آرٹیفیشل انٹیلیجنس کیا بلا ہے؟
اِس کا سادہ سا جواب اِس ٹیکنالوجی کے نام یا اصطلاح میں چھپا ہوا ہے:
“مصنوعی ذہانت”
جب سے کمپیوٹر ایجاد ہُوا ہے انسان اسے اپنے جیسا بنانے کی کوشش کر رہا ہے یا اپنے سے بہتر بنانے کی۔ کمپیوٹر اور انسانی دماغ کے تقابل میں جہاں سائینسدان دلچسپی لیتے آئے ہیں وہیں فلسفیوں اور ادیبوں نے بھی اس موضوع پر بہت کچھ لکھا ہے اور اس سب لکھے لکھائے کا خلاصہ یہ تھا کہ کمپیوٹر خود سے سوچ نہیں سکتا یا اپنی غلطیوں سے سیکھ نہیں سکتا اس لئے یہ انسان کی طرح ذہین نہیں ہے۔
کمپیوٹر سائنٹسٹس نے اس کا مشاہدہ کرنے کے لئے شطرنج کے ایک ماہر کھلاڑی کو ایک ایسے کمپیوٹر کے ساتھ شطرنج کھیلنے کو کہا جس میں شطرنج کے داؤ پیچ پروگرامز کی صورت میں فیڈ کر دیے گئے تھے۔ شروعاتی چند میچز میں انسان کمپیوٹر سے ہارتا رہا کیونکہ کمپیوٹر کی فیصلہ لینے کی رفتا اور اس کےدرست ہونے کی شرح انسان سے کئی گنا زیادہ تھی۔ لیکن چند میچز گزرنے کے بعد انسان نے جیتنا شروع کر دیا حتیٰ کہ وہ وقت بھی آیا جب انسان کمپیوٹر کو چند ہی منٹوں میں ہرا دیتا تھا۔
ایسا اس لئے ہُوا کہ انسان نے اپنی ذہانت سے پہلے چند میچز میں نا صرف اپنی ہار سے سیکھا بلکہ کمپیوٹر کی فکس چالوں اور کمزوریوں کا مشاہدہ بھی کیا۔انسان نے یہ سمجھ لیا کہ کمپیوٹر کب کون سی چال چلتا ہے اور میری کس چال کا جواب کس انداز میں دیتا ہے۔ اس کے برعکس کمپیوٹر چونکہ چند فکس پروگرامز کے تحت کام کرتا رہا اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے یا سامنے والے کی چالوں کو سمجھنے کی صلاحیت یعنی کہ “ذہانت” سے محروم تھا اس لئے انسان سے بُری طرح ہار گیا۔پس اب انسان نے کمپیوٹر کو “مصنوعی ذہانت” دے کر اِس فرق کو مَٹانے کی جانب ایک قدم اُٹھایا ہے۔
مختصر الفاظ میں (Artificial Intelligence) کی تعریف یہ بنتی ہے کہ ایک ایسی ٹیکنالوجی جو پرانی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے برعکس اپنی غلطیوں (error)سے سیکھ بھی سکتی ہے اور اپنے مشاہدات (Input) سے خود کو بہتر بھی بنا سکتی ہے۔
لیکن یہ بات واضح رہے کہ آج کی تاریخ تک یہ ذہانت “مصنوعی” ہے، یعنی یہ ذہانت دراصل کمپیوٹر کی اپنی نہیں بلکہ سائنسدانوں ہی کی دی ہوئی ہے ۔
“مصنوعی ذہانت کی کتنی شاخیں ہیں اور یہ انسانیت کے لئے خطرناک ہے یا نہیں؟” اس بحث میں اُلجھنے کی بجائے میں اس ٹیکنالوجی کے کام کرنے کا طریقہ مختصراً بیان کر کے اپنے موضوع سے مُتصل ہو جانا چاہتا ہوں جو فری لانسنگ سے متعلق ہے۔
A Basic Structure of Artificial Intelligence
ذہانت کے نام پر سائینسدانوں کے پاس ماڈل کے طور پرانسانی دماغ ہی تھا اس لئے “مصنوعی ذہانت” کو بھی انسانی دماغ ہی کی طرز پرڈیزائن کیا گیا ہے۔ ایک ذہین انسان کا دماغ جو جو خوبیاں رکھتا ہے وہ سب خوبیاں AIکو مصنوعی طور پر عطا کی گئی ہیں:
1۔ وسیع اور مضبوط یاداشت/ علم/ مطالعہ (Memory)
2۔ خاضر دماغی/ قوتِ انتحاب/ فیصلہ لینے کی طاقت (Performing Speed)
3۔ حکمت (Multiple Programing)
4۔ سیکھنے کی صلاحیت (Learning Skills)
5۔ مُشاہدہ کرنے کی صلاحیت
وسیع یاداشت کے لئے سائینسدانوں نے Cloud Computer کا استعمال کیا ہے۔ ہم Gmail کی Cloud Storage سے تو واقف ہی ہیں۔ Cloud Computer اس سے ایڈوانس ٹیکنالوجی ہے۔ اس میں نا صرف یاداشت بڑھائی جاتی ہے بلکہ “رفتار” یعنی حاضر دماغی کو بھی بڑھا دیا جاتا ہے۔ یعنی Cloud Computers نا صرف اپنی یاداشت کو آپ کے ساتھ شیئر کرتے ہیں بلکہ اپنی طاقت یعنی GPU اور RAM Memory کو بھی آپ کے موبائل میں موجود AI ایپلیکیشن کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ اس طرح ایک AI ایپلیکیشن ایک عام ایپ کی نسبت اپنے اندر زیادہ معلومات رکھتی ہے اور موبائل کی پرفارمنس کی بجائے چونکہ وہ Cloud Computer کی RAM کا استعمال کر تی ہے اس لئے اس کی رفتار بھی ہزار گُنا تیز ہوتی ہے۔
“مصنوعی ذہانت” کی یاداشت معلومات اور ماڈلز پر مشتمل ہے۔ معلومات کو ایسے ہی سمجھیں جیسے گوگل آج ہمارے ہر سوال کا جواب دے دیتا ہے۔ لیکن گوگل پر ہمیں جواب خود ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ ہم مختلف ویب سائیٹس پر جاتے ہیں۔ مختلف آرٹیکلز پڑھتے ہیں اور ایک تھکا دینے والی محنت کے بعد اپنی ذہانت سے کسی ایک جواب پر متفق ہوتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت چونکہ رفتار میں ہم سے کئی گُنا تیز ہے اس لئے وہ یہ کام ایک منٹ کے اندر کر لیتی ہے۔ آپ جب اُس سے سوال پوچھتے ہیں تو وہ سوال آؤٹ پُٹ میں کنورٹ ہوکر اس کے SERVER تک پہنچتا ہے۔ پھر AI کا پروگرام اس سوال کے مختلف جوابات کو Cloud Computer سے تلاش کرتا ہے اور ایک آدھ منٹ میں کسی ایک جواب پر متفق ہوکر اسے آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی پرانی کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے مختلف اور بہتر ا س لئے ہے کہ ملٹی پل پروگزامز کی وجہ سے یہ اپنے فیصلے لینے میں آزاد ہے۔ اس لئے اگر AI سے ایک ہی سوال ہزار بار کیا جائے تو وہ ہر بار اس ایک ہی سوال کا مُختلف الفاظ میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جبکہ اس سے پہلے ایسے پروگرامز ایک ہی فکس جواب دینے کی طاقت رکھتے تھے۔
یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اِسے ایک مضمون میں ہر فرد کے لئے قابلِ فہم بنا دینا جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن پھر بھی میرے خیال میں ہم اِس ٹیکنالوجی کی یاداشت کو اب کچھ حد تک سمجھ چکے ہیں۔
AI ہمارے لئے نئی ہے یعنی بہت سے پاکستانیوں کے لئے نئی ہے کیونکہ ہماری دلچسپیاں کچھ اور ہیں ورنہ یہ ٹیکنالوجی کئی سالوں سے Google Colab پر میسر تھی جہاں ہم جیسے ہی لوگوں نے اِس بچے کو اپنے تجربات کے ذریعے ایک قابل انسان کی شکل دی ہے۔ ہم اس سے کام کرواتے رہے اور یہ input کی صورت میں ہم سے Information یا Models لے کر اپنی Cloud Storage میں جمع کرتی رہی اور اُن سے سیکھ کر دن بہ دن ذہین تر ہوتی چلی گئی۔
مثال کے طور پر میں نے چار سال پہلے Google Colabکی ایک Notebook استعمال کی تھی۔ یہ انجائن آپ کے الفاظ کو پینٹنگ میں بدلنے کی طاقت رکھتا تھا لیکن یہ جو آرٹ جنریٹ کرتا تھا اس کی کوالٹی 500 بائے 500 ہی ہوتی تھی اور پینٹنگ بھی اتنی بُری ہوتی تھی کہ یہ سمجھنا بہت مشکل تھا کہ آخر اس پینٹنگ میں ہے کیا۔ پھر کچھ ماہ بعد اُسی نوٹ بُک نے صارفین کو اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز بطور سیڈ استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ اب ہم اپنی بنائی ہوئی پینٹنگز کو تفریح کے طور پر اس انجائن کی سٹوریج پر اپلوڈ کر کے تجربات کرنے لگے اور یہ ٹیکنالوجی ہم سے سیکھتی رہی۔
یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج ہم Vqgan سے بہتر Artistia اور اس سے بہتر Stable Diffusion کو استعمال کرنے کے بعد Midjourney جیسی طاقت ور ویب سائیٹ تک پہنچ چکے ہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت کردوں کہ یہ مصنوعی ذہانت جو ہر بار نیا فیصلہ کرتی ہے یہ بھی ہماری دی ہوئی معلومات ہی کی بدولت ہے۔ یہ خود سے کچھ نیا نہیں سوچ سکتی۔ مثلاً یہ اس طرح پروگرام کی گئی ہے کہ اگر میں اسے Input کے طور پر ایک گُلدان کی تصویر دیتا ہوں تو یہ اُسے ویسے ہی سیو کرنے کی بجائے اُس کے مختلف حصّے کر لے گی۔ یعنی پھول الگ، پتّے الگ، نیلے پھول الگ، سُرخ پھول الگ، سُرخ پھول کی بڑی پتیاں الگ، چھوٹی پتیاں الگ۔۔۔ اسی طرح گوگل کے کسی آرٹیکل یا کسی کتاب کو بھی یہ مختلف حصّوں میں تقسیم کر کے سٹور کرے گی اور جب ہم اس سے کوئی سوال پوچھیں گے تو یہ اپنی یاداشت میں موجود لاکھوں گُلدانوں کی تصاویر کے ٹکروں کو ملا کر ہر بار ایک نئے گلدان کی تصویر ہمارے سامنے رکھ دے گی یا ایک بالکل نیا آرٹیکل۔۔
یہ ٹیکنالوجی خود سے کچھ نیا نہیں سوچ سکتی۔ اسے کئی طرح سے پرکھا جاچکا ہے۔ جیسے خدا کی تصویر مانگنے پر یہ موجودہ مذاہب ہی کے خداؤں کی تصاویر دکھاتی رہتی ہے۔ اسی طرح جنت اور جہنم کو بھی مذاہب ہی کے مطابق دکھاتی ہے۔
مصنوعی ذہانت چند بڑے شعبوں میں بڑی تیزی سے اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔
- Film Production
- Graphic Designing
- Special Effects
- Music Production
- SEO Management
- 2D Animation
- Content Writing
- Copy Writing
- Script Writing
- Story Writing
- Poetry
- Voice Over
اس کے علاوہ بھی بے شمار شعبے ایسے ہیں جن میں اب AI کام کر رہی ہے ۔ یہ ٹیکنالوجی نا صرف گیت کے لئے ایک نئی دُھن بنا کر دیتی ہے بلکہ اس کے لئے شاعری بھی لکھ دیتی ہے۔ آج کل زیادہ تر گانوں کی دُھنیں اِسی طرح بنائی جا رہی ہیں۔ شاعری کے حوالے سے یہ انگریزی زبان میں تو خاصی ماہر ہے البتہ اُردو سے ابھی اس کا واسطہ نہیں پڑا۔ اُردو زبان کا درد لے کر گھومنے والوں سے میری دست بستہ التجا ہے کہ اگر واقعی اس کی ترقی کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو آپ بھی اس ٹیکنالوجی میں اپنی زبان کا حصہ ملا لیجئے۔ پاکستانی بھی چاہیں تو AIبیسڈ ایپس بنا سکتے ہیں۔ کیا ہمارا غفلت میں رہنا لازم ہے؟
AI ٹیکنالوجی کے بارے میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اس کا استعمال ہر شخص کے لئے آسان ہوگا لیکن میرے تجربات اور خیالات اس بارے میں مختلف ہیں۔ اوّل تو یہ ٹیکنالوجی مفت نہیں ہے۔ جو چند پلیٹ فارمز ابھی مفت سروسز دے رہے ہیں وہ بھی ایک مُدت کے بعد اپنے پیکجز لانچ کر دیں گے اور پھر اتنے مہنگے پلیٹ فارمز صرف ان لوگوں کے لئے کارآمد ہوں گے جو اِن سے حاصل ہونے والی چیزوں کو بیچنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے۔
دوم AI سے کام کروانے کےلئے اس کے input میتھڈ کا علم لازم ہے جس کے لئے متعلقہ فیلڈ سے اچھی خاصی وابستگی ضروری ہے۔ مثلاًآج کل میوزک پروڈکشن ڈیجیٹل طریقے سے ہوتی ہے۔ یعنی اصل باجے یا ڈھول سٹوڈیو میں بجانے کی بجائے مختلف ایپلیکیشنز کی مدد سے کمپیوٹر ہی پر تمام ساز جوڑ کر میوزک بنا لیا جاتا ہے۔ ہاں فلموں کے گانے منظر کی ضرورت کے مطابق ابھی بھی حقیقی سازوں کے ساتھ ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔
AI نے اب اس ڈیجیٹل پروڈکشن کی مشقت کو بھی کم کر دیا ہے۔ موسیقار صرف چند سُروں کے نام (جن میں وہ گانے کی دُھن چاہتا ہے) لکھ کر AI کو بھیج دیتا ہے اور AI چند لمحوں میں اُن سُروں کو جوڑ کر ایک دُھن موسیقار کو بھیج دیتی ہے۔ اگر موسیقار کو دُھن پسند آ جائے تو وہ اس پر گانا لکھ لیتا ہے اور اگر نہ آئے تودوبارہ کمانڈ بھیج دیتا ہے اور AI پھر سے ایک نئی دُھن بھیج دیتی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جس شخص کو سُروں کا علم ہی نہیں وہ AI کو کمانڈ کیسے دے گا؟ اسی طرح گرافک ڈیزائننگ کے Server پر بھی وہی شخص اپنے کام کو آسان کر پائے گا جسے گرافک ڈیزائننگ کی تمام اصطلاحات، ٹولز اور لینگوئجز کا علم ہوگا۔
میرے اس لکھنے کا مقصد اس رویے اور اس بیانیے کا رَد ہے جو نوجوانوں کو کوئی بھی ہُنر سیکھے بغیر فری لانسنگ کے سبز باغ دکھاتا ہے۔ AI جو کہ سالوں سے کام کر رہی ہے اس کی خبر جب ہمارے یوٹیوبرز اور مینٹورز کو ہوتی ہے تو یوٹیوب ایسی وڈیوز سے بھر جاتی ہے جن میں یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ آپ اب اس ٹیکنالوجی سے دنو ں میں کروڑ پتی بن جائیں گے۔
مصنوعی ذہانت کو جتنا میں سمجھ سکا ہوں ا س کے مطابق اس کے کارآمد استعمال کے لئے نا صرف متعلقہ فیلڈ میں مہارت درکار ہے بلکہ ”Prompts Engineering” کا علم بھی لازم ہے۔ Prompts وہ input ہے جو ہم AI کو دیتے ہیں۔ یہ مختلف کوڈز پر مشتمل ہے جو متعلقہ شعبے اور AI کی لینگوئج پر مشتمل ہیں۔ output کا انحصار انہی پر ہے۔ یہ جتنی مہارت سے لکھے جائیں گے آؤٹ پُٹ اتنا ہی بہتر ملے گا۔
آپ اگرAI سے اچھا کام لینے کے قابل بن جائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نا صرف خود روزگار کما سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کی معاشی ترقی میں بھی حصّے دار بن سکتے ہیں۔ آپ اس کی مدد سے فری لانسنگ کر سکتے ہیں لیکن اسے سیکھنے کے بعد اور اگر ہم اس ٹیکنالوجی سے آج بے خبر رہ گئے تو آنے والے کئی سالوں تک ہم مارکیٹ میں بالکل اَن پڑھوں کی طرح گھومیں گے۔ کوشش ہے کہ یہ موضوع جاری رہے اور جلد Prompts Engineering سے متعلق ایک جامع تحریر بھی پیش کروں گا ۔ فی الحال یہی گزارش ہے کہ کسی نئی ٹیکنالوجی کو دجالی یا انسان دُشمن سمجھنے کی بجائے اُسے سمجھنے اور سیکھنے کی کوشش ہی میں ہماری بھلائی ہے تاکہ ہم بھی باقی دنیا کے ساتھ چل سکیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں