آٹھ اکتوبر دو ہزار پانچ/حسان عالمگیر عباسی

دو تین دنوں سے مسلسل ویڈیوز دیکھ کر آٹھ اکتوبر کی صبح یاد آنے لگی ہے۔ سکول میں اسمبلی جاری تھی۔ ایک لڑکے کو تلاوت کے لیے بلایا گیا۔ ابھی وہ طسم پہ تھا جب یکدم زمین غصے سے لال پیلی ہو گئی۔ ہمارے ساتھ پیچھے ایک بھینس بھی سیب کے درخت سے باندھی ہوئی تھی۔ میرا سارا دھیان اس بھینس کی حرکتوں پہ تھا۔ وہ ناچ رہی تھی۔ بے ہنگم ناچ رہی تھی۔ اس کے پاؤں میں پڑے گھنگروؤں سے آوازیں پیدا ہو رہی تھیں۔ زمین جب غضب میں زرد پڑی تو مجھے لگا بھینس نے حملہ کر دیا ہے اور اس لیے سب چیخ و پکار کر رہے ہیں۔ یہ زلزلہ کیا ہوتا ہے اس سے پہلے میرے علم میں نہیں تھا۔ استانیاں اشاروں سے ہمیں زمین پہ بیٹھنے کو کہہ رہی تھیں اور بھاگنے سے منع کر رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر میں اڑے ہوش پلٹے تو پتہ لگا کہ یہ دراصل ہوا کیا ہے۔ ہمیں چھٹی دے دی گئی۔ مجھے لگا شاید یہ بس سکول میں ہی ایسا ہوا ہے۔ گھر آیا تو وہاں بھی عجیب و غریب مناظر دیکھنے میں آئے۔ سب جائزہ لینے نکل گئے۔ کہیں نقصان تو نہیں ہو گیا۔ کسی کی چھت تو نہیں گر گئی۔ کوئی زخمی تو نہ ہوا۔ فوراً ہی خیر کی خبریں آنے لگیں۔ مجھے لگا شاید پورے گاؤں میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے۔

اس وقت اینٹینے کا زمانہ تھا۔ ٹی وی چالو کیا گیا۔ پی ٹی وی لائف لائن آج بھی یاد ہے۔ صبح و شام ایک خوف و ہراس کا ذریعہ تھا یہ سب۔ کئی بار مساجد میں اعلانات ہوئے۔ آفٹر شاکس کی خبریں پہنچنے لگیں۔ پی ٹی وی پہ ایک ڈرامہ نشر ہونے لگا۔ ایک خوفناک کردار اس میں بار بار کہا کرتا تھا کہ ‘ہیک واری فر آسی۔’ ایک اور ڈرامہ بھی جاری ہوا۔ مجھے کچھ مناظر یاد آرہے ہیں۔ خواتین ملبے تلے ہیں اور زیورات سے لدی ہوئی ہیں اور لوٹنے والے جلدی میں خوف و ہراس میں ان کے کان اور ہاتھ کاٹ رہے ہیں۔ مجھے جب لگا کہ آفت پورے ملک میں آئی ہے تو یکدم دماغ والدہ کی طرف گیا۔ وہ سکول ٹیچر تھیں۔ واپس جلدی پہنچ گئیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ اس وقت گاڑی پہ سوار تھیں تو انھیں اتر کر خبر ہوئی تھی اور سکول میں برپا شور نے ہی سب بتا دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے ساتھ ہی مظفر آباد ہے۔ وہاں تباہیاں ہوئی تھیں۔ روزانہ امدادی جہاز ہمارے برآمدے کے اوپر سے گزرا کرتے تھے۔ بہت قریب سے گزرتا دیکھ کر ایک مختلف احساس پیدا ہوتا تھا۔ ایک بھائی جو جہازوں کے بارے خاصی  واقفیت رکھتے تھے روزانہ ہمیں معلومات دیا کرتے تھے۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ خوف و ہراس افطاریوں کے مزے بھی لے اڑا تھا۔ آہستہ آہستہ چیزیں نارمل ہونے لگ گئیں۔ ہم نے منصوبہ بنایا کہ ہم متاثرہ علاقوں کی طرف چلتے ہیں۔ ہم گئے اور ٹوٹی پھوٹی بلڈنگز اور زخمی زخمی سڑکیں دیکھ کر واپس آ گئے تھے۔ ترکی اور دیگر ممالک کے بچوں جوانوں پہ ابھی بہت کڑا وقت ہے۔ بہرحال ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply