۲۵ مارچ کو سرچ لائیٹ آپریشن :
گو میر پور میں اور شہروں کی نسبت اَمن کی فضا تھی لیکن ۲۵ مارچ کی رات گیارہ بج کر ۵۹ منٹ پر اچانک دھماکوں نے دہشت پھیلا دی۔ پہلے ٹی وی ٹرانسمیشن کا سلسلہ منقطع ہُوا تو سمجھا گیا کہ ٹی وی کا تکنیکی مسئلہ ہے، پھر کسی نے کہا کہ ٹی وی اسٹیشن کی لائین چلی گئی ہوگی۔ لیکن زوردار دھماکوں اور پھر فائر نگ کی آوازیں بڑھتی گئیں۔پھر گھر کی چھت پہ جاکر آسمان پہ دیکھا تو آگ سی لگی ہوئی تھی۔ شعلے، دھواں اور سرخ آسمان۔۔
تھوڑی دیر میں گھر کی بجلی بھی منقطع ہوگئی۔ جو ڈیڑھ گھنٹے بعد آئی۔ اس دوران رات میں پہرہ دینے والےرضاکار چوکس ہوگئے تھے۔ سب لوگ اکھٹےہوگئے اور اندازہ یہ ہوا کہ یہ جو دھماکے یہاں سے دور ڈھاکہ میں ہوۓ ہیں وہ دراصل عوامی لیگ کے ان کارکنوں کے خلاف فوجی کارروائی تھی جو امن و امان کا سلسلہ میں رخنہ ڈال رہے تھے۔سرکاری دفاتر پہ لوٹ مار اور حکومتی املاک کو تباہ کررہے تھے۔اسکے علاوہ انہوں نے ان علاقوں میں مار کٹائی اور بے دردی سے قتل کا سلسلہ بھی شروع کیا ہُوا تھا جہاں اردو بولنے والے والوں کی اقلیت تھی۔ اور جو بے بس اور نہتے تھے ۔ مثلا ًمیمن سنگھ ، دیناج پور، سہارنن پور، پاربتی پور، رنگ پور ،چٹاگانگ وغیرہ۔ بہت سے ایسے بنگالی جو پاکستان کی سالمیت کے حامی تھے ان کے خلاف بھی بنگالیوں نےمحاذ کھڑا کردیا تھا۔ اسی دوران انڈیا نے ایک ریڈیو اسٹیشن “شوادین” ریڈیو کی نشریات کا سلسلہ شروع کر دیا جو مستقل پروپیگنڈہ مہم چلاتا تھا۔ اس اسٹیشن نے بنگلہ دیش کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا ۔بنگلہ دیش کے حامی پاکستانی ریڈیو کے بجاۓ اسی ریڈیو کو سنتے تھے۔
لسانی بنیاد پہ قتل و غارت گِری اور امن اومان میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کو روکنے اور مخصوص لوگوں کونشانہ بنانے کے لیے پاکستان آرمی عمل میں آگئی تھی۔ ان کے پاس ہنگامہ کرنے والوں کی فہرستیں تھیں جس کی بنیاد پہ ٹارگٹ بنا کے ان لوگوں کو پکڑا گیا۔پھر جو کچھ ہُوا اس کی تلخ داستان تاریخ کا بدترین باب ہے۔ عوامی لیگ کی لبریشن فورس مکتی باہنی کی باقاعدہ تربیت گاہیں انڈیا میں تھیں۔ قتل چاہے آزادی کی دُھن میں دیوانے مکتی باہنی اور بنگالیوں نے اردو بولنے والوں کا بہایا ہو یا صورتحال سے نمٹنے کے لیے جوابی طاقت کا استعمال فوجیوں نے کیا۔ دونوں صورتوں میں موت انسانیت کی ہوئی ۔ لہو کی زبان نہیں، بس سب ہی انسانوں کے خون کا ایک رنگ ہوتا ہے ، سرخ۔اور جس کے بہے جانے کا جتنا بھی نوحہ ہو ،کم ہے۔
کچھ جُھلسے ہوۓ لوگ ہیں اس شہر کا نوحہ
کیوں ان پہ گری برق ِستم گار نہ پوچھو
اس دوران یہ بھی ہُوا کہ ہنگاموں کی صورتحال دیکھتے ہوۓ 27 اپریل 1971 کو ابّی نے دو ماہ کے لیےمجھے اور مجھ سے چار سال بڑے بھائی کو کراچی بھی بھجوا دیا تھا۔ ہم جون میں واپس لوٹے۔ میں آٹھویں سے نویں میں چلا گیا تھا۔اس وقت میں نے بیالوجی کے بجاۓ اکاؤنٹس لی تھی۔میرے بڑے بھائی جو مجھ سےتین سال بڑے تھے نواب پور ہائی اسکول ڈھاکہ سے میڑک پاس کرنے کے بعد کراچی جا چکے تھے تاکہ کالج میں داخلہ لے سکیں۔ وہ اکیلے گئے تھے اور وہاں محفوظ تھے ۔ جبکہ ہم سب گھر والے خطرے میں گِھرےمیرپور، ڈھاکہ میں پھنسے ہوۓ تھے۔
بڑے بھائی کی غیر موجودگی اور ابّی کے بالکل گُم سُم ہو جانے کی وجہ سے میں ساڑھے بارہ برس کی عمرمیں گھر کے سربراہی کے ذمہ دارمنصب پہ پہنچ گیا اور امی کے ساتھ انکے اہم فیصلوں کا شریک بن چکاتھا۔
اپنے علاقے سے باہر کی ہنگامہ خیزی کا اتنا علم نہ تھا ۔ 14دسمبر کو یہ کسی نے شاید ہمارا حوصلہ بڑھانے کے لیے افواہ پھیلا دی تھی کہ پاکستان نے انڈیا نیوی کا ایئر کرافٹ کیرئیر “وکرنٹ” تباہ کردیا ہے۔14اور15 دسمبر کو سب اس کامیابی کا جشن مناتے رہے ۔ خوشی کے نعرے لگتے رہے۔کسی کو نہیں معلوم تھا ڈھاکہ کے علاوہ سیّد پور، پار تی پور ، دیناج پور وغیرہ جیسے علاقے انڈین آرمی کے کنٹرول میں آ چُکے تھے۔لیکن16 دسمبر کو جنگ بندی کی خبر آگئی۔ پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔
علاقے میں انڈین آرمی کے ٹرک آرہے تھے اور لاؤڈاسپیکر سے اعلان ہورہا تھا “ آپ لوگ اپنی چھتوں پہ بنگلہ دیش کا جھنڈا لگا دیں۔جو نہیں لگاۓ گا اسکے ساتھ سختی سے نمٹا جاۓ گا۔ آپ لوگ بالکل محفوظ ہیں۔اور انڈین آرمی کے پہرے میں ہیں۔آپ کی جان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا آپ کے گھر پہ کوئی حملہ نہیں ہوگا۔آپ کی جان کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔لیکن یہ اب پاکستان نہیں یہ بنگلہ دیش بن چکا ہے۔ ہم نے پورےعلاقے کو اپنی حفاظت میں رکھا ہوا ہے۔ہر گھر میں بنگلہ دیش کا جھنڈا لگے۔”
لیکن میر پور میں تو ہر گھر میں پاکستان کا جھنڈا لگا ہُوا تھا۔ اس کو بنگلہ دیش کا جھنڈا بنانے کے لیے پاکستانی جھنڈے کا سفید حصہ نکالا۔ چاند تارے کو نکال کے اسکی جگہ گول لال کپڑا لگایا گیا۔ اس زمانےمیں لال دائرے میں پیلے رنگ کا بنگلہ دیش کا نقشہ تھا ۔ جو کاغذ کاٹ کے اور اس میں رنگ کرکے لگایا گیا۔16 دسمبر کے بعد شدید فکر و پریشانی میں دن گزر رہے تھے۔کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا ہوگا۔
18جنوری کو ہمارے ایک چچا پاکستان آرمی کی جیپ میں پاکستانی ڈرائیور کے ساتھ آۓ۔ انکے ساتھ چار انڈین آرمی کے افراد تھے۔جیپ پہ بنگلہ دیش کا جھنڈا لگا ہوا تھا۔ چچا نے ابّی سے کہا”شکیل بھیا تم لوگ کب تک اس طرح رہوگے ۔ ہم لوگ تو کلو کیمپ چلے گئے ہیں ۔ وہاں سے ہم انڈین ریڈ کراس والوں کے ساتھ انڈیا چلے جائیں گے۔اور وہاں ہفتہ دس دن رُک کے انٹرنیشنل ریڈ کراس کی نگرانی میں پاکستان چلے جائیں گے۔ میرے ابّی صدمے سے کنفیوژ اور گم سم سے تھے۔لیکن امّی باہوش اور مستعد تھیں انہوں نے حاضرجوابی سے جانے کا فیصلہ کرتے ہوۓ کہا کہ ہمارے علاوہ چچا، چچی اور ایک ممانی بھی ہوں گی جن کی گودمیں ایک ماہ کا بچہ تھا اور اس وقت ان کے شوہر، ہمارے ماموں کراچی میں تھے۔ انہوں نے کہا پرسوں 20جنوری ۱۹۷۲ء کو مغرب کے بعد لینے آئیں گے۔ بس کپڑے لے لیجیے گا ۔ اور ہوسکے تو ساتھ آنے والے فوجیوں کو تحفتاً کچھ دے بھی دیجیے گا۔
20 جنوری کو مغرب کے بعد فوجی ٹرک آیا۔امّی نے ٹین کی پیٹی میں گھر والوں کے کپڑے رکھے۔ بستر بندمیں لحاف باندھے ۔اپنے زیورات کو سِل بٹّے سے سیدھا کیا ۔ اور اس کو اپنے پیٹی کوٹ کے نیفے میں اُڑس لیا۔ مکان کے کاغذات کو ایک پلاسٹک میں لپیٹ کے میری شلوار کے نیفے میں اُڑس دیا۔ان کی یہ بر وقت ذہانت بعد میں بہت کام آئی۔ انڈین سپاہیوں نے ہمیں بہت سکون سے سامان رکھنے کو کہا اور ہمارا انتظار کیا۔اس زمانے میں ٹیٹرون کے پینٹس کا بہت زور تھا۔ جو ہندوستان میں بہت مقبول تھا۔ اتفاق سے اس کے دو پیس گھرمیں رکھے ہوۓ تھے جو فوجیوں کی نذر کیے۔ فوجیوں نے ہمارے ٹرانزسٹر ریڈیو کی طرف نظر کی اور ٹی وی کی تعریف کی تو یہ دونوں چیزیں بھی ان کو تحفتاً دے دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے کچھ بھی مانگانہیں تھا۔ ہم نے صرف اپنا مرفی ریڈیو رکھا۔ باقی سجا سجایا گھر ایک بار پھر ہم اسی طرح چھوڑ کےجارہے تھے جیسا ہم نے پچھلا گھر چھوڑا تھا۔
جاتے وقت میں نے دو کاغذ کے لفافے اٹھاۓ ہوۓ تھے ۔ایک میں سفید چیوڑا اور دوسرے میں ٹپالی گُڑ تھا۔ میراارادہ اسے راستے میں ساتھ رکھ کے کھانے کا تھا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ جو اب ہم سے راستہ میں ہمیشہ کے لیے بچھڑنے والا تھا وہ ہمارا بنگالی ملازم لقمان تھا۔جس کی عمر 15 سال تھی۔وہ ۱۹۶۶ء میں بہت چھوٹی عمر سے ہمارے گھر کام کرنے آگیا تھا ۔ اسکا آبائی گاؤں فرید پور تھا۔وہیں جہاں شیخ مجیب الرحمن ۱۹۲۰ء میں پیدا ہوۓ تھے۔ لقمان بہت باوفا اور محبتی تھا۔ ہمارے ساتھ گھر کے فرد کی طرح رہتاتھا۔ جو ہم کھاتے وہ بھی کھاتا ۔ عید بقرعید جیسے میرے کپڑے بنتے اسکے بھی بنتے۔ وہ ہمارے بھائیوں کی طرح تھا لیکن وہ ہمارے ابّی کا بیٹا نہ تھا۔ اسکی زبان بنگلہ تھی اور ہماری اردو۔بنگالی ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں نے اب تک اردو بولنے والی اکثریت میں اسکی بہت حفاظت کی تھی ۔ اپنے جانے سے پہلے محلے والوں کوکہا تھا کہ حفاظت سے اس کو میر پور سے نکلوا دیں تاکہ وہ اپنوں میں اپنے گھر پہنچ سکے۔
وہ بہت تکلیف دہ منظر تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا “میں بھی ساتھ جاؤں گا۔ میں اتنے سال آپ لوگوں کے ساتھ رہا ہوں میں تو آپ ہی لوگ کو جانتا ہوں مجھے بھی ساتھ لے چلیے۔” وہ رو رہا تھا ۔ ایسے میں ٹرک پہ چڑھتے ہوۓ میرا چیوڑے کا تھیلا پھٹ گیا۔ لقمان اسے اٹھانے لگا۔ اور ایسے میں ڈرائیور نے ٹرک چلا دیا۔ مجھے آج تک وہ منظر نہیں بھولتا کہ جب وہ روتے ہوۓ ٹرک کے پیچھے پیچھے بھاگ ریا تھا ، گڑگڑا رہا تھا۔”مجھےبھی ساتھ لے چلو۔ مجھے بھی ساتھ لے چلو۔” اور ہم سب بے بسی سے اسے روتا دیکھ رہے تھے۔ اسکے بعدہم نے اسے کبھی نہیں دیکھا۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں