صاحبان! کیا آپ نے کبھی بندر کا تماشا دیکھا ہے؟ یقیناً دیکھا ہو گا۔یہاں میری مراد سات سے نو بجے والے نیوز چینلز کے ٹاک شوز نہیں بلکہ سچ مچ بندر کا تماشا ہے جو اکثر ہمیں کسی فٹ پاتھ پر،کسی مصروف شاہراہ یا پُر ہجوم بازاروں میں کہیں نہ کہیں دیکھنے کو مل جاتا ہے ۔۔
ڈگڈگی بجاتا ہوا مداری اورفاقوں کا مارا ہوا پسلیاں کھجاتا بندر۔مداری ڈگڈگی بجاتا ہے اور بندر ہمہ تن گوش ہو کر اس کی طرف سے اگلے حکم کے لیے تیار ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔۔
عوام الناس،جو آس پاس رواں ہوتے ہیں ۔ان میں سے اکا دکا تماشے کے انتظار میں رک جاتے ہیں ۔جب مداری کے پاس معقول تعداد میں “ناظرین” اکٹھے ہو جاتے ہیں تو تماشے کا آغاز ” جمورا صاب کو سلام کر” سے ہوتا ہے۔۔رفتہ رفتہ دلچسپی اور ناظرین بڑھانے کے لیے “ریما کے ٹھمکے” ” مادھوری مجرا” اور “شاہ رخ قلابازی” کے کارڈز دکھائے جاتے ہیں۔اب جمورا غریب تو پیٹ کی بھوک اور ڈنڈے کے ڈر کے ہاتھوں ہر قسم کا “حرکی تماشہ” پیش کیے ہی جاتا ہے اور تماشے کا “ڈائریکٹر اور سکرپٹ رائٹر” ناظرین سے معقول مقدار میں نوٹ اپنی جیب میں منتقل کر کے ڈگڈگی بجاتا اگلے چوک کو چل پڑتا ہے۔دم ہلاتے جمورا کو بھی ایک آدھ کیلا یا بسکٹ وغیرہ مل ہی جاتا ہے اور وہ تازہ دم ہو کر پھر سے “جمورا صاب کو سلام کر” کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
کچھ عرصہ سے ایسا ہی تماشہ معروف سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بھی جاری و ساری ہے اور ہنوز اس طوفان بدتمیزی کے تھم جانے کے آثار نظر نہیں آتے ۔
پاکستان میں ٹھٹھری ہوئی اور لکنت زدہ صحافتی پالیسیوں، الیکٹرانک و پریس میڈیا کی تھکی ہوئی کارکردگی اور مخصوص حکومتی لابیز سے وابستگی کی فضا میں کچھ ترقی پسند اذہان نے سوشل میڈیا کو خیالات کے اظہار اور قلم سے ایک نیا ربط قائم کرنے کے لیے ایک متبادل پلیٹ فارم اور فورم کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ۔ حبس زدہ فضا میں یہ تبدیلی تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تھی اور اس کے نتیجے میں مختلف ویب سائٹس کا اجرا ہوا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس نئے تجربے کے نتیجے میں بہت اچھے اور طرز کہن سے اکتائے ہوئے لکھنے اور پڑھنے والے افراد ابھر کر سامنے آئے ۔بہت سے نامور بلاگرز،کالمنسٹ اور فری لانسر لکھاری اسی سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کی دریافت ہیں ۔اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ویب سائٹس اپنے معیار کو قائم رکھنے کے لیے،لکھنے پڑھنے والوں کی ادبی تسکین کے لیے ایسے اقدامات اٹھاتیں کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے مقابلے میں سوشل میڈیا ایک نمایاں متبادل کے طور پر اپنا آپ منواتا مگر نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں “ریٹنگ” کا ناسور تقریباً ہر ویب سائٹ کی جڑوں میں پھیل چکا ہے۔۔
مقابلے بازی کی فضا میں زہریلی کھمبیوں کی طرح راتوں رات جنم لینے والی ویب سائٹس نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ہر ہتھکنڈا اپنایا اور ہر داؤ آزمایا ۔اور اس بیمار ذہنیت سے بہت اچھے اور اعلی معیار کی ویب سائٹس بھی اپنا آپ بچا نہ سکیں۔
تماش بینوں کی تعداد بڑھانے کے لیے ہر قسم کے مواد کو شائع کیا گیا۔بے معنی اور بے مقصد جنسی تلزذ سے شروع کیے جانے والے اقدامات میں ایک نیا اضافہ متنازعہ تصاویر شائع کرنے کا ہے ۔ اب چاہے وہ ٹینس سٹار ثانیہ مرزا ہوں یا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ گولڈ سمتھ، اس حمام میں زبردستی سب کو ننگا کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اخلاقیات و اقدار کے شدید فقدان کے باعث ایسےہتھکنڈوں کی مخالفت کرنے والے تو خال خال ہی نظر آئے البتہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے “جارحیت بہترین دفاع ہے” کی پالیسی اپنائی گئی اور خوب کارگر رہی ۔مخالفین کے بخیے بذریعہ سوشل میڈیا ادھیڑنے والے اپنے اردگرد تماش بینوں کا ہجوم تو بخوبی اکٹھا کر لیں گے مگر اس سارے جھنجھٹ میں سنجیدہ لکھنے اور پڑھنے والے ایک بار پھر سے مایوسی کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں اور پڑھا لکھا روشن ذہن طبقہ اس پلیٹ فارم سے بھی بیزار ہو رہا ہے۔
ویب سائٹس کو اپنے لکھنے والوں کا معیار بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔اور اس سلسلے میں کسی بلیک اینڈ وائٹ ریفارمز اور دقیق پالیسیوں کی بجائے لکھاریوں کی ذہنی تربیت ایسے کی جانی چاہیے کہ لکھاری حرف و قلم کی حرمت اور اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے اور عوام کو متوازن اور صحت مند ادب فراہم کرے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں