نسب اور ذات پات کی بِنا پر تفریق/پروفیسر ساجد علی

بھارت کے ایک سکالر مسعود عالم فلاحی کی تحقیقی کتاب “ہندوستان میں ذات پات اور مسلمان” شائع ہوئی ہے جس کے مطالعہ سے چودہ طبق روشن ہونے کا پورا امکان ہے۔ یہ کتاب ریختہ پر موجود ہے۔ اب اجمل کمال صاحب نے اسے پاکستان سے شائع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جو یقیناً ایک بہت مستحسن اقدام ہو گا۔
اس کتاب کے چند اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔ انھیں ہندی مسلمانوں کی کم علمی قرار دے کر مسترد کرنا آسان نہ ہو گا۔

سید احمد شہید کے ہاتھ پر ایک ہندو بچے نے اسلام قبول کیا۔ سید صاحب نے مولانا عبد الحئی سے اس کا نام تجویز کرنے کو کہا۔ ان کی زبان سے نکلا: کریم الدین۔ “اس وقت مجلس میں اہل شہر کا ہجوم تھا۔ انھوں نے کہا کہ یہ نام رکھنے سے بعض لوگ ناراض ہوں گے کیونکہ عمائد شہر میں سے کئی آدمیوں کا یہی نام ہے۔ آپ نے فرمایا، اچھا پھر اس کا نام احمد رکھو اس لیے کہ یہ میرا نام ہے۔ اس کے بعد سید صاحب نے فرمایا کہ
“جہالت کی چند باتیں لوگوں کے ذہن میں ایسی بیٹھ گئی ہیں کہ اگر یہ باتیں دل سے نہ نکلیں تو اندیشہ ہے کہ آخر میں دین و ایمان میں خلل نہ آ جائے۔۔۔

دوسرے یہ کوئی غریب مسلمان اپنے بچے کا نام رؤسا میں سے کسی کا نہیں رکھ سکتا

دولت مند و امراء غربا کی دعوت قبول نہیں کرتے، اس میں سُبکی محسوس کرتے ہیں۔

جو کھانا ہم کھاتے ہیں بیچارے غریب لوگ نہیں پکا سکتے کیونکہ اس میں ہمسری اور برابری ٹپکتی ہے۔

جماعت اسلامی ہند کے مدارس و مساجد ٹرسٹ کے ذمہ دار جناب جاوید اقبال شمسی (شیخ) نے بتایا:
نگینہ” گاؤں ضلع بجنور یو پی کا واقعہ ہے کہ آزادی سے قبل انصاری برادری کے ایک شخص کے گھر شادی کی تقریب ہوئی۔ اس موقع پر انھوں نے پلاؤ اور بریانی پکائی۔ جب اس کی اطلاع سادات و شیوخ کو ملی تو وہ لوگ وہاں آئے اور پلاؤ بریانی سے پورا بھرا ہوا دیگ زمین پر پلٹ دیا اور کہا کہ تم جولاہے ہم لوگوں کی برابری کرنے لگے، تم پلاؤ اور بریانی نہیں بلکہ کھچڑی اور بھات پکاؤ۔ (116)

ایک انصاری صاحب جماعت اسلامی ہند کے امیر بن گئے۔ ایک دفتری نے ان کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا: ہم نے ان کو امیر بنا دیا ہے تو کیا ہوا، وہ جولاہا ہیں لہٰذا اپنی حیثیت میں رہیں اور اپنے آپ کو ہم سے نیچا سمجھیںَ (392 )

تبلیغی جماعت کے امیر مولانا محمد یوسف کی وفات پر مولانا رحمت اللہ میرٹھی کو امیر بنایا گیا۔ ان کا تعلق چونکہ تیلی برادری سے تھا اس لیے تبلیغی جماعت کے لوگ ہی ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں امارت سے ہٹا دیا گیا۔ (348 )

فرمایا حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نے:
اگر نسب کوئی شئے نہ ہوتی تو (غیر کفو  ) میں نکاح کرنے سے منع نہ کیا جاتا اور یہ قانون مقرر نہ ہوتا الآئمۃ من قریش۔ ان احکام سے معلوم ہوتا ہے کہ شرع نے بھی شرفاء میں ضرور تفاوت رکھا ہے۔ (323 )

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply