رواں سال (2022 ء) اپنے ہنگامہ خیز شب و روز کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ ماضی کی دھُند میں معدوم ہونے کو ہے۔مُلکِ خُداداد سماجی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی نشیب و فراز میں بفضلِ ذاتِ خُداوندی اپنے وجود کو قائم و دائم رکھے ہوئے اکیسویں صدی کا ایک اور سنگِ میل عبور کرنے کو ہے۔ رُخصت ہوتے ہوئے اس سال کو مجموعی تناظر میں دیکھیں تو خوشی و مسرت کے لمحے کم اور معاشرتی و معاشی ابتری اور سیاسی اُکھاڑ پچھاڑ کے واقعات زیادہ دیکھنے کو ملے۔ عوام کے لئے روز مرہ حالاتِ زندگی اس طور کٹھن نظر آئے کہ روز بروز معاشی حالات میں تنزلی اور گراوٹ کے باعث مہنگائی کا ایک بحرِ بیکراں درپیش رہا۔ اور اسی لئے سماجی اور مُلکی ترقی میں عدم استحکام حائل نظرآرہا ۔ حکومتِ وقت کے عوام کو ریلیف دینے کے اعلانات اور پھر عملی اقدامات اونٹ میں مُنہ میں زیرہ کے مصداق ثابت ہوئے۔ موجودہ حالات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ مُلک معاشی ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ڈالر کی اُڑان جاری ہے اور تاحال ہفتہ واروار مہنگائی کی شرح 29 فی صد ہے۔ ایک محتاط جائزہ کے مطابق 1961ء میں اناج کی پیداوار کے لئے فی کس شرح 0.66 ایکڑ تھا جبکہ 2022ء میں یہ شرح 0.14 ایکڑ فی کس ہے۔ ان اعدادو شمار سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر اس ضمن میں ہنگامی حکمت عملی وضع نہ کی گئی تومُلک میں خوراک کا خطرناک بحران سر اُٹھا سکتا ہے۔
پانی کے ذخائر کے حوالے سے یہ حقائق دیکھنے میں آئے ہیں کہ 2025 ء میں پانی کی دستیابی کا مسئلہ سر اُٹھائے گا۔ کیونکہ سیاسی رسہ کشی اورمحاذ آرائی میں مُلک میں ذخیرۂ آب کے لئے پچھلے 15 یا 20 برس میں نئے ڈیمز کی تعمیر کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔اس کے علاوہ پانی کے ضیاع کو روکنے کے ڈرپ اریگیشن (Drip Irrigation) جیسی ٹیکنالوجی کے استعمال پر زور نہیں دیا گیا (فصلوں کو سیراب کرنے کی اس تکنیک میں صرف پودوں کی جڑوں تک پانی پہنچایا جاتا ہے جس سے پانی کی وافر مقدار کو بچایا جاسکتا ہے)۔ تُرکی اور بھارت جیسے زرعی ممالک نے آبی بحران سے نمٹنے کے لئے اس تکنیک کو اپنایا ہے، اس کے لئے مشنری اور پائپ ان ممالک نے اپنے ہاں ہی تیار کرکے زرمبادلہ بچایا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس صورت ِ حال کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
پاکستان اسٹیل انڈسٹری کے لئے 40 فی صد اسٹیل آرہا ہے۔ پاکستان میں قائم کار انڈسٹریز ٹویوٹا (Toyota) اور سوزوکی (Suzuki) کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ 2023 ء میں یہ کمپنیاں مجبوراً اپنے کارخانے بند کردیں گے۔ اس بندش کی وجہ یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ حکومتِ وقت ان کمپنی کے خام مال کی برآمد کے لئے لیٹر آف کریڈٹ (Letter of Credit : LCs) نہیں کھول رہی۔ لیٹر آف کریڈٹ بنیادی طور پر بینک، بینک کے صارف (Customer) اور فائدہ اُٹھانے والے (Beneficiary) کے درمیان ایک مالیاتی معاہدہ ہوتا ہے۔ عام طور پر درآمد کنندہ (Importer)کے بینک کی طرف سے جاری کیا جاتا ہے۔یہ معاہدہ اس بات کی ضمانت ہوتا ہے اس معاہدہ کی شرائط پوری ہونے کے بعد فائدہ اُٹھانے والے کو ادائیگی کر دی جائے گی۔ ان سارے معاملات کی وجہ یہ ہے کہ روپے کی قدر میں اور کمی آئی ہے اور ڈالر کا ریٹ بڑھ گیا ہے، ڈالر مُلک میں مل ہی نہیں رہا۔سونے کی قیمتوں میں بہت اضافے کے باوجود اس کی قیمتوں کو قابو میں رکھنا ناممکن نظر آرہاہے۔جب کہ اس صورتِ حال کے مدِنظر گورنر، پاکستان اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ 2023ء میں درکار 32-33 بلین ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں۔اگر یہ سب پیسہ خزانے میں موجود ہے تو پھر قحط جیسی صورتِ حال کا کیا جواز ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) سے قرضے کی نویں اور دسویں قسط کی ادائیگی کے لئے تاحال ڈیڈ لاک برقرار ہے۔ قرضے کی بحالی کے لئے آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان کو تین ہفتوں میں مطالبات / شرائط پوری کرنے کو کہا ہے۔بلومبرگ سروے رپورٹ کے مطابق قرض کے متوقع نادہندہ 25 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا چوتھا نمبر ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ان ممالک میں نہ تو پڑوسی مُلک ہندوستان کا نام ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش اس فہرست میں شامل ہیں۔ سری لنکا مئی 2022 ء میں نادہندہ قرار دیاجا چُکا ہے۔
ماہرِ معاشیات مُلک میں معاشی صورتِ حال یہ بتارہے ہیں کہ سالِ نو میں ملکی خزانے میں مختلف چیزوں کی درآمدات کے لئے کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر ادویات کی درآمدات متاثرہوتی ہیں تو ہنگامی بنیادوں پر مُلک میں ادویات کی تیاری ممکن نہیں۔ چکن / پولٹری فیڈ تیار کرنا مشکل ہوگی۔ پاکستان میں پولٹری انڈسٹری آبادی کے بڑے حصہ کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرتی ہے۔ اور اگریہ انڈسٹری متاثر ہوتی ہے تو دالیں اتنی مہنگی ہوجائیں گی کم آمدن طبقہ کے لئے دال کھانا مُشکل ہوجائے گا۔آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پورا کرنے کا مطلب ہے کہ باقی ممالک اور عالمی ایجنسیاں پاکستان کو پیسہ دینا شروع کردیں گی۔
اس تما م صورتِ حال کا ایک سیاسی پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سابق بیوروکریٹ اور سفیر و مبصر ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ عالمی اثر و رسوخ کی حامل قوتوں کی پالیسیوں کا پسِ پردہ عمل دخل کارفرما ہے۔ ان عناصر کی دو کڑی شرائط یہ ہیں کہ اول تو پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں واپس آئے اور دوئم سابق وزیر ِ اعظم عمران خان کو دوبارہ اقتدار میں نہ لایا جائے۔
مُلک ِ پاکستان دُنیا بھر میں ہماری شناخت و پہچان ہے۔ اس کا قیام و ساکھ کا برقرار رہنا ہم سب کے مفاد میں ہے۔ بدعنوان اشرافیہ کے ہاتھوں اس انجام تک پہنچنے والی پاک سرزمین سے وفادار اور مخلص لوگوں کی کمی بھی نہیں۔خُدا تعالیٰ اس مُلک کو قائم و دائم رکھے۔اور اس ساری خطرناک معاشی صورتِ حال سے نکلنے کی کوئی مثبت اور تعمیری صورت نکلے۔ آمین
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں