سیاست دروازے کشادہ رکھنے کا نام ہے – لیکن اس سوچ کو ایک شخص نے غلط ثابت کر دکھایا ہے- وہ اپنے دروازے بند رکھتا ہے، لیکن دوسروں کے دروازے کھلوانے کے بعد کہہ دیتا ہے “میرے دست خط تو نہیں تھے- 2021 میں پیپلز پارٹی عمران رجیم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا ماحول تیار کر رہی تھی تو مسلم لیگ نواز اور جمعیت علمائے اسلام والے نہیں مان رہے تھے،تب بلاول زرداری جلسوں میں خصوصاً مسلم لیگ نواز پر طنز کیا کرتے تھے کیوں کہ وفاق، پنجاب اور سینیٹ میں مسلم لیگ نواز کی اکثریت تھی،طعنے دے دے کر مسلم لیگ نواز کو تحریک عدم اعتماد کے لیے اکسایا جاتا تھا- حالانکہ اس سے قبل سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کر کے دیکھ لیا تھا کہ 62 ارکان والی “اپوزیشن” ہار گئی اور 27 ارکان والی “حکومت” جیت گئی تھی- اس دن میر حاصل خان بزنجو مرحوم کی وہ حالت تھی کہ “حیرت سے تک رہی ہے شریفوں کی آبرو !” ۔پولنگ ٹیبل کے عین اوپر لگا خفیہ وڈیو کیمرہ پکڑا گیا لیکن آج تک وہ شخص سامنے نہیں لایا جا سکا جس نے کیمرہ لگوایا تھا – اس کے باوجود تحریک عدم اعتماد کے لیے اکسانے والوں کے ذہن میں کیا تھا، لکھا جائے تو میرے جیالے دوست ناراض ہو جاتے ہیں ۔ تب میرے جیسے بہت سے کالم نگاروں نے بارہا لکھا کہ تحریک عدم اعتماد والے چکر میں نہ پڑیں، میں نے تو ایک کالم میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر پوری اسمبلی بھی عمران رجیم کی مخالف ہو جائے، عمران تن تنہا رہ جائے تب بھی اسے پانچ سالوں کے آخری سیکنڈ تک حکومت کرنے دی جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو پاکستان کے باشعور عوام کم از کم اس تقسیم اور بے یقینی کا شکار نہ ہوتے جس میں آج مبتلا ہیں۔
بعض لوگ اس وہم کا شکار بھی ہیں کہ سہولت کار اب عمران پر اعتماد نہیں کرتے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
دو ہفتے قبل عمران نے کہا کہ اس کے خلاف 94 پرچے ہیں اور سنچری ہونے والی ہے۔اگلے ہی دن کہہ دیا کہ 100 سے زیادہ پرچے ہیں۔ پھر تین دن بعد کہا کہ 144 پرچے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران کے خلاف ملک بھر میں درج تمام مقدمات کی تفصیلات پنجاب حکومت سے بیان حلفی سمیت مانگیں تو معلوم ہوا کہ کل 37 مقدمات ہیں اور ساتھ بیان حلفی بھی جمع کروا دیا۔ مجال ہے جو کسی کو اپنے مسلسل جھوٹ بولنے کی سنچری پر شرم آئی ہو۔جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ سہولت کار اب عمران پر اعتماد نہیں کرتے، کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ 37 مضبوط ترین مقدمات کے باوجود عمران کھلم کھلا اپنی جارحانہ سیاست کیسے جاری رکھے ہوئے ہے؟
آج تک کوئی بھی ادارہ اس سے کسی ایک بھی مقدمے میں تفتیش کیوں نہیں کر سکا؟ وہ کسی بھی عدالت میں پیش ہونا پسند ہی نہیں کرتا۔ توشہ خانہ، ٹیریان خان، خاتون جج کو دھمکی، پولیس ملازمین پر فائرنگ، پتھراؤ اور پٹرول بموں سے حملوں جیسے مقدمات کے باوجود کوئی عدالت اس کے خلاف فرد جرم تک عائد نہیں کر سکی۔ نیب، ایف آئی اے اور الیکشن کمیشن اسے طلبی کے نوٹس بھیج بھیج کے تھک گئے، وہ پیش ہی نہیں ہوتا۔پھر اچانک طلبی کے نوٹسز معطل کرنے کے احکامات آ جاتے ہیں،اگر تنگ آ کر اس کے وارنٹ جاری کیے جائیں تو وارنٹ معطل کر دیئے جاتے ہیں۔ضمانتوں کی تو کیا ہی بات ہے- گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں آرمی چیف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک میں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے، لیکن معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ پاکستان کے دل لاہور کے بیچوں بیچ زمان پارک (جسے اب ضمانت پارک کہا جاتا ہے) کے ارد گرد کا علاقہ اعلانیہ نو گو ایریا ہے۔ ملک کا کوئی بڑے سے بڑا عہدے دار عمران کی اجازت کے بغیر یہاں آ کے تو دکھائے۔
شنید ہے کہ پنجاب پولیس نے اپنے ملازمین کو اس طرف گزرنے سے ہی (غیر تحریری طور پر) منع کر رکھا ہے۔
گزشتہ تقریباً ایک سال سے ملک بھر سے منگوائے گئے تربیت یافتہ افراد کا جم غفیر یہاں قابض ہے۔پولیس وہاں گئی تو پولیس پر پوری قوت کے ساتھ حملہ کیا گیا۔ سرکاری گاڑیوں تک کو آگ لگا کر نہر میں پھینک دیا گیا۔پولیس نے جن چند لوگوں کو گرفتار کیا، ان کی رہائی کے احکامات آ گئے۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ پولیس ملازمین پر پتھراؤ اور پٹرول بم پھینکنے والوں کی گرفتاری مطلوب ہے تو جواباً حکم دیا گیا؛ “مجھے لاہور میں فوری امن چاہیے!
گزشتہ سال لانگ مارچ کے ذریعے جب اسلام آباد چڑھائی کا ارادہ تھا تو وزارت داخلہ نے جلوس کی آمد روک دی۔عمران نے سپریم کورٹ میں درخواست کے ذریعے اسلام آباد میں جلسے کی جگہ مخصوص کروائی لیکن پھر خود ہی اس حکم کی دھجیاں اڑا دیںں۔یڈ زون میں جو تباہی اور آتش زنی کی گئی، اس کا حساب تو کوئی کیا لیتا، توہینِ عدالت تک کی سزا نہ ملی، حتیٰ کہ اسے عدالت میں طلب تک نہ کیا گیا۔ پنجاب اسمبلی میں دو بار حمزہ شہباز کی حکومت بننے کے باوجود نہیں بننے دی گئی۔ دونو ں مرتبہ ایک دوسرے سے متضاد فیصلے سامنے آئے۔ ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری پر بہیمانہ تشدد کرنے والوں کو ہاتھ لگانا تک حرام ہے، وڈیوز تو آج بھی موجود ہیں لیکن مقدمہ غائب ہے۔ ڈسکہ میں دھاندلی، اور پریذائیڈنگ آفیسرز کو اغواء کروانے والے سرکاری افسران اور ملازمین کی طرف دیکھنا آج تک منع ہے۔ عمران کی درخواستوں اور عمران کے خلاف مقدمات کی سماعتوں میں کون کون سے جج شامل ہوتے ہیں اور کون کون سے جج شامل نہیں ہو سکتے، یہ ریکارڈ پر موجود ہے۔ پورا سال گزر گیا، وفاقی حکومت، وکلاء تنظیمیں اور کئی سیاسی جماعتیں سیاسی مقدمات میں “فل کورٹ” بنانے کے مطالبے کرتی آ رہی ہیں، لیکن ان کے مطالبات کو مسترد کر دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں آج پارلیمنٹ اور عدالت کے مابین تلخی کی فضا نظر آتی ہے۔
حالات ایسے بنا دیئے گئے ہیں کہ حکومت کم زور اور تحریک انصاف طاقت ور نظر آتی ہے۔ یہی ماحول شاید کسی کو مطلوب تھا اور جب یہ ماحول بن گیا تو حکومت پر دباؤ ڈلوایا جا رہا ہے کہ وہ عمران کے ساتھ مذاکرات کرے۔اسمبلی میں آصف علی زرداری ، اور اسمبلی سے باہر مقتدر حلقوں کے کارندے مشاہد حسین اور جماعت اسلامی اس سلسلے میں “اپنا کام” شروع کر چکے ہیں۔عمران خود مذاکرات میں کبھی شامل نہیں ہوتا اور اب بھی نہیں ہونا چاہتا۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ مذاکرات میں اپنے نمائندوں کے ذریعے کچھ نکات طے کروانے اور مفادات حاصل کرنے کے بعد وعدے توڑ دیتا ہے اور بہانہ یہ ہوتا ہے کہ “میرے دست خط تو نہیں تھے۔”
2014 میں دھرنے سے قبل اس کے نمائندے وعدہ کر چکے کہ ریڈ زون میں نہیں جائیں گے لیکن پورے 126 دن انھوں نے ریڈ زون میں ہی گزارے ،کہا کہ “میرے دست خط تو نہیں تھے”۔گزشتہ سال سپریم کورٹ نے جلسے کے لیے جگہ مخصوص کروا دی لیکن عمران نے کارکنوں کو ریڈ زون میں بھیج کر تباہی کروائی، “میرے دست خط تو نہیں تھے ۔”
اب بھی عمران کہہ رہا ہے کہ وہ مذاکرات میں خود شامل نہیں ہو گا، بل کہ اس کے نمائندے جائیں گے، اور پھر وہی جواز ہو گا کہ “میرے دست خط تو نہیں تھے،” مسلم لیگ نواز، جمعیت علمائے اسلام اور پی ڈی ایم کے باقی راہ نما غور کریں کہ مذاکرات کا نیا جال کون بچھا رہا ہے، مشاہد حسین جو سہولت کاروں کا کارندہ ہے؟ جماعت اسلامی اور سراج الحق، جو دراصل تحریک انصاف ہی ہیں؟ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین ہمیشہ انتہائی قربت پائی جاتی ہے، جس میں 2013 سے 2018 تک خیبرپختونخوا حکومت، سینیٹ میں سراج الحق کی مشترکہ رکنیت، کراچی میں مشترکہ انتخابی ریلیاں، نواز شریف کے خلاف پانامہ سازش سمیت بہت سے حقائق واضح ہیں۔ مذاکرات کا جال بچھانے والے یہ سب شکاری چاہتے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ نواز کی حکومت نہ بن سکے۔ اور ان کی دوسری خواہش یہ ہے کہ انتخابات ہر صورت موجودہ چیف جسٹس اور صدر کی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی منعقد ہوں۔
مسلم لیگ نواز یاد رکھے کہ اگر مذاکرات ہوئے تو یہ دونوں مقاصد پورے ہو جائیں گے۔مذاکرات کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز کا رہا سہا ووٹ بنک بھی ختم ہو جائے گا۔اگر کوئی وعدہ خلافی ہوئی تو عمران کہہ دے گا؛ “میرے دست خط تو نہیں تھے!”
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں