اس پارے میں سورۃ النساء کی آیت 24 سے لیکر 147 تک ہے۔ چوتھے پارے کے آخر میں بعض وہ رشتے ذکر کیے گئے تھے جن سے نکاح کرنا جائز نہیں۔ اسی سے پانچویں پارے کا آغاز ہوا۔ نکاح کے معاملات کو اللہ تعالی نے بہت تفصیل سے بیان کیا ہے اس سے نکاح کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں یہ بتایا گیا کہ جو عورت کسی اور کے نکاح میں ہو اس سے نکاح جائز نہیں، اس کے علاوہ ہر عورت سے نکاح کیا جاسکتا ہے۔ مہر کی ادائیگی مرد پر لازم ہے، لیکن اگر عورت خوشی سے معاف کردے تو یہ جائز ہے۔ یہ بھی ہدایت دی گئی کہ اگر معاشی طور پر کمزور ہونے کے باعث آزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو لونڈی سے نکاح کر سکتے ہو۔ لیکن مہر کی ادائیگی پھر بھی لازم ہے گو کہ مقدار کم ہوگی۔ لونڈی کے حقوق آزاد عورت کے مقابلے میں آدھے ہوتے ہیں لہذا اگر اس سے گناہ سرزد ہوجائے تو اس کے اوپر حد بھی آدھی نافذ ہوگی۔
اللہ کے احکام میں بظاہر پابندیاں ہیں لیکن اصل میں یہ باعث رحمت ہیں۔ بہت زیادہ آزادی ہمیشہ تباہی لاتی ہے۔
اس کے بعد یہ واضح کیا گیا کہ باہمی رضامندی سے تجارت اور مناسب نفع لینا جائز ہے۔ لیکن کسی کا مال غصب کرنا، لین دین میں ظلم زیادتی کرنا، اور ہیراپھیری کرنا حرام ہے۔ خودکشی کی ممانعت کی گئی ہے، یہ کبیرہ گناہ ہے۔ ساتھ یہ خوشخبری سنائی کی اگر کبیرہ گناہوں سے بچو گے تو اس کی برکت سے صغیرہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔
اللہ نے فضیلت کے مختلف معیار رکھے ہیں اس لیے یہ بھی بتایا گیا کہ جو کسی اور کو ملا اس کی حسرت یا اس سے حسد مت کرو۔ ہر کسی کو وہی ملتا ہے جو اس نے کمایا۔ کسی کی فضیلت دیکھ کر اللہ سے اس کا فضل طلب کرو۔
مرد کو عورت پر ایک درجہ حاصل ہے، مرد کو قوام اس کی ذمہ داریوں کی وجہ سے بنایا گیا ہے۔ تقویٰ کی بنیاد پر فضائل میں بعض اوقات عورت کا درجہ مرد سے بڑھ جاتا ہے۔ یہاں فضیلت کا معیار جنس ہرگز نہیں ہے۔
عورت اگر نافرمان ہو اور حدود سے نکلنے لگے تو اس کو سزا دی جاسکتی ہے، اس سزا کے بھی درجات مقرر ہیں۔ اطاعت گزار عورت کو ستانا ہرگز جائز نہیں۔ نیک بیوی کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ شوہر کی فرمابردار ہوتی ہے، اس کی غیر موجودگی میں اپنی عزت، اس کے مال اور راز کی حفاظت کرتی ہے۔
زوجین کے درمیان اگر ناراضگی حد سے بڑھ جائے تو اس کا حل بھی بتایا گیا کہ خاندان کے بزرگوں میں سے ثالث مقرر کرلیں جو حالات ٹھیک کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ اختلاف کی صورت میں صلح کی ترغیب دی۔ لیکن اگر صلح کی گنجائش نا ہو تو علیحدہ ہونے کی اجازت ہے۔ ایک سے زائد بیوی ہو تو حتی الامکان عدل کرو گوکہ مکمل عدل کرنا انسان کے اختیار سے باہر ہے۔
اسکے بعد پھر اللہ تعالی نے اپنی عبادت، شرک سے بچنے، والدین، قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، رشتہ دار پڑوسی، غیر رشتہ دار پڑوسی، مجلس میں بیٹھنے والے ساتھی، مسافر لونڈیاں غلام سب کے ساتھ احسان کا حکم دیا۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ کسی بھی مجلس، درسگاہ، سفر وغیرہ میں آپ کے ساتھ بیٹھنے والوں کا بھی حق ہے۔ بلا وجہ کسی کو تنگ نہ کریں مثلا ساتھ بیٹھنے والے کو کہنیاں مارنا، جگہ نہ دینا، بلاضرورت پھیل کر بیٹھ جانا اس سب کی ممانعت ہے۔ لونڈیوں اور غلاموں پر ملازمین اور نوکروں کو قیاس کیا جاسکتا ہے۔
اللہ کو بہت زیادہ خود پسندی بھی پسند نہیں۔ چناچہ اپنی تعریف کرنے والا بھی اللہ کو پسند نہیں۔ بخیل کو عذاب کی وعید سنائی گئی۔ ساتھ ہی دکھاوے کے لیے خرچ کرنے والے کو بھی شیطان کا ساتھی کہا گیا۔ انسان اپنا کیا ہوا ہی کماتا ہے اللہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ اور نیکی کو اجر میں بڑھاتا رہتا ہے۔
اس کے بعد تیمم کا حکم آیا کہ اگر ضرورت کے وقت پانی میسر نہ ہو تو پاکی حاصل کرنے کے لیے پاک مٹی سے تیمم کر لو۔
یہاں بعض خصوصیات اہل کتاب کی بھی بتائیں گی اور ان کے برے اعمال کا ذکر کیا گیا جن میں سر فہرست کتاب اللہ کی آیات کو چھپانا، ان میں تحریف کرنا اور طاغوت کی پیروی کرنا تھا۔ انہی اعمال کی بدولت اللہ تعالی نے ان پر لعنت کی ہے۔
یہ بھی واضح کردیا کہ شرک کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا اس کے علاوہ ہر گناہ کی معافی ہے (اللہ کی مرضی سے)۔ دیوی دیوتا اور بتوں کو پکارنا شرک ھے
کفار کو وعید اور مومنین کو جنت کی خوشخبری سنائی گئی۔ پھر بعض ہدایات خاص مسلمانوں کے لیے لائی گئی کہ امانتیں ان کے اہل لوگوں کو دو، عدل کرو، انصاف پر قائم رہو، جھوٹی گواہی سے بچو چاہے اس کی زد میں تمہارے اپنے والدین اور رشتہ دار ہی کیوں نہ آرہے ہوں، حق بات کہو، اللہ اس کے رسول اور اپنے امیر کی اطاعت کرو۔ رسول کا حکم پورے شرح صدر کے ساتھ ماننا چاہیے۔ رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والا قیامت کے روز انبیاء صدیقین شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا، اختلاف کی صورت میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو۔ حکمران کی اطاعت صرف معروف میں ہوگی معصیت میں نہیں۔
اس کے بعد بعض صفات منافقین کی بیان کی گئییں کہ وہ نبی کے فیصلے نہیں مانتے بلکہ ان سے دل میں تنگی محسوس کرتے ہیں، مطلب پرست ہوتے ہیں، مسلمانوں میں افراتفری کی کوشش کرتے، افواہیں پھیلاتے ہین، نماز میں انتہائی سستی کرتے، اور اللہ کو کم یاد کرتے۔
جہاد کا حکم دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ اپنے بچاؤ کی حکمت عملی ہمیشہ تیار رکھو۔ شہید کی عظمت بتائی گئی اور یہ بھی کہ فتح اور شہادت دونوں صورتوں میں بہترین اجر ہے۔ مومن کا جہاد صرف اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ بلا وجہ جہاد سے پیچھے رہنے والا مجاہد کی طرح نہیں ہوسکتا مجاہدین کو ایک درجہ فضیلت حاصل ہے۔ ان کے لئے اجر عظیم، اونچے درجات اور مغفرت کا وعدہ ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ لڑائی سے بھاگنا کوئی فائدہ نہیں دے گا موت تو بند مضبوط قلعوں میں بھی آجائے گی۔
قرآن میں غور و فکر کی ترغیب دی گئی۔ اچھے کام میں سفارش بہترین عمل ہے اور برے کام کی سفارش کرنے والا برائی میں حصہ دار ہوگا۔ دعا اور سلام کا بہترین جواب دو۔ سلام نیکیوں اور محبتوں کا باعث ہے۔
صحابہ کرام کو منافقین کی حرکتوں سے خبردار کیا گیا اور اس کی مناسبت سے بعض احکام دیے گئے۔ کہا گیا تم انہیں ہدایت نہیں دے سکتے اس لئے انہیں اپنا دوست مت بناؤ۔
کسی کو ناحق قتل مت کرو اگر غلطی ہو جائے تو دیت ادا کرو یا اللہ کے حکم کے مطابق کفارہ ادا کرو۔ اور جو جان بوجھ کر یہ فعل انجام دے وہ اللہ کے غضب، لعنت اور عذاب کا مستحق ہے۔
ہجرت کی ترغیب دی گئی، مہاجر کے لیے وسعت اور اجر کی نوید سنائی گئی۔ اگر کوئی قدرت رکھنے کے باوجود ضرورت کے وقت ہجرت نا کرے تو اللہ اس سے ناخوش ہوتا ہے۔
سفر میں قصر نماز کی اجازت ہے۔ نبی کریم نے ہر طرح کے سفر میں نماز قصر کی۔ آپ سے کبھی یہ ثابت نہیں ہے کہ قصر کی مشروعیت کے بعد آپ نے سفر میں پوری نماز ادا کی ہو۔ صلاۃ الخوف کی مشروعیت اور طریقہ بیان ہوا۔ نماز کی اہمیت کا اس سے اظہار ہوتا ہے کہ دشمن سر پر کھڑا ہو تو بھی نماز کی چھوٹ نہیں۔ یہ اوقات مقررہ میں ہر مسلمان پر فرض ہے۔ نماز کے بعد اللہ تعالی کا ذکر کرنے کی فضیلت ہے۔ توبہ و استغفار کرنے والے کے لیے خوشخبری ہے۔ گناہ کا وبال کرنے والے پر ہی ہوتا ہے۔ غلطی کرکے الزام دوسرے پر لگا دینا بھی بڑا گناہ ہے۔ پھر اللہ تعالی نے نبی کریم پر اپنے احسان کا ذکر کیا جو اس کتاب کی صورت میں ہے، اور بتایا کہ ہم نے آپ کو علم و حکمت دی۔ آپ امی تھے اس لیے آپ کے علم کا واحد منبع وحی الہی تھا۔
مجلس میں سرگوشی کرنا ناپسندیدہ فعل ہے۔ اگر مصلحت کا تقاضا ہو، اصلاح کی خاطر اور کسی کی عزت رکھنے کی خاطر ہو تو اجازت ہے اور اللہ کو مرغوب ہے۔
نبی اور مسلمانوں کے طریقے کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا یا دوسرا راستہ اپنانا عذاب کا سبب ہے۔ یہاں اجماع کی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
شیطان پر لعنت کی گئی اس کے ارادوں سے خبردار کیا۔ وہ اللہ کی تخلیق میں ردوبدل کرواتا ہے، باطل کو حق سے خلط ملط کرتا ہے، جھوٹی امیدیں دلاتا ہے، اور جھوٹے وعدے کرتا ہے۔ لہذا اس کے ساتھی بھی اس کے ساتھ جہنم میں جائیں گے۔ جزا اور سزا کسی کی امید اور آرزو پر منحصر نہیں ہے۔ ہر کوئی اپنے اچھے برے کا بدلہ پائے گا۔ سب سے بہترین وہ ہے جو اسلام لائے، احسان کرے اور ابراہیم کی طرح یکسو ہوجائے۔
عورتوں یتیموں اور بچوں کے لئے بھلائی کے کام کرو۔ یتیم بچی سے نکاح کرو تو مہر ضرور ادا کرو۔
اللہ ہر چیز کا مالک و قادر مطلق ہے، اس پر بھی قادر ہے کہ اگر تم اس کے احکام پر عمل پیرا نہ ہو تو سب کو ختم کرکے دوسرے لوگ لے آئے۔ لہٰذا اے ایمان والو اپنے ایمان کی تجدید کرتے رہو تو خوشخبری ہے ان کے لیے جو ایمان لائے۔ منافقین اور دین کو کھیل تماشا بنانے والوں کے لئے سخت عذاب کی وعید ہے۔ لیکن ان میں سے بھی جو توبہ کر لے اور اللہ کے لیے اپنے عمل کو خالص کر لے تو اجر کا وعدہ ہے۔
اختتام میں واضح کیا گیا کہ اگر تم ایمان لے آو اور شکر ادا کرتے رہو تو اللہ کو تمہیں عذاب دینے کی کیا ضرورت ہے۔ یعنی انسان کا اپنا کیا کرایا ہی اسے عذاب میں دھکیلتا ہے ورنہ اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں