محبت کی ازلی کہانی
شعبان احمد
سنو!!! "میری محبوبہ میں جب اپنی تیسری شعوری آنکھ سے اپنی روح کی گہرائی تک جھانکتا ہوں تو نیلگوں شفاف بہتے پانی کی ندی پر تمہارا عکس پاتا ہوں"۔تم ایک ایسا نغمہ ہو جو میرے دل کی ڈھڑکنوں پر ہر وقت بجتا ہے۔ اسے کوئی آواز دے کر سُروں میں ڈبوکر میں دنیا کے سامنے پیش کرنے سےعاری اور انکاری ہوں۔میرا وجود ایک دہکتی ہوئی دوزخ بنا ہوا ہے، میں کیسے ٹھنڈی آہ بھر کرتمہاری آتش خیز انگڑائیوں کے بارے سوچنے پر قابو پاسکتا ہوں؟
جب میں اپنی انگلیوں کی پوروں کو دیکھتا ہوں تو ایک لمحے کیلئے حیران ہو جاتا ہوں۔ تمہارا لمس جو کہیں بھی موجود نہیں ، ان میں نور بھر دیتا ہے اور انہیں ایسے روشن کرتا ہے جیسے طلوع آفتاب سے رات کی وحشت اور گھمبیر کالے سیاہ سائے سے زمین کا ہر ذرہ آزاد ہوکر روشنی کے گیت گاتا ہے۔میرے ہونٹوں پر تمہارا نام کسی مرجھائے ہوئے پھول پر شبنم کے پڑنے والے چند قطروں کی مانند مجھےپھر سے تازہ دم کردیتا ہے۔محبت کے چار حروف میں سمٹا تمہارا وجود چنبیلی کے پھول کی طرح مہکتا، جھرنوں کی طرح بہتا،ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کی طرح چلتا،چاند کی طرح روشن ہوتا،سورج کی طرح دہکتا میری روح میں تمہارے احساس کی خوشبو بکھیر دیتا ہے۔نس نس میں تم بہتی ہو،تمہارا احساس میرے ساتھ میرے سائے کی طرح ہمیشہ قدم ملا کر چلتا ہے۔
میں ایک گمشدہ انسان ہوں جو تمہاری ذات کے غلاف میں کہیں چھپا ہوا ہے،میری جوان اور حسین محبوبہ میرے قریب بیٹھ جاؤ اور سنو دھڑکنوں کا ارتعاش،محسوس کرو سانسوں کی تپش،دیکھو آنکھوں کا کھارا بہتا پانی اور وہ آگ جو مجھے اندر سے جھلسا رہی ہے۔ میری جوان اور متاع جان محبوبہ میں تم پر بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر تمہارے وجود کی رنگینیاں میں کاغذ کی کوری سطح پر بکھیر کر اس کے کائنات میں بکھرتے رنگوں کو قید نہیں کرنا چاہتا،میں اپنے تمام غموں کا تمہاری خوشیوں سے ہرگز موزانہ نہیں کرتا۔تم محبت کےمحل کے ماتھے پر سنگ مرمر کی لگی ہوئی وہ تختی ہو جسے دیکھ کر محبت جوان ہوتی ہے،پروان چڑھتی ہے اور میں دکھوں کی قبر پر مرتب ایک کتبہ جو ہمیشہ ہی نحوست کی علامت رہا جسے دیکھ کر ظالم موت کا تصور رگوں میں بہتے گرم خون کو بھی ٹھنڈا کر دیتا ہے یا پھر کسی دوشیزہ کی خوف سے دبی ہوئی سسکی یاکسی شیر خوار بچے کی چیخ جو روح تک لزرا دے۔
میری روح راکھ کی مانند ہے جسے روز ہوا کسی باغیچے میں دم توڑتے ہوئے پھولوں کی میتتوں پر بکھیر دیتی ہے جسکی سیاہ کاری ان کا حسن چھین کر انہیں بے نور و رنگ کردیتی ہے،بہار کے موسم میں پہاڑوں پر پڑی برف کی طرح تمہاری یاد بھی میرے منجمند آنسوؤں کو بہا کر آنکھوں کی ندی سے گالوں کے خشک میدانوں پر بہا دیتی ہے،سنو میری جان محبوبہ میں اب تھک چکا ہوں، میری روح کانپ رہی ہے ایک لمحے کیلئے رک جاؤ اور مجھے اپنا چہرہ دیکھنے دو۔ کوئی تیسری قوت مجھے تمہاری جانب دھکیلتی ہے جس سے میں منہ نہیں موڑ سکتا،روٹی اور چھت کے تصور نے آوارہ مزاج کائنات کے سربستہ رازوں کو جانننے والوں کو غلام بنا لیا ہے ۔مجھے تمہاری ذات کے لبادے کی ضرورت ہے، تمہاری روح کے غلاف کی خواہش ہے، مگر میری متاع جان ہر بار ایک خواب کے پردے کےپیچھے چھپ کر ان خواہشات کا اظہار ایک چاقو کی طرح اس پردے کو چاک کر دیتا ہے جہاں میں اور تم چھپ کر ملتے ہیں اور خدا کے حضور اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں اور اب میں بھول چکا ہوں سزا اور جزا کا تصور جب سے یہ سنا ہے محبت گناہ نہیں۔
شعبان احمد
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں