افغانستان پچھلی تقریباً نصف صدی سے خطے میں جنگ و جدال کا مرکز بنا ہوا ہے، یوں سمجھ لیں کہ دنیا کی نام نہاد سپر طاقتیں اپنی جنگیں اپنی سرزمینوں پر لڑنے کی بجائے اسے مسلم سرزمینوں پر لے آئی ہیں۔ کبھی سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے۔ جنگ روس اور امریکہ کی ہو رہی ہے اور دونوں لڑ تیسری زمین پر رہے ہیں، جو مسلمانوں کی ہے۔ اسی طرح جنگ دو عالمی طاقتوں کی ہے، مگر لڑنے والے مسلمان ہیں۔ سعودی شہزادوں نے کتابیں لکھیں، اسی طرح مغربی صحافیوں نے کام کیا اور کچھ ڈاکومنٹس پبلک ہوئے، جس سے ہمیں پتہ چلا کہ جو جہاد ہم نے بڑے خلوص کے ساتھ افغانستان میں روس کے خلاف کیا تھا، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ البتہ مسلمانوں سے اتنا تعلق تھا کہ وہ جنگ مسلمان سرزمینوں پر لڑی گئی۔ اس جنگ نے افغانستان کی صورتحال تبدیل کرکے رکھ دی، ایک نسل خوف کے ماحول میں پیدا ہوئی، جہاں ہر طرف جنگ تھی، بڑی تعداد میں لوگوں نے پاکستان اور ایران میں مہاجرت کر لی۔
ماضی بھی جنگجو تھا اور حال نے جنگی ماحول فراہم کر دیا، پختون دلیر ہوتا ہے کہ نعرہ لگا کر پختون کے ہاتھ بندوق پکڑا دی گئی۔ روس قابض قوت تھا، اس کے خلاف افغانستانیوں کی جدوجہد ایک قانونی حیثیت کی حامل جدوجہد تھی۔ جیسے بھی روس افغانستان نے نکل گیا بلکہ کافی آگے نکل گیا اور اس کا افغانستان سے براہ راست بارڈر بھی ختم ہوگیا تو اب یہ سوچا جا رہا تھا کہ افغانستان ایک نارمل پرامن ملک بن جائے گا۔ جس پوری نسل نے لڑنے کے علاوہ کچھ نہیں سیکھا تھا، جن کے ذخیرہ الفاظ میں توپ، گولہ بارود، گولیاں اور بارودی سرنگیں ہی سب سے زیادہ معتبر الفاظ تھے، ان کے لیے لڑائی کے علاوہ کسی اور کام کا کرنا کافی مشکل تھا۔ مضبوط حکومت اور ریاست کا فقدان، اقتصادی تباہی اور جنگ و جدال کا ہی معیشت بن جانا وہ عوامل تھے کہ روس کے جانے کے بعد افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔
وہ جو کبھی جہاد کر رہے تھے، اب ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہوگئے۔ اس خانہ جنگی کا نتیجہ طالبان کی صورت میں برآمد ہوا اور پھر طالبان پر امریکی حملے نے خطے کی سکیورٹی کو تہس نہس کر دیا۔ اتنی بڑی تعداد میں امریکی فورسز خطے میں موجود ہوں تو امن یقیناً دور چلا جاتا ہے اور یہی ہوا۔ پاکستان پر مسلسل ڈرون حملے ہوتے رہے، ایران کے صوبے بلوچستان میں بھی بدامنی ک کوششیں رہیں، البتہ ان میں زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ امریکہ کو شکست ہوئی تو دوبارہ طالبان آگئے، افغانستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد طالبان کو بطور حکمران قبول نہیں کرتی، مگر زمین پر پورے افغانستان پر ان کی حکومت ہے۔
افغانستان میں جب بھی حالات خراب ہوئے، اس کی قیمت اس کے پڑوسیوں نے ادا کی۔ ایران اور پاکستان دو ایسے ممالک ہیں، جنہوں نے اہل افغانستان کی مدد میں کبھی بخل نہیں کیا۔ لٹے پٹے لوگ آتے ہیں اور یہاں پر رہنے کے لیے گھر، پیٹ بھر کھانا اور پہننے کے لیے کپڑے ملتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں ممالک کے ساتھ افغانستان کی حکومتوں نے اچھا سلوک نہیں کیا، ہمیشہ کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کیے رکھا۔ پاکستان کے ساتھ تو خیر بارڈر کو ہی تسلیم نہیں کیا گیا، ایران کے ساتھ بھی چھوٹے موٹے تنازعات پیدا کرکے ماحول کو خراب ہی رکھا گیا۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا، اس کے بعد بڑی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے، ہمارے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے مطابق ایک لاکھ سے زیادہ لوگ پاکستان میں آئے۔ آپ اسلام آباد میں سروے کرکے دیکھیں، ہر گلی محلے میں نئے آنے والے افغانستانی موجود ہیں اور شام کو پارکوں میں جائیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں کتنے افغانستانی آچکے ہیں۔
یہی بات ایران کے وزیر خارجہ امیر حسین عبداللہیان نے ویانا میں اپنے نارویجن ہم منصب سے ملاقات میں کی کہ اب تک لاکھوں مہاجرین ایران میں داخل ہوچکے ہیں جنہیں ضروریات زندگی فراہم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ افغانستان کے پڑوسی اس صورتحال سے پریشان ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان ایک پرامن ملک بنے، جہاں سے ان ممالک کی سکیورٹی کے لیے کوئی خطرہ نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے افغانستان کے پڑوسیوں نے بجائے طالبان سے الگ الگ ڈیل کرنے کے وزرائے خارجہ کا ایک گروپ تشکیل دیا ہے، جس میں افغانستان سے متعلق مشترکہ موقف اختیار کرنے کے لیے کوشش کی جاتی ہے۔ اس فورم کا چوتھا وزارتی اجلاس ازبکستان کے شہر سمر قند میں ہوا، جس میں افغانستان کے پڑوسی ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ پاکستان کی نمائندگی وزیر مملکت برائے خارجہ امور محترمہ حنا ربانی کھر صاحبہ نے کی۔
اس اجلاس میں بھی باہمی تعلقات کے فروغ، افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات اور وہاں کی موجودہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا۔ اس فورم کا ایک اچھا اثر یہ ہے کہ اب تمام پڑوسیوں کے مشترکہ موقف سے کابل میں قائم طالبان حکومت کے ساتھ بھی بہتر انداز میں بات چیت کی ہوسکتی ہے۔ احمد شاہ مسعود کے بیٹے نے قومی مزاحمتی تحریک شروع کر رکھی ہے، اس کا اجلاس ویانا میں ہوا، جس میں طالبان مخالف تمام دھڑوں نے شرکت کی۔ اس میں بہت سے بنیادی مطالبات رکھے گئے، طالبان کی حکومت ایک گروہ اور ایک خاص مسلک کی حکومت ہے، اس لیے افغانستان کے تمام گروہوں اور مذاہب کے ماننے والوں کی متناسب نمائندگی والی حکومت تشکیل دی جائے۔
مشہور عالم اور رہنماء استاد مصدق نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ باقی چھوڑیں شیعہ اور ہزارہ اکثریت کے دو صوبوں میں بھی کوئی شیعہ ہزارہ کسی اہم عہدے پر نہیں ہے بلکہ سب کے سب غیر ہزارہ اور غیر شیعہ ہیں۔ اسی طرح بچیوں کے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے حوالے سے بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ افغانستان کی صورتحال پڑوسیوں کے لیے پریشان کن ہے، اس لیے سب مل کر کوشش کر رہے ہیں کہ اس کے اثرات ان پر کم سے کم ہوں، مگر طالبان کے اقدامات خود کو تنہاء کرنے والے ہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں کام کرنے والی چار سو خواتین کو بھی کام کرنے سے روک دیا ہے، جس کی جنرل سیکرٹری اور دنیا کے مختلف رہنماوں کی طرف سے شدید مذمت کی گئی ہے۔ ایسی صورتحال میں طالبان مزید سفارتی تنہائی کی طرف جائیں گے اور جو پڑوسیوں پر مہاجرین کے مزید دباو کا باعث ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں