میں تو چلی چین/مادام عمران خان کیا پیسے مانگنے آیا ہے؟ (قسط9) -سلمیٰ اعوان

میری اور بہار کی آمد چین میں کم و بیش بس ساتھ ساتھ ہی ہوئی تھی۔اِس جیالی قوم کی بہار اور اس سے جڑا جشن بہار ہم پاکستانیوں کی عیدالفطر کی طرح قمری شمسی کیلنڈر سے جڑا ہوتا ہے۔اپریل کا آغاز جب ابھی گھاس نے ہرا کچورچولا اورٹنڈ منڈ درختوں نے سفید اور گلابی پھولوں کا پیرھن پہنا ہی تھا ۔تاہم ابھی سرخ اور نیلے پیلے پھولوں کی چادریں نہیں بچھی تھیں۔

سچی بات ہے میری تو یادوں میں ماسکو میں ملنے والی اُس ہندوستانی خاتون کے لفظوں کی گونج ابھی بھی باقی ہے کہ جس نے آنکھوں اور ہاتھوں کی تمثیلی حرکات سے کہا تھا۔ ‘‘باپ رے باپ چین میں تو ہر سُو پھولوں کی چادریں ہی چادریں تاحدِ نظر دکھائی دیتی ہیں۔اس میں یقیناً سو فی صد سچائی ہوگی۔بس میں نے ذرا آنے میں ست ماہے بچے کی طرح پھرتی دکھا دی تھی۔لیکن عظیم چینی شاعروانگ انشیWang Anshi بہار سے متعلق اپنے جن جذبات کا اظہار کرتا ہے اس کا بھی ایک اپنا رنگ ہے۔
باد بہار میں جتنا حسن ہے
اتنا ہی کوجہ پن بھی ہے
یہ پھولوں کو کھلاتی ضرور ہے
مگر انہیں اڑا کر بھی لے جاتی ہے

روایتی چینی لونی سولر کیلنڈر کا سائیکل بارہ سال پر محیط ہوتا ہے۔ اہم چینی تہوار جیسے چینی نیا سال، لالٹین تہوار وغیرہ اسی قمری حساب کتاب سے ہی جڑے ہیں۔ ان کے نام بھی جانوروں کے ناموں پر ہی ہوتے ہیں۔

ہفتے کی صبح جب گھر ابھی سوتا تھا۔میں چپکے سے باہر آگئی تھی۔ایک فرلانگ کے فاصلے پر بڑا خوبصورت ایک پارک تھا۔ نام جس کا ریتان Ritanتھا۔شام کی دلکش مگر قدرے بے نام سی اداسی گھلی گھٹریوں میں اُسے دیکھا تھا۔ مگر صبح کی پرنور ساعتوں میں دیکھنے کی متمنی تھی۔

فضا میں آوائل فروری جیسی خنکی تھی مگر پارک میں چہل پہل تھی۔آج کے ٹیڈی لڑکوں کی قامت جیسے بوٹوں پر سفید ،گلابی ،سرخ اور سفید پھول کھلے ہوئے کتنے دلکش لگ رہے تھے۔میرے سامنے جھیل تھی۔سبزی مائل پانی بے شک شفاف نہیں تھا مگر اُسے ہر رنگ اور ہر انداز میں حسین بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔خود ساختہ پہاڑی سلسلوں کو بھی میں چلتے چلتے دیکھتی تھی۔

میرا جی بینچ پر بیٹھ جانے کو چاہا تھا۔یقینا ًمیرے اندر اِن خوبصورت منظروں کو آنکھوں کی راہ سے پی جانے کی ہڑک اٹھی تھی۔ابھی رات میں نے قدیم چینی شاعری کی مختلف ادوار کوکھنگالا تھا۔تھانگTangخاندان نے شاعری کی جس طرح سرپرستی کی اس نے ایسے قابل فخرشاعر پیدا کیے۔منگ خورنMing Haoran، ڈوفوDu Fu، لی بائیLi Bai،وانگ ویWang Wei سب ایک سے ایک بڑھ کر تھے۔بے مثال شاعر جنہوں نے چینی شاعری کو امیر ترین کیا اور ادب کے حوالے سے تانگ خاندان تاریخ میں سنہری دور کہلایا۔
منگ خورن کی دو نظمیں دیکھیے۔
آڑو کا درخت کتنا سرخ ہوگیا ہے
اس کے پھول بے مثال ہیں
چلو کنواری دوشیزہ کی شادی ہونے جارہی ہے
یہ وقت اور سایہ دار جگہ
شادی کے لیے بہت موزوں ہیں
بہار کی اِس صبح میں ابھی بستر میں ہوں
جاگنا نہیں چاہتا جب تک کہ
پرندوں کی چہچہاہٹ نہ سنائی دے
رات بھر تیز ہواؤں اور بارش کی یلغار رہی
سوچتا ہوں کتنے خوبصورت پھول گرے ہوں گے

زمانہ گو صدیوں پرانا تھا۔مگر انسانی جذبات و احساسات تو آج جیسے ہی ہیں۔میں بھی اِن پھولوں کو دیکھتے ہوئے شاعری کو موبائل پر پڑھتے ہوئے مسرور سی تھی۔

اب ذرا ڈوفو کو پڑھیے۔
اچھی بارشوں کو موزوں وقت پر اپنی آمد کا پتہ ہوتا ہے
یہ برسیں گی تب جب بہار آتی ہے
ہوا کے ساتھ کبھی یہ دبے پاؤں آکر
ہر شے کو خاموشی سے نمی سے بھر دیتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک ٹوٹا ہے،لیکن پہاڑ اور ندیاں باقی ہیں
شہر بہار میں داخل ہوتا ہے
گھاس اور درخت گھنے ہوچکے ہیں
خرابئی وقت کو محسوس کرتے ہوئے پھولوں نے آنسو بہائے
علیحدگی سے نفرت کرتے ہوئے ایک پرندہ کا دل پھڑ پھڑایا
روشن مینار میں تین مہینوں کے دوران آگ بھڑک اٹھی
ایک خاندانی خط دس ہزار سونے کی اشرفیوں کے برابر ہے

یہاں ڈوفو (Du Fu)(712-770)،لی بائی (Li Bai)(701-762) اور وانگ وی (Wang Wei)(701-761)کی نظمیں یہ بتاتی ہیں کہ ان تینوں عظیم ترین تھانگ شعرا ء نے کس طرح شاعری کو نئے رنگ اور حسن دئیے۔وانگ وی Wang Wei کی نظمیں کائنات کے دلکش رنگوں زندگی کی رعنائیوں، کنفیوشس اور بدھ مت کے فکری اور روحانی تجربات میں گندھی نظر آتی ہیں۔اس دور کو شاعری کے اعتبار سے ایسے ہی تو سنہری دور نہیں کہا گیا۔

پگوڈا اسٹائل کافی ریسٹورنٹ اس وقت بند تھا۔شام کو جب آئے تھے تو کافی کی خوشبو نے مضطرب کردیا تھا۔یہیں بینچوں پر بیٹھ کر کافی سے لطف اندوز ہوئے تھے۔

میری شلوار میری شناخت تھی۔کوٹ تو سبھی پہنتے ہیں۔سو وہ اگر پہنا ہوا تھا تو کچھ انوکھی بات نہ تھی۔ ہاں ڈوپٹہ بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ برصغیر کے مخصوص خدوخال۔
وہ مجھے دیکھتی تھی اور میں نے بھی اُسے گھورا تھا۔ بہت دلکش اور حسین عورت۔ اس کے ساتھ دس سال کا لڑکا بھی تھا۔چہرے مہرے سے مشرقی یورپ کے کسی ملک کی دکھتی تھی۔لباس تو خیر مکمل مغربی تھا۔دفعتاً واک کرتے ہوئے جب وہ میرے قریب سے گزری اُس نے رک کر مجھ سے ادھورا سا سوال کیا۔
‘‘آپ؟’’
جملہ مجھے مکمل کرنا تھا۔ وہ میں نے کیا۔‘‘پاکستانی ہوں۔’’
مسکراہٹ جس انداز میں اس کے چہرے پر پھیلی تھی اس نے پل جھپکتے میں مجھے سمجھا دیا تھا کہ وہ میری ہم وطن ہے۔

یہ ہم وطنی اور ہم زبانی بھی کیا چیز ہے؟ سارے فاصلے آنا فاناً مٹا ڈالتی ہے۔لیجیے تعارف ہوا۔ یہ ثمینہ محی الدین تھی۔ پاکستانی بزنس مین کی بیوی۔ جنگو امن وائے Jianguomenwayکے اِس پوش ایریا میں رہتی تھی۔بچے کے سکول بارے پتہ چلا کہ پاکستان ایمبیسی اسکول میں پانچویں درجے میں پڑھ رہا ہے۔

سچی بات ہے میرے ہاتھ گویا بٹیرا لگنے والی بات ہوگئی تھی۔معیار بارے سوال پر طنز یہ انداز میں بولی ۔ جیسے ملک زوال پذیر اور ملکی لو گ احساس سودوزیاں سے عاری ہیں تو بس ایسے ہی سکول ،سفارت خانہ اور سفارت کار ہیں۔چند لمحوں کی ہیلو ہائے میں ہی درد دل کا یوں پھٹ کر باہر آجانا گویا خاتون کا حساس اور وطن پرست ہونے کی دلیل تھی۔

میں تو خود بھی ایک طرح بے حد پیاری بیٹی کے ڈپلومیٹک رویے سے قدرے دل برداشتہ سی تھی کہ 23مارچ کے پاکستانی سفارت خانے کے پروگرام میں وہ مجھے یہ کہتے ہوئے کہ آپ لمبے سفر سے تھکی ہوئی ہیں قصداً ساتھ لے کر نہیں گئی۔ جانتی تھی ماں نے وہاں پُوچھ گچھ کے اپنے لُچ تلنے لگ جانے ہیں۔سفارتی ایٹی کیٹس کو گولی مارنی ہے۔ایسا کیوں ہے؟اور ویسا کیوں نہیں ہے؟جیسے سوال اٹھانے ہیں۔اور یہ میاں بیوی کے لیے شرمندگی والی بات ہونی تھی۔

باتیں کرتے ہوئے دفعتاً میری آنکھیں اٹھیں ۔ذرا دور خود ساختہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے عقب میں کھڑے درختوں کی پھنگیوں پر بڑی مسکین سی دھوپ مسکرائی تھی۔ایکا ایکی جیسے فضا کا حسن بڑھ گیا تھا۔

ثروت کی نظریں بھی میرے تعاقب میں اٹھی تھیں۔‘‘دیکھو نا اک ذرا سی پیلاہٹ نے منظر کی رعنائی کتنی بڑھا دی ہے۔’’
چند لمحے وہ بھی اِس سے محظوظ ہوتی رہی۔پھر ہنسی اور بولی۔
‘‘ایک بہت دلچسپ اور مزے کا واقعہ سناتی ہوں۔سُنیے اور یہ بھی دیکھیے کہ اس جفاکش اور محنتی قوم کے لوگ ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟’’
‘‘ارے ’’میں ہمہ تن گوش ہوگئی تھی۔

یہ کوئی 2یا 3نومبر 2018کی بات ہے جب عمران خان نے وزیر اعظم کی حیثیت سے پہلی بار چین کا دورہ کیا۔
میں کچھ گروسری کی خریداری کے لیے مارکیٹ جانے کے لیے نکلی تھی۔میرے چینی ڈرائیور نے اپنے پتلے ہونٹوں اور تکونی آنکھوں میں شرارت نما پھیلے طنز سے مجھے دیکھتے ہوئے یہ جملہ بولا۔
‘‘ مادام عمران خان کیا پیسے مانگنے آیا ہے۔’’

گاڑی کے ادھ کھلے دروازے پر دھرا میرا ہاتھ اُس وقت اک ذرا لرزا تھا۔ میرا دل سچی بات ہے اُسے ایک زوردار اور کرارا سا جھانپڑ لگانے کو چاہا تھا۔ مگر مجھے رُکنا پڑا تھا۔چہرے پر فی الفور پیدا ہونے والے غصّے کے اثرات کو زائل کرنا پڑا تھا۔میں نے خود سے سوال کیا تھا۔
اگر سچائی سے جملے میں چھلکتی حقیقت نما تلخی کا تجزیہ کروں تو کیا یہ مجھ پاکستانی کو میری اوقات یاد دلانے کی ایک معصومانہ یا عیارانہ کوشش تھی جس کے پس منظر میں ایک ارب تیس لاکھ قوم میں سے ایک کروڑ کی سوچ کی جھلک تو ضرورہی ہے۔صورت یقینا ًقہر درویش برجانِ درویش والی تھی۔تاہم دھیمی سی مسکراہٹ جس میں شرمندگی ،خجالت اور کچھ دکھ بھرے جذبات کے رنگ تھے ہونٹوں پر سجائی۔گاڑی میں بیٹھی اور دھیرے سے بولی۔
‘‘ارے نہیں وہ تو تمہارے صدر شی چن پنگ اور وزیر اعظم لی کھ چیانگKeqiangسے باہمی دلچسپی ،سٹریٹیجک تعاون اور کچھ اقتصادی مسائل کے حل،مشور ے اور مدد کے لیے آیا ہے۔
باہر نومبر 2018کے ابتدائی دنوں کی دھوپ اور تیز ہواؤں کا بیجنگ کی فضاؤں میں زور تھا۔

سچ تو یہ تھا کہ اس وقت میرا اپنا دل جیسے منوں وزنی پتھروں تلے آگیا لگتا تھا۔ دھاڑیں مارمار کر رونے کو جی چاہ رہا تھا۔ آنسو تو جیسے پلکوں پر دھرے رہتے ہیں۔ذرا سی ٹیس لگنے کی دیر کہ بس بہہ نکلتے ہیں۔

چین کی پاکستانی ایمبیسی دنیا کے ہر ملک میں قائم پاکستانی ایمبیسی سے بڑی ہے۔ Zong Zhimenwai Da Lie کا علاقہ جس میں ایمبسی کی جگہ اور عمارت ہے ۔ بیجنگ کا مہنگا ترین کمرشل ایریا ہے۔پہلے تو اس کے رقبے کی وسعت لالچی حکمرانوں کو کِھلی ۔ کوئی آٹھ دس کنال کا ٹکڑا ہمارے ملک کے عالمی شہرت یافتہ مسٹر ٹین پرسنٹ نے ایک اسلامی ملک کو بخش دیا۔اندرخانے کیا طے ہوا؟ڈیل کتنے میں ہوئی؟کچھ علم نہیں۔
ثروت کو بھی بس جیسے اپنے پھپھولے پھوڑنے کا موقع  ملا تھا۔بولے جارہی تھی۔

انیسویں ،بیسویں اور اکسیویں گریڈ کے ڈپلومیٹ اردگرد کے قریبی پوش علاقوں میں رہتے ہیں جس کے ایک لگژری فلیٹ کا کرایہ کوئی پانچ چھ لاکھ پاکستانی روپے بنتا ہے۔چین میں ورٹیکل ڈیزائن پر عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔صرف دو کنال کے رقبے پر تیس منزلہ عمارت پوری ایمبسی کے عملے کو سمیٹ سکتی تھی۔کروڑوں روپے کا کرایے کی مد میں یہ خرچہ بچایا جاسکتا تھا۔مگر بات تو یہ ہے کہ ایسا دماغ و دل کہاں سے لایا جائے جو اِن پہلوؤں پر سوچے۔یہاں تو جو آتا ہے ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر عمل کرتا ہے۔

اب نزلہ اِن ہائی پروفائل افسران کی نخریلی اور کاہل بیویوں پر گرنے لگا۔یقین کیجیئے ۔بڑا دل سوز سا لہجہ تھا۔انہیں تو شاپنگ کرنے ،گھروں کو سجانے ،ڈنر پارٹیاں کرنے اور شو بازیوں کے سوا کوئی کام ہی نہیں۔ایسا ہابڑہ ہے ہماری اِن عورتوں کو کہ ابھی بچیاں بالشت بھر کی ہیں اور اُن کے داجوں کے لیے شنگھائی کی رضائیاں بھی بنوالو،ڈنر سیٹ خرید لو۔واپسی پر کنٹینر توپھر بُک ہوتے ہیں۔بلا سے سامان قیمت خرید سے بڑھ جائے۔

اِن کی پارٹیوں میں میرا بہت آنا جانا ہے۔جی بہت چاہتا ہے کہوں کہ آخر آپ لوگ کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان کے ساتھ دوستی اور افہام و تفہیم کو مظبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ہماری ڈپلومیٹ ز کی ڈنر پارٹیوں میں متعلقہ شعبوں کے چینی لوگوں کی موجودگی اہم ہے۔ یہ ملنا جلنا ،یہ تعلقات، یہ رابطے سفارت کاری کے اہم گُر ہیں۔جس میں پڑ کر ہم دوہرے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔ان کی فنی مہارت اور کاروباری گُروں سے اپنی بزنس کلاس کی تربیت اور ان کے لیے مراعات حاصل کرنے کے ساتھ اُن کے کلچر و تہذیب سے واقفیت اور اپنی ثقافت و کلچر سے انہیں روشناس کروانے کا سنہری موقع حاصل کرسکتے ہیں۔ہمارے اکثر ڈپلومیٹ ز اول تو چینی ڈھنگ سے بول ہی نہیں سکتے ۔جو بولتے ہیں وہ بھی دال دلیے کی حد تک۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان میں سے اکثر خواتین تعلیم یافتہ ہیں۔ سبجیکٹ سپیشلسٹ ہیں۔اعزازی طور پر سکول میں پڑھا سکتی ہیں۔پانچویں درجے میں پڑھنے والے بچے کی انگریزی اور سوشل سڈیز کی ٹیچر کا تلفظ درست نہیں ۔او لیول میں پڑھنے والے بچوں کے آئے دن استاد بدلتے رہتے ہیں۔کبھی اس سکول کا بین الاقوامی معیار تھا۔اس میں یورپی ممالک کے بچے بھی پڑھتے تھے۔ 1960میں اس کا افتتاح چواین لائی نے پاک چائنا فرینڈ شپ کے تحت کیا تھا۔نالائقی دیکھیے کہ اسے چینی حکومت سے منظور کروانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔
میں سانس روکے بیٹھی سُنتی تھی۔میرا تو اپنا پھانڈہ (برتن) بھی ایسا ہی نکلا تھا۔
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply