ۔نائیک تھا۔
سعید احمد ذہنی طور پر ایک پسماندہ آدمی تھا جو مصنفہ کی خود مختاری اور آزاد منش طبیعت سے ہمہ وقت خوفزدہ رہتا ۔سلمیٰ احمد کو بھی شخصی آزادی بہت عزیز تھی۔وہ زندگی کے سب ذائقوں سے آشنا تھی سو تنہائی کی وادیء پُر خار سے بھلا کیوں خوف کھاتی۔عقل کے نیم روشن چراغ کو مالی معاملات کے علاوہ وہ ہمیشہ طاقِ نسیاں پر رکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل رہی۔سعید احمد نے لندن والے گھر کے عوض طلاق کے کاغذات پر دستخط کر دیئے۔

سلمیٰ احمد نے تینوں شوہروں سے پیدا ہونے والے بچوں کی تنہا پرورش کی ،بطور سیاست دان اور صنعتکار بھی اس نے تمام منازل کو کامیابی سے طے کیا، ضیا نے ٹی۔وی اسکرین پر سلمیٰ احمد کا ذکرتے ہوۓ ایک بار کہا تھا۔
The lady ship-breaker.
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں