ماضی کے جھروکوں سے/ناصر خان ناصر

بھٹو صاحب نے دوسری عالمی کانفرنس لاہور میں منعقد کر کے مسلمان ممالک کا ایک بلاک بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ ان کی اس کاوش کو چند بڑی طاقتوں نے بہ نظر احسن نہیں دیکھا تھا۔ پھر ایک غضب یہ ہوا کہ امریکہ کا ایک انتہائی اہم اور خفیہ خط انھوں نے لیاقت باغ راولپنڈی کے جلسہ عام میں دکھلا کر اپنی بربادی کے حکم پر گویا خود ہی مہر لگا دی تھی۔
بہت حیلے بہانے سے ان کو ایک  قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھنسا یا گیا تھا۔

پاکستان میں سیاستدانوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا دینا بہت پرانی عادت ہے۔ چوہدری ظہور الہی صاحب پر بھینس کی چوری کا مقدمہ، محترمہ نسیم ولی خان صاحبہ پر زنانہ انڈر ویئر چرانے کا الزام انہی چند جھوٹے مقدمات میں شامل ہے جن کی بہت شہرت ہوئی ۔ بھٹو صاحب سمیت پختون، سندھی اور بلوچی راہنماؤں پر غداری کے جھوٹے الزامات ہر دور میں لگائے جاتے رہے تھے۔ پیپلزپارٹی کا پہلا دورِ  حکومت ختم ہونے کے بعد 1970 کے عام انتخابات کروائے گئے تھے۔ ان میں بھٹو حکومت کی طرف سے سخت دھاندلیوں کی بنا پر ملک بھر میں جگہ   جگہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ ان کشیدہ و مخدوش حالات کو بہانہ بنا کر جنرل ضیاءالحق نے 5 جولائی  1977 میں ملک میں مارشل لا ء نافذ کر دیا تھا۔ اس مارشل لاء میں قائد عوام کو دو مرتبہ نظر بند کر کے رہا کیا گیا تھا۔

بھٹو صاحب نے اپنے عہد حکومت میں ایک عسکری تنظیم ایف ایس ایف تشکیل دی تھی جو دراصل فوج کے متوازن قائم کی گئی تھی اور جس کے ذریعے بھٹو صاحب فوج کی بالا دستی کو کنڑول کرنے کا سپنا دیکھ رہے تھے۔بھٹو صاحب پر اپنے ایک سیاسی مخالف اور اس وقت کے رکن قومی اسمبلی احمد رضا قصوری کے والد نواب محمد رضا قصوری کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔ اسی تنظیم ایف ایس ایف کے سربراہ مسعود محمود تھے جن کو بھٹو صاحب نے خود اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔ انھوں نے ایک اور فرد غلام حسین کے ہمراہ عدالت میں سلطانی وعدہ معاف گواہ بن کر بھٹو صاحب کے خلاف بیانات دیے اور یوں بھٹو صاحب کو 18 مارچ 1978 کو لاہور ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزا سنا دی تھی۔ سزا سنانے والے بینچ کے قائد مولوی مشتاق حسین تھے جو 1965 میں بھٹو صاحب کے فارن سیکریٹری رہ چکے تھے اور ان سے سخت اختلافات رکھنے کے ساتھ ساتھ جنرل ضیا کے قرابت دار اور گرائیں بھی تھے۔ اس سزا سنانے والے بینچ میں جسٹس ذکی الدین پال، جسٹس گلباز خان، جسٹس ایم ایچ قریشی بھی شامل تھے۔ بھٹو صاحب کے وکلا نے اس فیصلے کے خلاف اسلام آباد سپریم کورٹ میں اپیل درج کی تھی جسے ایک سات رکنی پینل نے سنا۔ ان سات میں سے چار ججز نے سزا برقرار رکھی اور تین نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ اس فیصلے کے مطابق بھٹو صاحب کے ہمراہ میاں محمد عباس، رانا افتخار احمد، ارشد اقبال اور غلام مصطفٰے کو پھانسی کی سزا دی گئی ۔ سلطانی گواہ مسعود محمود اور غلام حسین کو معاف کر دیا گیا۔

بھٹو صاحب کو جب جنرل ضیا صاحب کے ایما پر سپریم کورٹ نے پھانسی کی سزا سنائی  تو عالم اسلام سمیت تمام دنیا سے انھیں معاف کر دینے کی بے شمار اپیلیں آنے لگی تھیں۔ جنرل ضیا الحق نے وہ سب کی سب اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔ لیبیا کے جنرل معمر قذافی صاحب نے اپنے خصوصی طیارے پر اپنے وزیر اعظم کو پاکستان بھجوایا۔ وہ ایک ہفتے تک پاکستانی اعلیٰ حکام سے گفت و شنید کر کے انھیں اس امر سے گریزاں کرنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہے۔ بھٹو صاحب کو راولپنڈی کی زنانہ جیل میں ایک سات فٹ بال دس فٹ کال کوٹھڑی میں بند رکھا گیا تھا۔ ان کی نگرانی بیت الخلا تک میں کی جاتی تھی۔ ان کے پھانسی پا جانے کے بعد ایک خفیہ ایجنسی نے ان کے جسد خاکی کے پرائیویٹ پارٹس کی فوٹو اتاریں۔ حکام دراصل اس غلط افواہ کی تصدیق یا تسلی کرنا چاہتے تھے کہ بھٹو صاحب کے اسلامی طریقے پر ختنے نہیں ہوئے تھے۔ ان کی پھانسی کی وڈیو کو بھی خاص حلقوں میں دکھایا گیا تھا۔

بھٹو صاحب کو 4اپریل 1979 کی صبح کو دو بجے جلاد تارہ مسیح کے ہاتھوں پھانسی دیے جانے کی خبر ہمیں آج تک اچھی طرح یاد ہے۔
اس دن اخبار کے پورے سرورق پر صرف یہی ایک خبر ہی چھپی تھی اور پورا اخبار خالی تھا۔

خبر نشر ہوتے ہی پنڈی اسلام آباد کی ساری گلیاں اور بازار مکمل طور پر سنسان ہو گئے تھے۔ ہر طرف یکدم ایک خاموشی، ہُو کا عالم اور سناٹا طاری ہو گیا تھا۔ پورے پاکستان میں کہیں پر نہ تو کسی نے کوئی جلوس نکالا، نہ کوئی بڑا تعزیتی جلسہ ہوا۔

محترم بھٹو صاحب کے جسد خاکی کو بذریعہ ہیلی کوپٹر گڑھی خدا بخش میں لا کر ان کے چچا اور پہلی خاندانی بیگم محترمہ شیریں امیر بھٹو صاحبہ کے حوالے کیا گیا تھا جو ان کی فرسٹ کزن بھی تھیں۔ محترمہ شریں امیر بھٹو صاحبہ پڑھی لکھی نہیں تھیں اور عمر میں بھی بھٹو صاحب سے بڑی تھیں۔ بھٹو صاحب کی دوسری بیگم محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ اور محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو تو ان کا آخری دیدار بھی نہیں کرنے دیا گیا تھا۔ محترمہ بے نظیر صاحبہ اور محترمہ نصرت بھٹو صاحبہ بھی زیر حراست رکھی گئی  تھیں مگر ان کی آدھے گھنٹے کی آخری ملاقات 2 اپریل 1979 کو کروائی گٹئ تھی۔ محترمہ بے نظیر صاحبہ کی اپنے والد کو آخری بار گلے سے لگانے کی درخواست نامنظور کی گئی  تھی۔ آخری ملاقات پانچ فٹ کے فاصلے سے سلاخوں کے آر پار سے ہی کی گئی  تھی۔

بھٹو صاحب نے ایک خفیہ شادی حسنہ شیخ صاحبہ سے بھی کی تھی۔ ان دونوں کا نکاح مولانا کوثر نیازی صاحب نے پڑھوایا تھا۔ بعد میں محترمہ نصرت بھٹو صاحب کے بگڑنے اور روٹھ کر ایران واپس چلے جانے کی دھمکی کی بنا پر بھٹو صاحب کو حسینہ شیخ صاحبہ سے علحیدگی اختیار کرنا پڑی تھی۔

بھٹو صاحب کو منہ اندھیرے پھانسی دینے کے بعد ان کا جسد خاکی ہیلی کوپٹر پر گڑھی خدا بخش لا کر ان کے وارثین کے سپرد کر دیا گیا تھا۔ ان کا نہایت مختصر سا بالکل پرائیویٹ جنازہ ہوا جس میں گنتی کے چند ملازمین ہی شامل تھے۔ انھیں نہایت عجلت سے گڑھی خدا بخش سندھ میں دفن کر دیا گیا تھا۔

جس بھدے طریقے سے ایک منتخب وزیراعظم کو فوج نے جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر پھانسی پر لٹکا دیا، وہ انتہائی شرمناک بات ہے اور پاکستان کی تاریخ کے دامن پر ایک نہایت بدنما دھبہ ہے۔

دنیا بھر کے سربراہوں نے جنرل ضیا سے ان کی جان بخشی کی اپیلیں کی تھیں مگر ان سب کو نظر انداز کر کے وہی کیا گیا جو اوپر سے ڈنڈیاں ہلانے والے ہاتھ چاہتے تھے۔

خدا کی بے آواز لاٹھی کا ٹوٹنا بھی دیکھیں کہ کچھ عرصے بعد ہی فضائی حادثے میں ضیا الحق صاحب کے پرخچے بھی اڑا دیے گئے تھے۔ جہاز کے جلے ہوئے ملبے سے صرف جبڑے کی ایک ہڈی ہی ملی تھی جسے نہایت احترام سے مسجد فیصل اسلام آباد کے احاطے میں دفن کر دیا گیا تھا۔

بھٹو صاحب کا سب سے بڑا جرم اتحاد المسلمین تھا۔ انھوں نے لاہور میں دوسری اسلامی کانفرنس کروائی ۔ اس کانفرنس میں شامل ہونے والا کوئی ایک سربراہ بھی حرف مکافات اور بھیانک سزا سے نہ بچ سکا۔ سب کے سب بری طرح قتل کئے گئے یا ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔

شاہ فیصل، بھٹو، مجیب الرحمان، کرنل قذافی، عیدی امین، شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی، حافظ ال اسد، صدام حسین اور یاسر عرفات صاحب سب کے سب کو اپنی اپنی جگہ پر سخت کڑی سزائیں بھگتنی پڑیں۔ اردن کے شاہ حسین نے اپنے ولی عہد چھوٹے بھائی شہزادہ حسن صاحب کو کانفرنس میں بھجوایا تھا۔ ان کی پاکستانی دلہن شہزادی ثروت صاحبہ بھی ان کے ہمراہ تشریف لائیں۔ وہ بھی ولی عہد کے عہدے سے معذور کر دیے گئے تھے۔

اگرچہ محترم بھٹو صاحب کا پاکستان کو دولخت کرنے میں بہت بڑا ہاتھ ہے مگر انھیں سزا غلط مقدمے میں الجھا کر دی گئی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply