لو کیلی بر سے اقتدار تک /محمود اصغر چودھری

چرچل کے نام سے منسوب ایک بیان کا چرچا عموماًپڑھنے کو ملتا رہتا ہے کہ اگر ہندوستا ن کو آزاد کر دیاگیاتو ”اقتدار بدمعاشوں، غنڈوں اور لٹیروں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ ہندوستانی لیڈر تنکوں سے بھی ہلکے لوگ ہیں جو بے صلاحیت ہیں جن کی زبانیں تو میٹھی ہیں لیکن ان کے دل بے وقوف ہیں اگر انہیں آزادی دے دی تو یہ آپس میں لڑ تے مرتے رہیں گے ایک دن آئے گا کہ یہ پانی اور ہوا پر بھی ٹیکس لگادیں گے “۔ ویسے تو بہت سے انگریز اسکالراپنی تحقیق سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ چرچل کے اس بیان کی کوئی تصدیق کسی حوالے سے نہیں ملی ۔ اس کی کسی تقریر اور تحریر میں ایسے جملے نہیں ملے ہیں لیکن اس کے باوجودزمینی حقائق یہی ہیں کہ یورپی شہریوں کے ذہن میں ایک ہندوستانی کاخاکہ پٹاری سے سانپ نکالنے والے مداری کا اورایک پاکستانی کا خاکہ ایک انتہا پسندکا ہی ہوتا ہے ۔

لیکن پچھلے چند سال میں برطانیہ میں ہندوستانیوں اور پاکستانیوں نے وہ کمال دکھائے ہیں کہ ہر یورپی شہری کی متعصبانہ سوچ کا منہ بند کروادیا ہے ۔ نسلی بنیادوں پر فخر کرنے والے جاہلوں کے نظریات کا قلع قمع کروا دیا ہے ۔ لندن کے مئیر صادق خان کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سونک ، آئرلینڈ کے وزیر اعظم لیو وارڈیکر او ر اب سکاٹ لینڈ کے سربراہ حمزہ یوسف کی کامیابی نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ جنہیں تم بے صلاحیت ”لو کیلی بر“اور آدھا دماغ کہتے رہے اب وہ تمہارے گھمبیر ترین سیاسی مسائل حل کرنے والے ہیں

حمزہ یوسف سکاٹ لینڈ کے پہلے غیر سکاٹش اور کسی بھی یورپی ملک کے پہلے پاکستانی نژاداور پہلے مسلمان سربراہ کے طورپر سامنے آئے ہیں۔ حمزہ یوسف نے صرف 37سال کی عمر میں ہی سکاٹ لینڈ کا فرسٹ منسٹر بننے کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنی فتح پر اپنے مسلمان ہونے کا برملا اظہار کیاہے ،وہ اپنے دفتر شیروانی پہن کر گئے اپنا حلف اردو میں اٹھا یا ۔وہ اپنی حقیقی پہچان بتانے میں ہچکچاتے نہیں ہیں انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ ان کے دادا بسوں میں ٹکٹیں کاٹتے تھے ۔ ان کے والد سنگر سلائی مشین کمپنی میں معمولی جاب کرتے تھے۔ حمزہ یوسف کے والد کا تعلق پاکستان کے شہر میاں چنوں سے ہے، جو 1960 کی دہائی میں اپنے خاندان کے ساتھ سکاٹ لینڈآگئے تھے ۔

حمزہ یوسف نے اپنی ابتدائی تعلیم گلاسگو کے ایک پرائیویٹ سکول سے حاصل کی ۔ گلاسگو یونیورسٹی میں سیاست کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک کال سینٹر میں مختصر طور پر کام کیا، جس کے بعد انھوں نے سکاٹش نیشنل پارٹی کو جوائین کیا ۔2011 ءمیں گلاسگو ریجن سے سکاٹش ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے ،اس وقت ان کی عمر صرف 26سال تھی ۔ صرف ایک سال بعد انھیں یورپ اور بین الاقوامی ترقی کے وزیر کے عہدے پر ترقی دی گئی۔ 2016 میں وزیر ٹرانسپورٹ بن گئے، 2018 میں انہی کی محنت کے بل بوتے پر انہیں وزیر انصاف نامزد کیا گیا اور مئی 2021 میں وزیر صحت نامزد ہوئے ۔وہ کامیابیوں کے جھنڈے گاڑتے چلے گئے اور آخر کار اس مہینے سکاٹ لینڈ کا پہلا مسلمان سربراہ بن کر دنیا کو دکھا دیا کہ ٹیلنٹ ، صلاحیت اور فہم پر کسی ایک قوم ، نسل یا مذہب کی اجارہ داری نہیں ہے

آپ اس پر بحث کر سکتے ہیں کہ صادق خان ہویا سعیدہ وارثی ، لیو وارڈیکر ، رشی سونک ہو یا حمزہ یوسف یہ بچے برطانیہ میں پیدا ہوئے ، برطانیہ سے ہی تعلیم حاصل کی او ربرطانیہ کی وجہ سے ہی انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں لیکن کیا یہ وہی برطانیہ نہیں ہے جہاں ان بچوں کواور ان کے والدین کو تعصب اور نسل پرستی کا سامنا رہا ۔ کیا یہ وہی برطانیہ نہیں ہے جہاں ”پاکی “کا لفظ بطور گالی استعمال ہوتا رہا ہے ۔کیا یہ وہی برطانیہ نہیں ہے جہاں کچھ سال پہلے ”پنش اے مسلم ڈے “ منانے کا شوشا چھوڑا گیا تھا ۔ کیا یہ وہی برطانیہ یورپ اور امریکہ نہیں ہے جہاں ان پر دہشتگردی کا الزام لگتا رہا ، کیا یہ وہی انگریز نہیں ہے جو کلبوں کے باہر بورڈ لگادیتے تھے کہ کتوں اور ہندوستانیوں کا داخلہ منع ہے ۔ پھر کیا وجہ ہوئی ہے کہ اب لندن سے لیکر آئرلینڈ تک اور انگلینڈ سے لیکر سکاٹ لینڈ تک ہر جگہ ”دیسی بوائز “عنان اقتدار سنبھال چکے ہیں ۔کیا سب کے سب شہری نیک بچے بن گئے ہیں ؟جی نہیں ۔ یہ اس نظام جمہوریت کا ثمر ہے جس نے ساری کایا پلٹ دی ہے ۔ نظام جس میں میرٹ کو اہمیت دی جاتی ہے ۔جس میں افراد کو اپنی صلاحیتیں دکھانے کا موقع میسر آتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب ذرا ایک منٹ کے لئے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہیں اور اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ اگر یہی بچے اپنے والدین کے ممالک میں پیدا ہوتے وہاں تعلیم حاصل کرتے ان کے والد کی پہچان بس ڈرائیور، بس کنڈکٹر ، فیکٹری ورکر کی ہوتی تو کیا وہاں بھی ان کو یہ مقام مل سکتا تھا ۔ بھلے ہی یہ اپنے ہم وطنوں کی زبان بولتے ، انہی جیسے کپڑے پہنتے ، برفی کھانے پر فخر محسوس کرتے اور مسلمان ہونے کا برملا اظہارکرتے توکیا پھر بھی ان کا معاشرہ ان کے ٹیلنٹ ، ان کی صلاحیتوں اور ان کے کیلی بر کی اسی طرح قدر کرتا ۔ جواب ہے نہیں؟ کیوں نہیں ؟ کیونکہ ہم اپنا نظام نہیں بدل سکے ۔ہم شخصیت پرستی سے لیکر آمریت پرستی تک ہرازم کو آزما چکے ہیں لیکن اس نظام کے لئے کوشاں نہیں ہیں جس کی وجہ سے دنیا ترقی کر رہی ہے ۔نظام جمہوریت جس نے پوری دنیا کو دکھا دیا ہے کہ اگر آپ با صلاحیت ہیں تو آپ کا لباس ، آپ کا رنگ اور آپ کا مذہب کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔آپ سیاہ فام ہونے کے باوجود امریکہ جیسے ملک کے صدر بن سکتے ہیں اور آپ ہندوستانی ، پاکستانی یا مسلمان بیگ گراوئنڈ رکھنے کے باوجود بھی سکاٹ لینڈ ، آئر لینڈ اور برطانیہ کے سربراہ بن سکتے ہیں

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply