عابد میر اور اس کے بروٹس/مشتاق علی شان

گزشتہ دو دن سے سوشل میڈیا پر ایک زلزال بپا تھا کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ہمارے نظریاتی دوست اور ممتاز مارکسسٹ ادیب،دانشور،مترجم،صحافی اور پبلشر عابد میر اسلام آباد میں جبری گمشدگی کا نشانہ بن چکے ہیں۔

ان کی بازیابی کے لیے سوشل میڈیا پر ایک توانا آواز اُبھری ۔یہ آواز ان کے پیاروں،ان کے دوستوں،ان کے انقلابی رفقاء اور چاہنے والوں کی تھی۔یہ آواز ایک ایسے فرد کے لیے تھی جس نے ہمیشہ اپنے انقلابی آدرشوں کے بموجب بلا تفریق ہر مظلوم کے لیے آواز بلند کی ہے۔

اس کی جبری گمشدگی کی خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور مجھے چند برس قبل کا وہ دن یاد آیا جب ہمارے مشترکہ دوست ننگر چنا جبری طور پر لاپتہ کیے گئے اور عابد میر کی پریشانی ۔۔۔پل پل رابطہ ۔ ”کامریڈ !ننگر چنا کا کچھ پتہ چلا !”ہر میسج یا فون پر اس کا پہلا سوال یہی ہوتا ۔
ننگر چنا کی بازیابی کے لیے ہماری مقدور بھر عملی کاوشوں میں کامریڈ عابد میر کا”حال حوال”ہمارے ہمقدم اور ہم آواز تھا۔
خیر قصہ مختصر عابد میر کی جبری گمشدگی کا سن کر میں نے گزشتہ شب اپنی پوسٹ (جسے ڈاکٹر شاہ محمد مری کی ویڈیو کے بعد میں نے ڈیلیٹ کر دیا تھا کہ انھوں نے عابد میر کی خیریت کی اطلاع دی تھی)میں لکھا تھا کہ اگر انھیں بازیاب نہیں کیا جاتا تو میں مجبور ہوں کہ اپنے نظریاتی رفیق کی بازیابی کے لیے پیرس میں پاکستانی ایمبیسی کے سامنے تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کروں کہ میرے بس میں یہی کچھ ہے۔

خیر آج کے دن عابد میر کی مشکوک حالت میں دو ویڈیوز سامنے آئیں جس کی باڈی لینگویج چیخ چیخ کر اس نفیس روح پر ہونے والے جبر کی گواہی دیتی ہے۔

یہ سب کچھ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ رہا ،تاوقتیکہ   مجھے آج ان کا ذاتی میسج موصول ہوا۔(مجھے امید ہے یہ ساری روداد عنقریب آپ خود عابد میر کی زبانی سن پائیں گے)
لیکن اس سے زیادہ تکلیف دہ میرے لیے وہ خصیص عمل رہا جس میں تکلیف کی اس گھڑی میں عابد میرکے سارے نام نہاد ترقی پسند،انقلابی،لبرل،قوم پرست،نسل پرست اور مذہب پرست مخالف عناصر نے ایک مقدس اتحاد کرتے ہوئے کم ظرفی اور گھٹیا پن کی آخری حدود کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

عابد میر کئی ایک کتابوں کے مصنف اور مترجم ہیں لیکن حال ہی میں ان کی منظرِ عام پر آنے والی کتاب “ڈیپریشن ڈائری”کو قبول عام کی جو سند ملی اس سے جہاں اس کے دوستوں ،متروں کو یگانہ مسرت کی فردوس تو حاسدین کو حسد اور جلاپے کی وہ جہنم نصیب ہوئی جس کے شعلوں کی تپش اس کی گمشدگی کے موقع پر کسی وحشیا کے ننگے پن سے بڑھ کر سامنے آئی ۔

گو اس کی گمشدگی سے قبل ہی الزامات کا ایک طومار تھا لیکن اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے جس طرح اس کی کردار کشی کی گئی اس کے سامنے مذمت کا لفظ چھوٹا معلوم پڑتا ہے۔ کوئی مخالفت میں اس سطح تک گر سکتا ہے ؟یہ بہادروں کا شیوہ نہیں کہ مصیبت کے مارے دشمن کو اس حالت میں اس طور گھیرا جائے ۔کم از کم اس کی بازیابی کا انتظار کر لیا جاتا لیکن ان کلیجوں میں شاید بلوچستان کے ایک اور مسخ شدہ لاشے سے بھی ٹھنڈک نہیں پڑنے والی۔

آئیے ان اتہامات کا جائزہ لیتے ہیں کہ “عابد میر خواتین کو ہراساں کرنے کا عادی مجرم ہے،وہ ایک بلیک میلر اور انانیت کا مریض ہے،وہ گمشدگی کا ڈرامہ رچا کر بلوچستان کے مِسنگ پرسنز کا کیس کمزور کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔”

میں جانتا ہوں کہ اس پر جو اتہامات وارد ہیں وہ اس کے پر خچے اُڑانے کی شکتی رکھتا ہے ۔جلد اس کا مظاہرہ آپ دیکھ بھی لیں گے اور اگر وہ ایسا نہیں کر پایا تو اس سے اعلانِ براءت کرنے والی پہلی آواز ہماری ہو گی۔لیکن محض الزامات کی بنیاد پر اس کی کردار کشی ناقابل برداشت ہے ۔میں اپنے بھائی اپنے دوست اپنے کامریڈ کے دفاع کا ناقابل تنسیخ حق رکھتا ہوں اگر وہ غلط ہے تو ثابت کریں ورنہ یہ دھندہ بند کریں۔۔

مسئلہ یہ ہے کہ عابد میر کو راون صفات قرار دینے والے یہ مہا پُرش خود شری رام جی کے کردار تک سے واقف نہیں ۔سو عابد میر کے ایک نظری و فکری رفیق کے طور پر (جس کا اس سے کم از کم سات سال کا تعلق اور فقط ایک ملاقات ہے )میرا فرض ہے کہ جتنا میں نے انھیں جانا اور سمجھا ان کا تعارف کرا دوں ۔

عابد میر ایک بلوچ مارکسسٹ ہے یہ اس کا پہلا مستند حوالہ ہے اور اس کے مقابل اس کے باقی حوالے ثانوی ہیں ۔چونکہ وہ ایک مارکسسٹ ہے سو وطن پرستی اس کے خمیر میں شامل ہے ایسی وطن پرستی جس کے اُفق پر بلوچستان سے لیکر دنیا بھر کے مزدوروں ،کسانوں اور مظلوموں کا بوجھ ہے سو وہ نسل پرستی کی کسی سامراجی مارکہ غلیظ ٹوکری سے لیکر کسی ریاستی بیانیے کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔اور یہ اس کے بڑے “گناہوں “میں سے ایک ہے۔

وہ تاریخ کے جدلی مادی نقطہ ء نظر سے الہام پانے والا ایک قلم بدست سپاہی ہے جس کے فکر ونظر سے ریاستی و غیر ریاستی کرائے کے بندوق بدست سپاہی خائف ہیں۔

عابد میر کا ایک اور بھی بہت بڑا مسئلہ ہے جیسے غالب کو شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا اسی طرح اس کم بخت اشتراکی کوچہ گرد کو دوستوں کے انتخاب نے رسوا کیا اور کر رہا ہے۔

لیکن اس میں دوش اس کی سادہ اور معصوم آتما کا ہے ۔بے ضرر انسان ہے سو سب کو بے ضرر سمجھتا ہے،پاگل کہیں کا۔اسے خبر ہی نہیں کہ “جارج آرویل”کے اینمل فارم”سے قطع نظر وہ درندوں کے ایک فارم میں رہتا ہے۔اپنے ہی ہم جنسوں کو چیر پھاڑ کھا جانے والے درندوں کے فارم یا سرکس میں ۔

میں بہت کچھ لکھنا چاہتا ہوں لیکن لعنت برسے لکھ نہیں پا رہا بس ایک احساس شدت سے میری روح پر تازیانے برسا رہا ہے کہ روما کے جیولیس سیزر کے سینے میں خنجر گھونپنے والا فقط ایک بروٹس تھا اور عابد میر کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے والے بے شمار بروٹس ہیں ۔وہ کس کس سے کہے گا کہ “بروٹس تم بھی !”

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ ہمارا ہم قبیلہ ،ہمارا یار بھی کیا بختِ سیاہ لیکر دنیا میں میں آیا ہے جس کا مقسوم اعتماد اور دوستی کی کرچیوں پر برہنہ پا رقص ہے۔
آخر میں یہی عرض ہے کہ ایک سنگت (کامریڈ)کے طور پر میں عابد میر کے ساتھ کھڑا ہوں،میں بطور ایک رفیق مشکل اور تکلیف کی گھڑی میں اسے تنہا چھوڑنا اپنے مشترکہ آدرشوں کی توہین سمجھتا ہوں ۔ہمت ہے تو اسے غلط ثابت کر دو اور مجھے لعنت کی سولی پر مصلوب کر دو ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply