پچھلا پورا ہفتہ ماضی کے بھید بھرے شہر میں گزرا۔ میں محترمہ حنا جمشید کے ہمراہ اس شہر کے دروازے ہری یوپیا کے راستے داخل ہوا اور کل رات ایک تختے پر بیٹھ کر سیلابی پانی کے تھپیڑوں کے رحم وکرم پر لاہور جوہر ٹاؤن آ نکلا۔
دنیا کی پرانی تہذیبیں دریاؤں کے کنارے پھلی پھولیں اور پھر دریاؤں میں ہی غرق ہو گئیں۔ کچھ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اور کچھ قدرتی آفات کی وجہ سے۔ آج سے ہزاروں سال پہلے ہمارے اولین اجداد کیسی زندگی گزارتے تھے؟ یہ کھوج ہمیشہ سے انسان کے ساتھ رہی ہے اور اسی کی بنیاد پر آرکیالوجی کا پورا علم کھڑا ہے۔ ادب اور دریاؤں سے دلچسپی کی وجہ سے اس طرح کے موضوعات ہمیشہ سے ہی میرے پسندیدہ رہے ہیں۔
اس سفر کا آغاز بھی ایک قافلے کا کشتی میں اپنے خوابوں کی سر زمین “ہر ی یوپیا” پہنچنے سے ہوتا ہے ۔ وہ اس کے حسنِ انتظام اور جدید طرزِمعاشرت سے بہت مرعوب ہوتے ہیں۔ یہ شہر دریائے ایراوتی کے کنارے آباد ہوتا ہے اور اسے سیلابوں سے بچانے کا بھر پور بندوبست ہوتا ہے۔
تخیل کی لا محدود پرواز کے ذریعے ہم اس دور کی معاشرت، مذہب، رہن سہن اور روزمرہ معاملات سے روشناس ہوتے ہیں جس میں مختلف شکلوں والی مہریں، مافوق الفطرت جانور، قدرتی مظاہر کی پوچا، میلے ٹھیلے اور مذہبی لوگوں کی من مانی زندگی سامنے آتی ہے۔
تاہم نظامِ انصاف کے کمزور ہونے اور قدرتی آفت کی وجہ سے ایک لا محدود طاقت کا سیلاب اتنے مضبوط ترین شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور انسان اپنے تمام تر وسائل ، ذہانت اور حسنِ انتظام کے باوجود بے بس نظر آتا ہے اور یوں اعلیٰ روایات کی حامل یہ تہذیب اپنے انجام کو پہنچتی ہے۔
اس کا اختتام ناول کے ہیرو موہن اور ہیروئن گانیگا کے ایک دوردراز گمنام سی چھوٹی بستی میں ایک نئی زندگی کی شروعات سے ہوتا ہے جو اس بات کا استعارہ ہے کہ حضرت انسان اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود آج ہزاروں سال بعد بھی اس دھرتی کے سینے پر چل پھر رہا ہے تو یہ اس کی ہر قسم کے حالات کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کی اپنی بے پناہ صلاحیت کی وجہ سے ہے وگرنہ اس کے بیلی اور اس سے زیادہ طاقتور جانور ڈائنوسار تک بدلتے حالات کے ساتھ معدوم ہو گئے۔

ناول کا ٹیمپو بہت تیز ہے جہاں ایک بھری پری تہذیب، اس کے میلے ٹھیلے، کاروبار، حکومت ، مزہب، معاشرت، تعمیر اور تخریب کے بہت سارے اہم واقعات کو ایک سال سے کم وقفے میں ہی دکھا دیا گیا ہے۔ یہ شائد اس تہذیب کے آخری سال کی کہانی ہے۔ پوری کتاب ایک آرٹ مووی کا تاثر دیتی ہے۔اس تہذیب کی تباہی سے چند دن پہلے ایک کشتی میں نیل کے پانیوں کو بچ نکلنے والی سمارا آج ہمیں حنا جمشید کی صورت اس تہذیب کی کہانی سنا رہی ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں