اب خلش تو تھی نا۔ڈاکٹر ارشد نے اس باب کو کھولنے کی کوشش ہی نہ کی جو The Private Life of chairman Maoپر بات چیت کے دوران ماؤ کے ثقافتی انقلاب پر عوامی ردّعمل جیسے سوال کے نتیجے میں سامنے آگیا تھا۔یقیناً ڈاکٹر صاحب کو موضوع سے ہٹ جانے کا خدشہ تھا ۔اسی لیے انہوں نے دو تین مختصر سے جملوں میں اعتراضی موضوع کا مکّو ٹھپ دیا۔ پر میرے اندر تو بے چینی اور اضطراب کا بیج بویا گیا تھا نا۔ بیجنگ سے جانے میں دن بھی تھوڑے رہ گئے تھے تو پھر اس پر گفتگو ضروری تھی۔اب جب نشست جم گئی ۔انہوں نے موضوع پر بات کرنے کی بجائے کہا۔
‘‘آنے سے پہلے اگر آپ کچھ مشورہ کرلیتیں تو میرے خیال میں یہ آپ کے لیے زیادہ فائدہ مند ہوتا۔’’
ڈاکٹر ارشد کی اس بات پر میں نے حیرت سے انہیں دیکھا تھا۔میری حیرت کو انہوں نے سمجھا اور بولے۔
‘‘دراصل یہاں ہر سال اپریل میں شاعری کامہینہ منایا جاتا ہے۔گذشتہ سال اِس مہینے کا اختتامی شاعرگولو شنگ Guo Lushengتھا۔کیا شاعری تھی اس کی۔مسٹی شاعری کا سرخیل وہی تو تھا۔ویسے مجھے چینی لوگوں کی یہ ریت اچھی لگی ہے کہ وہ اس کی زندگی میں ہی اُسے بھرپور خراج دینے لگے ہیں۔
مجھے افسوس نہیں ارشد کی اس بات پر دکھ اور غصّہ دونوں آئے۔چونکہ دونوں گھروں میں بہت قربت تھی ۔اس لیے بیچ سے لحاظ اور احتیاط والا خانہ خالی ہوگیا تھا۔
‘‘شاباش ہے تم پر ارشد ۔یہاں کونسی نواسے نواسی کے بیاہ کی تاریخ رکھی ہوئی تھی کہ میرا مارچ میں آنا لازم تھا۔ عمران اور سعدیہ (داماد اور بیٹی) فیملی کے ساتھ تم لوگوں کا گوڑھا یارانہ ہی نہیں ایک طرح دانت کاٹی روٹی والی بات ہے۔ اور تمہیں یہ بھی پتہ تھا کہ آنے والی کچھ لکھنے لکھانے کی بھی دلدادہ ہے۔اب بتاؤ تمہارا کہنا ضروری نہیں تھا کہ بڑی بی سے کہو ذرا ٹھہر کر آجائے۔
اب میرا بھی بھلا ہوجاتا کہ ماسکو میں ملنے والی اُس ہندوستانی خاتون کی اِس بات کی بھی پرکھ ہوجاتی کہ جس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں لہراتے ہوئے کہا تھا۔
‘‘باپ رے باپ اپریل کے اختتام سے مئی ،جون تک چین میں تو ہر سو پھولوں کی چادریں ہی بچھ جاتی ہیں۔’’
سچی بات ہے بڑے ہی بیبے اور پیارے لوگ تھے۔میری فضول قسم کی لتاڑاور ڈپٹ کا ذرا بُرا نہیں مانے۔ الٹا اعتراف کیا کہ ہاں واقعی غلطی ہوئی۔
تو اب آمدم برسر مطلب پہلا سوال مسٹی شاعروں سے کیا مراد ہے؟اور احتجاج کس انداز سے شروع ہوئے؟
ڈاکٹر ارشد نے چائے کا کپ اٹھایا ۔چھوٹا سا گھونٹ لیا اور بولے۔
‘‘احتجاجی تحریکوں کا سلسلہ گریٹ لیپ فارورڈ سے ہی اندر خانے شروع ہوگیا تھا۔احتجاج اور ردّعمل کئی صورتوں میں ظاہر ہوا۔اس مزاحمت کا پہلا ہتھیار مزاحمتی شاعری تھی۔بیسویں صدی کے بہت سے سوچ اور دانش رکھنے والے شاعر جو اِن دنوں کہیں کونے کھدروں میں پڑے تھے۔1960-70کی دہائیوں میں اس تنقیدی مزاحمتی شاعری کے ساتھ بیدار ہوئے جو ماؤ کے نظریات کی مخالف تھی اور جوان کی زندگیو ں کی قیمت پر وجود میں آئی تھی۔
یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بہترین اور ہردل عزیز شاعروں کی ایک نسل ثقافتی انقلاب کی راکھ سے پیدا ہوگئی تھی۔جنہیں مسٹی Mistyشاعروں کا نام دیا گیا۔ چینی زبان میں اسے مونگ لانگ شیرنMong long Shiren کہا گیا۔اس نام کو دینے کا مقصد بھی تھا کہ کہیں بھی حکومتی سطح پر ان کے کام کا اعتراف نہ کیا جاسکے۔لیکن اس سے کیا فرق پڑا؟
اس نئی اور وکھری ٹائپ شاعری کی اہم خوبی ہی یہی تھی کہ یہ حقائق پر مبنی ریلزم (Realism) کی بنیاد پر اٹھی تھی۔اس کا آغاز معروضی حقائق سے ہوتا ہوا شخصی اور انفرادی احساسات تک جاتا تھا۔یہ خاموش ردّعمل کی بجائے زندہ اور متحرک تخلیق کی نمائندہ ٹھہری تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ مرکزی دھارے میں شامل ہوگئی تھی۔
‘‘میرا خیال ہے کہ میں ذرا تھوڑا روایتی چینی شاعری کا پس منظر بھی واضح کردوں۔’’ڈاکٹر ارشد نے گفتگو کی روانی کو چھوٹی سی بریک لگائی۔
‘‘قدیم چینی سلطنتوں کی سلسلہ وار تاریخ میں جو چیز بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے وہ شاعروں کی طاقت کے ساتھ ان کے دِلی تعلق ،قربت اور مفادات پر مبنی شاعری تھی۔جسے ہم ذاتیات کا نام دے سکتے ہیں۔یہ قرابت داری کے زمرے میں آسکتی ہے۔انگریزی کا لفظ Proximity بھی موزوں ہے۔بہت سے شاعر حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ تھے۔
یہ روایتی ،سیاسی،شاعرانہ تفسیری ٹائپ وراثت آگے بھی منتقل ہوئی کہ ماؤ سیاست دان بھی تھااور شاعر بھی۔گریٹ لیپ فارورڈ کے مصائب و آلام ،کیمونسٹ پارٹی اور ثقافتی انقلاب کے دوران جب ماؤ نے کلچرل آرمی جیسے گروپ کی تشکیل چاہی اور ادب، آرٹ کو آرٹ برائے ادب اور آرٹ کے مخصوص نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہا اور حکماً کہا گیا کہ ہر قسم کا آرٹ اور ادب صرف اور صرف سیاسی ہوگا۔
اس کی ایک مثال ملاحظہ ہو۔
زمین سورج کا تعاقب کرتی ہے۔
چاند زمین کے پیچھے ہے۔
تیل ہمارے قدموں کا تعاقب کرتا ہے۔
اور
ہم ہمیشہ کمیونسٹ پارٹی کے پیچھے چلیں گے۔
بہت سے شاعروں نے پرانی روش کو اپنایا۔کچھ نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ہاں سوچ اور دانش رکھنے والے طبقے کی یکجائی نے طلبہ کے اندر بھی نئی اور باغیانہ سوچ کو جنم دیا۔مزاحمت کی راہ ہموار کی۔یوں یہ کارواں سا بن گیا۔اِن میں چند بڑے نام جو مجھے یاد ہیں بتائے دیتا ہوں۔
خاطونگHe Dong ، شو ٹنگ Shu Ting، گو چونگ Gu cheng، بی ٹاؤ Bei Dao، چھانگ چِھن Zhang Zhen، خا چن Ha Jin،چاؤ پنگ Chou Ping، منگ کھا Mng kha، تو آؤ، توآؤ Duo Duo
یانگ لیانYang Lian جیسے بے شمار لوگ تھے۔جنہوں نے اذیتیں سہیں، جیلیں بھگتیں۔چند ایک کو 1989تھین آن من سکوائر کی احتجاجیوں میں ہراول دستے کے لوگوں میں سمجھا گیا۔
بی ٹاؤ Bei Daoجیسا بے مثل شاعر جو چین میں بھی نہیں تھا اگلے بیس (20) سالوں کے لیے بین کردیا گیا۔اگرچہ تھین آن من سکوائر میں وہ بینروں پر لکھا گیا اور نعروں میں بھی شدت سے گونجا تھا۔چینی نژاد امریکی شاعر جو شاعری کے ساتھ ایک بہترین کہانی کار، مضمون نگارکے طور پر بھی اپنا آپ منوا چکا ہے۔وہ کئی بار نوبل ایورڈ کے لیے بھی نامزد ہوا۔کبھی وہ چائنہ کے ثقافتی انقلاب میں ریڈ گارڈ تھا مگر پھر لوگوں کے دکھوں اور مصائب نے اُسے باغی بنا دیا۔اس کی ایک نظم‘‘ وقت کا پھول سنو۔’’مجھے بہت پسند ہے یہ۔
شیشے میں ہمیشہ یہی لمحہ ہوتا ہے
یہی لمحہ جو تخلیق کے دروازے کی طرف راہنمائی کرتا ہے
وہ دروازہ جو سمندر کی طرف کھلتا ہے
دراصل میں نے بی ٹاؤ Bei Daoکو بھی کافی پڑھا ہے۔مسٹی شاعر کم و بیش سبھی بے مثال تھے۔تاہم اس وقت موضوع سخن زیادہ گولُوشنگ Guo Lushingہی ہے۔
گو لُوشنگ Guo Lusheng اسی نئی نسل اور ان ہی مسٹی شاعروں کا سرخیل تھا۔ اس کا قلمی نام شی چھر Shi Zhiرکھا۔آغاز میں اس کی شاعری کمال کی تھی۔کلچرل انقلاب کے بعد اس نے قلمی نام سے لکھنا شروع کیا۔
1968میں جب اس نے Ocean Trilogyمکمل کی ۔اس وقت ثقافتی انقلاب ابھی شیر خوارگی میں تھا۔ ثقافتی انقلاب کے آغاز میں وہ بہت پرجوش تھا۔ اسے لگتا تھا جیسے یہ انقلاب بہت بڑی تبدیلی کا باعث ہوگا۔ مگر پھر وہ مایوس ہوا کہ انقلابی تحریک تو خود لکھاریوں ،دانشوروں کے پیچھے پڑ گئی۔وہ زیر زمین دنیا بھر کے لکھاریوں سے جڑ گیا۔ اس نے اپنے لوگوں کو مغربی سیاست ،فلاسفی اور اس کے اثرات سے روشناس کروایا۔
اگرچہ گولو شنگ Guo Lusheng کی نظمیں بغاوت کی واضح عکاس تھیں۔ اس کے مداح اس کی شاعری ہاتھ در ہاتھ تقسیم کرتے تھے۔ مگرگو Guoنے اپنی دماغی صلاحیتوں کو چینی روایتی شاعری میں جس سچائی اور خلوص سے شامل کیا اور شاعروں کی نئی نسل کو اپنے خیالات وجذبات کے دلفریب اظہار کا سلیقہ سکھایاوہ قابل تعریف ہے۔
تاہم1971میں جب ماؤ نے لوگوں سے اپنا سب کچھ دان کردینے کو کہا۔ یہ وہ وقت تھا جب گو Guoسے برداشت نہ ہوا۔اس نے مصلحتوں اور زیر زمین والے سب ذریعے پھاڑے اور کھل کر میدان میں اُترا اور لوگوں کو آواز بلند کرنے کے لیے کہا۔
ذرا اُس کی اس نظم کو دیکھیئے۔
جب مکڑیاں میرا سٹور اپنے جالوں میں چھپا چکی ہیں
جب دھویں کے کمزور مرغولے غربت کے دکھوں میں ٹھنڈی سانس بھرتے ہیں
اور میں مایوسیوں کی راکھ کو بجھا رہا ہوں
جو خوبصورت برف کے گالوں سے ابھر رہی ہیں
میں مستقبل کے بارے پرامید ہوں
مختصراً زندگی کا احوال کچھ یوں ہے۔
باپ سرخ فوج میں تھا۔ بہت سے فوجیوں کی بیویوں کی طرح گو Guo کی ماں بھی آرمی کے ساتھ ہی رہتی تھی۔مارچ1948کی ایک سرد ترین دن وہ سڑک کے کنارے پیدا ہوا۔لوشنگ Lusheng کا مطلب یہی ہے سڑک پر پیدا ہونے والا۔
شاعری کاآغاز بہت کم عمری میں ہوگیا تھا۔دوستوں کے بدترین سلوک نے بہت مایوس کیا۔اس نے خود کو بند کرلیا۔چین سمو کر بنا۔اسی دوران اس کے باپ نے دیکھا کہ اس نے ایک آدمی کی تصویر بنائی ہے۔جس کی گردن میں ایک لمبا چاقو ہے۔اُسے شک ہوا کہ شاید وہ خودکشی کرنے جارہا ہے۔
کیونکہ اس کے بہت سارے دوست ایسا کرچکے تھے۔1973میں اُسے مینٹل اسپتال داخل کروا دیا گیا۔ جہاں شیزوفرینیا کی تشخیص ہوئی۔
میرے خیال میں گولو شنگ عظیم شاعر ہے۔یہ وہی شاعر تھا جس نے مسٹی شاعروں کو متاثر کیا۔شہرت کی بلندیوں تک پہنچا ۔یہی وہ شاعر تھا جسے دو سال قبل اس کے مداحوں نے ہمیشہ کی طرح اپریل کے مہینے میں اُس کا جنم دن بھرپور طریقے سے منایا تھا۔ اور جسے میں نے اول سے آخر تک سُنا اور متاثر ہوا۔
‘‘مستقبل کے بارے پرامید رہو’’ میں ذرا دیکھیں وہ کیا کہتا ہے۔
میں دور بہتی لہروں کی طرف اشارہ کرتا ہوں
میں وہ سمندر بننا چاہتا ہوں جو اپنے آپ میں سورج کو سموئے
جو صبح کے گرم جوش قلم کو تھامے
اور بچوں کے سے انداز میں لکھے
اور مستقبل کے بارے پُرامید ہو
وہ خود کو سمندر میں صرف ایک قطرے سے تشبیہ دیتا تھا۔مگر آج وہ ایک وثرنری شاعرکے طور پر جانا اور سمجھاجاتا ہے۔
اب ایک دلچسپ ساادبی جھگڑہ جو پچھلے دنوں میں سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ذرا آپ بھی سُنیں اور لطف اٹھائیں۔
یوئے شیاؤ خوآYu Xiuhua آج کی نوجوان شاعرہ جو دماغی بیماری کی وجہ سے بولنے اور چلنے پھرنے میں دشواری محسوس کرتی ہے۔مگر کیا کمال کی شاعرہ ہے۔نئی نسل کی ترجمان ،بے باک جس نے کوئی دوہزار سے زیاد ہ نظمیں لکھیں۔2014میں اس کی ایک نظم I crossed half of china to sleep with youنے بڑا ادھم مچایا تھا۔ کچھ ماہ پہلے کسی بک لانچنگ تقریب میں گو Guoنے موجودہ چینی شاعری پر کچھ نکتہ چینی کی تھی۔یوئے Yu نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ اس کی زندگی کافی پینے،کتابیں پڑھنے،گپ شپ کرنے اورموج میلہ کرنے میں ہی گزرتی ہے۔
جب گو نے کہا۔‘‘یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شاعر انسانیت بارے نہ سوچے۔یا وہ اپنی قوم کے مستقبل پر غوروخوض نہ کرے۔’’
یہ کیسے ممکن ہے کہ دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والا ایک شاعر دیہاتی زندگی کی
تکالیف اور مصائب کا ذکرنہ کرے اور ان کے لیے خوشحالی کے خواب نہ دیکھے۔یہ باتیں کیسے بھول سکتے ہیں۔
ایسے وقت میں جب سوچوں پر پہرے لگانے کی کاوشیں ہوں۔یہ چپقلش اچھی چلی ۔اور لوگوں نے اس میں بھرپور طریقے سے حصّہ لیا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں