جو سنا افسانہ تھا/اظہر سید

جنرل عاصم منیر کا راستہ روکنے کی جس طرح کوششیں ہوئیں ہمیں لگتا تھا شائد کوئی انوکھا شخص ہے جو سٹیٹس کو توڑ دے گا ۔ڈی جی آئی ایس آئی ایسا طاقتور عہدیدار پیر ہش ہش سے ملتا تھا ،کور کمانڈر کوئٹہ جنرل غفور 170 فٹ کی حوروں والے مولوی کی زلفوں کا اسیر تھا ۔آرمی چیف صدیق چڑے اور کباڑے غلام حسین کے وی لاگ دوران شیو سنتا تھا ۔چیئرمین نیب سائلین کو بلیک میل کرتا تھا  ۔ڈی جی نیب لاہور مریم ںواز کے سیل میں کیمرے لگواتا تھا “بقول مریم نواز” ملک کے یکے بعد دیگرے آنے والے چیف جسٹس ،ثاقب نثار،کھوسہ اور گلزار جسٹس منیر،جسٹس ارشاد اور بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے بینچ کے ججوں ایسے تھے ۔جس نوسر باز کو مسلط کیا گیا تھا وہ پارٹی فنڈ ایک خاتون ایم این اے جسکی حال ہی میں آڈیو لیک کی گئی ہے دیتا تھا ۔راولپنڈی کے ایک ٹرانس جینڈر کو” ملاقاتوں ” کے عوض ریاستی اعزاز ہی نہیں بلکہ پوش علاقہ میں ایک بنگلہ بھی لے کر دیا گیا ۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا ملک دیوالیہ ہو رہا تھا ۔اس دور کے چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے اعتراف بھی کر لیا تھا “ریاست ٹیکنیکلی ڈیفالٹ کر چکی ہے”

ہمیں امید تھی نئے چیف کے آنے سے ملک بہتری کی طرف چل پڑے گا۔ سیاست میں مداخلت ختم ہو جائے گی ۔امریکیوں کی بجائے چینیوں سے تجدید تعلقات ہونگے اور دنیا کی معاشی سپر پاور چین کے ذریعے پاکستان بتدریج اپنے معاشی مسائل پر قابو پا لے گا۔

لیکن خدشہ ہے کچھ بھی نہیں بدلہ ۔ نام بدلے ہیں کام وہی ہیں ۔بلوچستان کے باپ پارٹی والے جو کبھی نوسر باز کو دیے گئے تھے اب پیپلز پارٹی کو دیے جا رہے ہیں ۔چند اینکرز نے جس طرح بلاول بھٹو کی تحسین شروع کی ہے لگتا تھا مالکوں نے اب نئے گھوڑے پر داؤ لگانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ پالتو اینکر کل نوسر باز کی تحسین میں زمیں آسمان کے قلابے ملاتے تھے اور  اب  بلاول بھٹو پر واری صدقے جا رہے ہیں۔
کراچی میں گورنر ٹسوری ایم کیو ایم کے دھڑے متحد کرنے چل پڑے ہیں ۔

ہمیں لگتا تھا مالک دباؤ کا شکار ہیں اور موقع سے فائدہ اٹھا کر سیاستدان  شیر کے ناخن اور دانت نکال دیں گے ۔اب ہمیں خوف ہے پیپلز پارٹی والے اس دباؤ کو بلاول بھٹو کی وزارت عظمیٰ کیلئے استعمال کرنے کے چکر میں ہیں۔

جنہیں پال پوس کر افغانستان کو پانچواں صوبہ گزشتہ چالیس سال سے بنایا ہوا تھا اب انہیں دشمن بنایا جا رہا ہے ۔خارجہ پالیسی نہ کل سیاستدانوں کے پاس تھی نہ آج ہے ۔کل طالبان کو حکومت دلانے کا فیصلہ کیا اور عملدرآمد کیا اور آج انکے خلاف کارروائی کا ارادہ ہے۔

چالیس سال جس کھلونے سے کھیلا اسے توڑ دیا تو کیا قیمت ہو گی کوئی بحث نہیں ہوئی۔

مذہب کا بیج جس طرح مدارس کی نرسریوں سے ملک کے طول و عرض میں بویا نئی افغان پالیسی فائر بیک کر گئی تو کیا ہو گا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

معیشت میں جان باقی نہیں بچی ۔کوئی بھی ردعمل کبھی بھی چنگاری بن سکتا ہے ۔غربت ،بھوک اور بے روزگاری ہے ۔ہزاروں نوجوان مارے مارے پھر رہے ہیں اور یہاں کوئی تبدیلی نظر ہی نہیں آرہی ۔
عدلیہ ،میڈیا اور مالکان !سب پرانہ کھیل ہی کھیل رہے ہیں لیکن اب اگر فیصلہ ہوا تو کوئی نہیں جیتے گا بلکہ ریاست ہار جائے گی ۔ربڑ ایک خاص حد تک کھنچا جا سکتا ہے پھر ٹوٹ جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply