مجوّزہ تحفظِ والدین قانون: ایک تنقیدی جائزہ (2)-محمد مشتاق

  ڈپٹی کمشنر کو شکایت 

اس بل کے ذریعے ایک دفعہ پھر بیوروکریسی کو عدالتی اختیارات دینے کی سعی کی جارہی ہے۔ چنانچہ بل کی دفعہ 4 (4) میں قرار دیا گیا ہے کہ بے دخلی کا نوٹس ملنے کے بعد اگر مقررہ مدت میں مذکور شخص (بچہ/بچی یا بہو/داماد یا پوتا/پوتی یا نواسا/نواسی) گھر سے نہیں نکلا، تو پھر والد/والدہ کو حق ہوگا کہ وہ اس کے خلاف ڈپٹی کمشنر کو شکایت کرے۔ اس کے بعد دفعہ 4 (5) میں تفصیل دی گئی ہے کہ ڈپٹی کمشنر اس شکایت پر کیسے کارروائی کرے گا اور عدالتی اختیارات کا استعمال کرے گا اور بے دخلی کا حکم جاری کرسکے گا۔
واضح رہے کہ آئینِ پاکستان کی دفعہ 175 (3) کی رو سے لازم تھا کہ 14 سال کے اندر یعنی 1987ء تک عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ کردیا جاتا، مگر اس پر عمل درآمد میں بہت تاخیر ہوئی تا آنکہ 1996ء میں سپریم کورٹ نے الجہاد ٹرسٹ کیس میں اس بارے میں حکم دیا اور پھر خواہی نخواہی حکومت کو یہ بات ماننی پڑی۔ اس کے بعد بھی مختلف طریقوں سے انتظامیہ نے عدالتی اختیارات واپس لینے کی کوشش کی ہے اور عموماً اس کےلیے اسی طرح کے طور دروازے استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً مالاکنڈ ڈویژن میں 1994ء، 1999ء اور 2009ء میں “شرعی نظامِ عدل ریگولشنز” کے ذریعے ایسا کیا گیا۔ موجودہ بل اسی چور دروازے کی ایک مثال ہے۔

یہ فوجداری معاملہ ہے یا دیوانی؟
بہ الفاظِ دیگر، اس مسئلے کا حل سزا ہے اصلاح؟
اس بل کی دفعہ 3 میں اس بچے/بچی کےلیے سزا مقرر کی گئی ہے جو والد/والدہ کے گھر سے نکالے۔ اس فعل پر ایک سال قیدِ با مشقت یا جرمانے یا دونوں سزائیں دی جاسکیں گی۔
پھر دفعہ 4 (2) میں اس بچے/بچی یا بہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کےلیے سزا مقرر کی گئی ہے جسے والد/والدہ نے گھر سے نکلنے کا نوٹس دیا لیکن وہ مقرر مدت میں گھر سے نہ نکلے۔ یہ سزا ایک ماہ کی قید یا پچاس ہزارروپے جرمانے یا دونوں کی صورت میں ہوسکتی ہے۔
بل کی دفعہ 6 میں کہا گیا ہے کہ والد/والدہ کی شکایت پر اگر پولیس نے گرفتاری کی تو پھر مجسٹریٹ کی عدالت میں چلے گا۔ (اس پہلو پر مزید بحث آگے آئے گی۔)
تاہم، جیسا کہ مذکور ہوا، دفعہ 4 (4) میں کہا گیا ہے کہ والد/والدہ کی جانب سے بے دخلی کے نوٹس کے باوجود بچے/بچی یابہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کے گھر سے نہ نکلنے کی صورت میں والد/والدہ کو حق ہوگا کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو شکایت کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس کو مذکورہ شخص کے خلاف شکایت اور پھر اس کی گرفتاری اور اس پر مقدمے کی بات اس صورت میں ہوگی جب اس شخص نے والد/والدہ کو گھر سے نکالا ہو، البتہ ڈپٹی کمشنر کے سامنے معاملہ تب آئے گا، جب والد/والدہ اسے گھر سے نکالنا چاہیں۔
اس دوسری صورت کےلیے دفعہ 4 (5) میں ڈپٹی کمشنر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے شخص کو بردستی گھر سے نکال سکتا ہے اور یہ بھی قرار دیا گیا ہے کہ ڈپٹی کمشنر یہ عذر بھی قبول نہیں کرے گا کہ یہ گھر اسی بچے/بچی یابہو/داماد یا پوتے/پوتی یا نواسے/نواسی کا ہے جس کو گھر سے نکالا جارہا ہے!
البتہ دفعہ 4(5) کی پہلی شرط میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ شخص کی بے دخلی کےلیے کارروائی شروع کرنے سے قبل ڈپٹی کمشنر مناسب سمجھے تو مقامی یونین کونسل کے چیئرمین یا ایڈمنسٹریٹر کے ذریعےفریقین کے درمیان اصلاحِ احوال کی کوشش بھی کرسکتا ہے۔ اصلاحِ احوال کی کوشش کا ذکر اس پورے قانون میں بس اسی ایک مقام پر ہے حالانکہ تمام قانونی تنازعات میں، اور بالخصوص عائلی امور میں، قانون کا زور اسی پہلو پر ہونا چاہیے۔
یہ امر اس لحاظ سے بھی قابلِ غور ہے کہ عدالتیں پہلے ہی ہزاروں مقدمات کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہیں اور ان پر مزید مقدمات کا بوجھ لادنے کے بجاے “تنازعات کے حل کے متبادل طریقوں” (alternate dispute resolution) پر پوری دنیا میں زور دیا جارہا ہے اور ہمارے ہاں اعلی عدلیہ کے جج صاحبان بھی اس طرف مسلسل توجہ دلارہے ہیں۔ اس پر بھی نظر رہے کہ عائلی امور میں ریاست کے عمل دخل کو بڑھانے سے ریاست ایک خوفناک دیو کی صورت اختیار کرلے گی۔ مغربی ممالک کی قانون سازی کی نقل کرنے سے قبل اس پر غور ضروری ہے کہ وہاں صورتِ حال مختلف ہے کیونکہ وہاں خاندانی نظام تہس نہس ہوچکا ہے اور معاشرہ انفرادیت پسندی کی وجہ سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی پر گامزن رہتا ہے۔ آپ وہاں کی نقل اتارتے ہوئے پہلے “گھریلو تشدد کے خلاف تحفظ” کا قانون بنا کر ریاست کو گھر میں گھسا دیتے ہیں اور والدین کو بچوں کی تادیب سے بھی روک دیتے ہیں اور پھر والدین کی حالتِ زار دیکھ کر انھی والدین کےلیے “بے دخلی کے حق” کےلیے قانون بناتے ہیں اور اس میں پھر ریاست کو گھر کے اندر گھسا دیتے ہیں۔ یہ روش انتہائی خطرناک ہے۔ ہر ہر معاملے میں ریاست کو لانے کے بجاے مناسب راستہ یہی ہے کہ خاندان اور معاشرے کے دباؤ کو استعمال کرکے اصلاحِ احوال کی کوشش کی جائے۔
واضح رہے کہ گھریلو تشدد کے متعلق قانون سازی میں عموماً اختیارات فیملی عدالت کو دیے گئے ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ ان امور میں دیوانی قانون کے اصولوں کا اطلاق ہوگا۔ تاہم سندھ میں اس قانون سازی میں اختیارات مجسٹریٹ کو دیے گئے ہیں اور یوں معاملے کو فوجداری بنادیا گیا ہے۔ یہاں والدین کے تحفظ کے نئے بل میں اختیارات پہلے مرحلے میں ڈپٹی کمشنر کو اور اس کے بعد اپیل کے مرحلے پر سیشنز جج کو دیے گئے ہیں (دیکھیے بل کی دفعہ 7)۔ یوں ایک عجیب ملغوبہ وجود میں آجائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گھر کی ملکیت کس کے پاس ہے؟
بل کی دفعہ 4 (7) میں کہا گیا ہے کہ اگر والدین میں کوئی ایک کسی کو گھر سے نکال رہا ہو، تو ضروری ہے کہ گھر تنہا اسی کی ملکیت میں ہو، اور یہ کہ اگر گھر والدین میں دونوں کی مشترک ملکیت میں ہو، تو کسی بچے کو نکالنے کےلیے نوٹس پر والدین میں دونوں کے دستخط ہونے ضروری ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ یہ شق اس دفعہ کی ذیلی شق (1) کے ساتھ متعارض ہے کیونکہ وہاں قرار دیا گیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ گھر اس والد/والدہ کی ملکیت میں ہو، بلکہ چاہے اس والد/والدہ نے یہ گھر کرایے پر لیا ہو، یا کسی بھی اور طریقے سے اس کے قبضے میں ہو (in his possession by any means)، تب بھی اس کے پاس یہ اختیار ہوگا۔
اس تضاد سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسودہ بناتے وقت مناسب غور نہیں کیا گیا۔
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply