میاں صاحب کے پانامے اور پاجامے

بھائی یہ پانامہ لیکس کیا شے ہے۔ بقول شاہی سید یہ دھاندلی کیا بلا ہے یہ مولی ہے گاجر ہے ٹماٹر ہے کیا چیز ھے دھاندلی؟۔ ہم پانامہ لیکس کے بارے شاہی سید کے جملہ سے متفق ہیں۔ کیونکہ مرغی کا نمک سے کیا واسطہ میاں صاحب کا پانامہ ہو یا پاجامہ ہونے دو۔ البتہ اتنا ادراک ہیکہ خان صاب کہہ رہے ہیں کہ میں جب پانامہ لیکس کا نام لیتاہوں تو راے ونڈ میں تہلکہ مچ جاتاہے۔ پتہ نھی کیو۔؟ مصافحوں کی بات بعد میں کرینگے پھلے ذرا یہاں جھانک کر چل دیتے ہیں۔

عرب میں ایک عجیب روایت تھی جب انکا کوئی مشہور بندہ جنگ میں مارا جاتا تو وہ اسکا بدلہ لینے تک رونے پر پابندی لگادیتے تھے مثلا غزوہ بدر کو لیں۔ جنگ میں مشرکین کے بڑے ستر سردار مارے گئیے جن میں ابو جہل جیسے کئ نامور سردار شامل تھے۔ یہ پیغام جب مکہ پھنچا تو انہوں نے رونے پر پابندی لگا دی اعلان۔ہوا کہ ہم پھلے مقتولوں کابدلہ لینگے اسکے بعد رونے کی اجازت دی جاے گی جس نے اس سے پھلے رونے کی کوشش کی اسکو قبیلہ سے نکالدیا جاے گا۔ یہ پیغام لواحقین کے لیئے موت سے بھی زیادہ سنگین تھا ان دنوں رات کے پچھلے پھر کسی عورت نے دوسری بوڑھی کے ررونے کی آواز سنی اور خوشی کے مارے اسکی جانب چپکے سے گئ اور کہا اماں اگر رونے سے پابندی ختم ہوگئ ہو تو بتاو میں بھی رودوں۔؟ بوڑھی عورت نے آنکھیں پونچھتے ہویے سسکیاں لیتے ہویے کہا میں تو اپنے پیارے سے اونٹ کیلئے رورہی ہوں جو مجھے کل سے دکھائی نہی دے رہا۔ آنے والی عورت نے کہا میرا بیٹا بدر میں مرا تھا میرا کلیجہ غم سے پھٹا جارہا ہے اگر پابندی ختم ہو تو میں………؟اور پھر کہنے لگی کہ اماں آپ رشتے میں میری پھوپھی لگتی ہو سو آؤ میرے گلے لگ جاو میں آپکے غم میں برابر کی شریک ہوجاتی ہوں اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رودیں۔

یہ عربوں کی روایت تھی۔

کہ یہ عورتیں اپنے بیٹوں کا غم بھلانے کیلئے اونٹ اور بکریوں کا سہارا لیتی تھیں۔ آندھیوں طوفانوں اور جنگوں کا ذکر کرتیں اور اپنے بھائی بیٹے کا غم غلط کرتی تھیں۔ معلوم نھی اس دور میں اس واردات کو کیا کہاجا تھا لیکن آج کا معاشرہ اسے منافقت کہتا ھے ۔اس قسم کی صورتحال کیلئے پشتوں میں بھی ایک محاورہ ھیکہ کہ بھایئوں کا نام لیکر اپنے بواے فرینڈ کو رونا۔لیکن اب لوگ ہوشیار اور بالغ النظر ہوچکے بہادر اور سمجھ دار ہوچکے لہذا انہیں اب دکھ پیٹنے کیلئے بکریوں اور اونٹوں کا سہارا نھی لینا پڑتا۔لیکن پانامہ میاں صاحب کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو بنیادی طور پر منافق معاشرے کا مسئلہ ہے۔ اور منافق معاشرہ چودہ سو سال بعد یا پھر 21ویں صدی کی جگمگاتی روشنیوں میں پروان چڑھا ہو لوگوں کے رد عمل لوگوں کے رویے یکساں ہوتے ہیں۔

جہاں تک خیال ناقص ہے…. میاں صاحب کے پانامے کے پچھے خود۔ہی انکا دست اقدس کارفرماں ہے۔اور یہ کوی نئ بات نھی میاں صاحب اسطرح کے طاقتور اور صحت مند کٹے اپنے دور اقتدار میں نہ چھوڑیں تو ذہنی بوجھ کی شکایت ہوتی ھے انھیں۔ لیکن افسوس اور حیرت انگیز افسوس تو ان مخالفینِ میاں صاب کے موقف پر ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم یہ سب کچھ جمہوریت کی بقا کیلئے کرہے ہیں۔ واہ یہ کیسی جمہوریت ہے بابا۔جو یہ تک نہی جانتے کہ جمہوریت اقتدار نہیں اپوزیشن سے مظبوط ہوتی ہے جس ملک میں جتنی بڑی اپوزیشن ہو وہ ملک اتنی ہی بڑی جمہوریہ ہوتا ہے۔ اور جس ملک میں جتننی مختصر اپوزیشن ہو وہ ملک اتنا ہی شہنشاہ ہواکرتا ہے ۔ سوال یہ ہیکہ کیا اس ملک کا اپوزیشن لیڈر کا اپنے آپ سے خطرہ ہوتاہے مخالفین کی بات دور کی ہے۔ چلو یہ بھی مان لیا۔سیاست حصول اقتدار کا ذریعہ ہوتی ہے یہ وہ راستہ ہے جس پر لوگ چل کر لیلاے اقتدار تک پھنچے ہیں۔ تو پھر یہ لوگ اعتراف کیوں نھی کرتے؟ یہ لوگ یہ کیوں نھی کہتے کہ ہمارا کوی پارٹی کوئ نظریہ کوی مشور نھی ۔ہر وہ سیاسی نظریہ ہر وہ منشور اور ہر وہ پارٹی ہمارا منشور ہے جو ہمیں ایوان اقتدار تک لے جاے۔آپ اپنی کار کردگی اپنے فن کو جمہوریت کا نام کیوں دیتے ہیں۔ بھایئوں کا نام لیکر بواے فرینڈ کا ذکر کیوں کرتے ہو۔ اونٹوں اور بکریوں کا بہانہ لیکر اپنی خواہشوں اور حسرتوں کے آنسوں کیو بہاتے ہوں۔؟ خان صاب کے ساتھ دیگر رفیقان سفر سامنے آکر صاف کیوں نھی کہتے کہ ہماری زندگی کا ایک ہی مقصد ہے وہ ھے اقتدار۔ کیونکہ وہ تو ہمیں بھی پتہ ہے کہ مچھلی اور پاکیستانی سیاست دان اقتدار کے تالاب سے باہر کبھی نھی رہ سکتے ۔ یقین کیحئے برای کرنے والے اتنے برے نھی ہوتے جتنے برے اس برای کو اچھائ ثابت کرنے والے ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عمران خان قدم بڑھاو ہم تمہارے ساتھ اگر نھی تو پیچھے ضرور ہیں….

Facebook Comments

خورشید احمد خان
میرا تعارف میرےناقص خیالات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply