یہ بات غلط ہے کہ نیوٹن جب درخت کے نیچے بیٹھا تھا تو اس کے سر پر سیب گر کر لگا، اصل میں تو وہ سکول سے بھاگ کر وہاں بیٹھا “کٹّے” اور “وچّھے” کی حرکات پر غور کر رہا تھا جس کے بعداس نے یہ قانون ِحرکت دریافت کیا۔سیب قدرتی طور پر اس دوران گر گیا تھا۔
ڈیجیٹل نسل کیلئے وضاحت کرتا چلوں کہ” کٹّا “ میڈم بھینس“کے صاحبزادے کو کہتے ہیں اور” وچّھا “ مِس گائے کے بچے کا نام ہے۔
نیوٹن کے زمانے کا ذکر ہے کہ ایک کٹے اور وچّھے کی گہری دوستی ہو گئی ، وچّھا کٹّے سے کہتا کہ “یار آؤ گلی میں چھلانگیں مارتے ہیں “ جبکہ کٹّا ہر وقت اس موڈ میں ہوتا کہ “نہیں بھائی ،دیوار کے ساتھ بیٹھ کر “جگالی” مارتے ہیں(یعنی چیونگم چباتے ہیں)”۔یہیں سے کٹّے وچّھے کا قانون دریافت ہوا۔
آپ اگر غور کریں تو آپ کو کئی “کٹّے “ اور “وچّھے” انسانی روپ میں آپ کے گھر گلی محلے اور دفتروں میں نظر آئیں گے- انسان نما کٹے ہر وقت چینوگم چبا رہے ہوں گے اور آپ کو کہیں گے”یہ مشکل ہے”، “تم بزنس نہیں کر سکتے”، “ایک دفعہ سرکاری نوکری مل جائے تو پھر ٹھنڈ ہی ٹھنڈ”، “میں سیلیکٹو سٹڈی کروں گا”، “میں یہ سمسٹر ڈراپ کر دیتا ہوں اگلے میں زیادہ تیاری کروں گا”،”میں سی ایس ایس نہیں کر سکتا”، “میری انگلش ٹھیک نہیں ہو سکتی”، حالات میرے بس سے باہر ہیں”،”یہ نظام کی خرابی ہے”، “ہمارے حکمران ہی نالائق ہیں”، وغیرہ وغیرہ-
کٹوں کے سب سے پسندیدہ جملے ہوتے ہیں۔۔”اس کام پر میرا دل نہیں کررہا” یا “آج میرا موڈ نہیں” یا “تم یہ کام نہیں کر سکتے”-
کٹے دن رات ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ٹاک شو دیکھتے رہیں گے مگر جب کوئی گھر کا کام کہے گا تو انہیں سانپ سونگھ جائے گا،تھکاوٹ یاد آجائے گی۔یہ ہر جگہ آپ کو اپنی” کٹا گیری” کرتے نظر آئیں گے۔ یہ ہر اہم کام کل پر ڈالیں گے اور دعا کریں گے کہ وہ کل کبھی نہ آئے۔ یہ ساری رات سمارٹ فون پر گزار کر دفتر میں اُونگھتے نظر آئیں گے۔ یہ ہر اہم میٹنگ میں بغیر تیاری کے جائیں گے اور میٹنگ شروع ہونے تک ان کی خواہش ہو گی کہ اللہ کرے نہ ہی ہو۔
کٹّے جم میں داخلہ لے کر سمجھیں گے کہ دفتر میں کرسی پر بیٹھے ہی وزن کم ہو جائے گا۔یہ آپ کو ڈیوٹی پر اونگھتے نظر آئیں گے – کٹوں کے بال بڑھے ہوں گے کئی کئی دن نہ نہانے کی وجہ سے ان کے جسم سے” کٹ سوری” کی مہک آرہی ہوگی۔یہ رات والے کپڑے پہن کر دفتر آجائیں گے۔یہ آپ کو ہر وقت سہولیات کی کمی اور کام کی زیادتی کا شکوہ کرتے نظر آئیں گے۔ ان کے خیال میں یہ غلط وقت پر غلط ملک اور غلط لوگوں کے ہاں پیدا ہو گئے ہیں، یہ ہر وقت مواقع کی کمی کا شکوہ کرتے ہوں گے،یہ دیر سے سوئیں گے اور دیر تک سوئیں گے۔ ان کی تو ندیں نکلی ہوں گی اور یہ نماز میں بھی اپنے رب کے حضور کٹھے ڈکار مار رہے ہوں گے۔
کٹّوں سے بچیں ۔یہ مضر انسانیت ہیں۔یہ سب آپ کے اندر کے وچّھے کو ورغلا کر “او گل” (جگالی) پر لگانا چاہتے ہیں ۔حالانکہ آپ کے اندر کا وچّھا باہر کی دنیا میں چھلانگیں لگانا چاہتا ہے، آسمان کو چھونا چاہتا ہے، ہواؤں کو مسخر کرنا چاہتا ہے، پانیوں پر تیرنا چاہتا ہے۔
آپ کی جب بھی کسی وچّھے سے بات ہو گی وہ کہے گا “تم یہ کرسکتے ہو”، “تم کسی سے کم نہیں”، “تمہارے اردگرد کی دنیا مواقع سے بھری پڑی ہے”،”ہمارا ملک بھی کسی سے کم نہیں”، “”محنت ضائع نہیں جاتی” ۔وچّھے کو جب بھی موقع ملے گا یہ چھلانگیں لگائے گا یہ سراپا توانائی ہوگا۔ اس کے زندگی میں بڑے بڑے گول(ارادے) ہوں گے۔ اسے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہوگا ، یہ کئی کٹوں سے بھی زندگی میں اپنی “وچھا ماری “سے بڑی بڑی چھلانگیں لگوانے کی کوشش میں ہوں گے۔
وچّھوں کا پسندیدہ جملہ ہوگا۔۔”ہم یہ کام کیسے نہیں کر سکتے ہیں؟” وچّھے کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہیں ہوتا، اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ “پندرہ روپے کے نوٹ کا کُھلا کروالو گے “ تو یہ کہیں گے کہ “ساڑھے سات کے دو نوٹ چاہئیں یا سوا تین کے چارنوٹ”؟
دنیا کی ساری مادی ترقی وچّھوں کی مرہون منت ہے،وچھوں کا سکرین ٹائم کم ہوگا۔ان کے پاس فیملی اور دوستوں کے لئے وقت ہو گا،ان کا اپنے رب سے بھی رابطہ برقرا ہوگا، یہ آپ کو مولا کی عنایتوں کا شکر ادا کرتے نظر آئیں گے، یہ کم کھائیں گے- ان کے سونے اور جاگنے کے وقت مقرر ہوں گے، ان کا لباس صاف ہوگا، یہ آپ کو لوگوں کے ساتھ قہقہے لگاتے نظر آئیں گے،پارک میں واک کرتے نظر آئیں گے۔
اگلی دفعہ آپ کو اگر کوئی کٹا میکڈونلڈ میں بیٹھ کر ڈبل زنگر برگر کے بعد کوک سے ڈکار مارنے کی دعوت دے تو آپ اسے جم میں جاکر پش اپس لگانے کا پتہ پھینکیں۔جب بھی آپ کسی کے منہ سے سنیں کہ “تم یہ کام نہیں کر سکتے “ “یا چھوڑو یار کل کریں گے” تو آپ زورُسے نعرہ لگائیں کہ “کٹا ای اوئے” اور اس کی صحبت سے نکل جائیں۔
زندگی کے کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو وچھے کی طرح اپنے آپ سے پوچھیں “میں یہ کام کیسے کرسکتا ہوں؟” یہ “کیسے” کا سوال ہی آپ کو آپ کے اندر کے “وچّھے“کی صلاحیتوں سے روشناس کروائے گا ۔جس نے اپنے اندر کو کھوج لیا وہ کامیاب ہوا- اس کی سب مرادیں بر آئیں ،اسے اپنے دنیا میں آنے کا مقصد مل گیا۔اسے نروان حاصل ہو گیا۔
آخر میں نیوٹن کا اصلی قانون حرکت بیان کرتا چلوں کہ

”اگر کوئی انسان حالت حرکت میں ہے تو وہ متحرک ہی رہے گا جب تک اسے کوئی “کٹا” نہ ٹکر جائے ۔۔ اور اگر کوئی انسان حالت سکون میں ہے تو وہ ساکن ہی رہے گا جب تک اسے کوئی “وچھا” نہ مل جائے”۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں