پاکستان میں بے چارے بچوں اور خصوصاً غریب شخص کے بچوں کا کوئی پُرسان حالِ نہیں ہے۔ ان کے خلاف جنسی جرائم کی ایک لہر سی چلی ہوئی ہے۔ انھیں اغواء کر کے ریپ کر کے مار دینا ایک کھیل بن چکا ہے۔
کوئی معاشرہ اتنی گندگی کی دلدل میں کیسے گر سکتا ہے؟
مذہبی راہنما اور ان کی سیاسی پارٹیاں بھی اس موضوع پر منہ میں گھنگنیاں ڈال کر چُپ شاہ کا روزہ رکھ لیتی ہیں۔ حکومتی عہدہ داروں کو بھی سانپ سونگھ جاتا ہے۔ عدالتیں تو خیر سے یوں بھی کانوں میں تیل ڈالے اونگھتی رہتی ہیں۔ کوئی مَرے یا جیے، ان کے سر پہ جوں تک نہیں رینگتی۔
اندھیر نگری چوپٹ راجہ بنے وطن عزیز میں آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔
بچوں کا اسلامی مدرسوں میں جنسی استحصال ایک ایسا موضوع ہے جسے بلی کے گوہ کی طرح ڈھانپ دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو پرانے غیر موثر قوانین کی جگہ نئے سخت قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کروانے کی سخت ضرورت ہے۔
بچوں کے خلاف جنسی تشدد اور قتل و غارت کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی دہشت گردی کو روکنا ناگزیر اَمر ہے۔
بچے والدین کی مکمل ذمہ داری ہوتے ہیں۔ ماں باپ کو ہمہ وقت ہی ان پر نظر رکھنی چاہیے۔ اس سلسلے میں کسی قریبی رشتہ دار پر بھی ہرگز بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ بچوں کو بچپن ہی سے اس امر سے آشنا کر دینا چاہیے کہ وہ کسی کو اپنے جسم کے نازک حصّے چھونے کی اجازت نہ دیں اور اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو فورا ً شور مچا دیں اور وہاں سے بھاگ کھڑے ہوں۔
پاکستان میں لوگ بچے پیدا کر کے انھیں گلیوں سڑکوں اور محلوں میں کھلا چھوڑ دینے کے عادی ہیں۔ بچے محلے اور رشتہ داروں میں رُل کر خود بخود پل جاتے ہیں۔ بہت سے قریبی رشتہ دار ہی ان کا جسمانی استحصال کرتے ہیں اور بچے کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں پاتے۔
بچوں کے خلاف ان جرائم کے ارتکاب کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دینے اور نئے سرے سے سخت قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔
کاش ہمارے عوام اس سلسلے میں مل کر حکومت عدالتوں اور سیاست دانوں کو جھنجوڑ سکیں۔
پاکستانی معاشرے اور امریکن معاشرے میں شاید یہی کلچرل فرق ہے۔ امریکہ میں والدین بچوں کو اپنی آنکھوں سے ذرا اوجھل نہیں ہونے دیتے۔ زیادہ تر لوگ سکول چھوڑتے اور پک بھی خود کرتے ہیں۔ رشتہ داروں کے ساتھ تنہا چھوڑنا بھی کم کم ہی ہوتا ہے۔ سولہ سال سے کم عمر بچوں کو تنہا گھر میں چھوڑنا جرم ہے۔ اگر کوئی اس جرم میں پکڑا جائے تو حکومت کی ایجنسیاں بچے چھین لیتی ہیں۔ ماں باپ کو جرمانہ اور سزا کے ساتھ ساتھ لازمی ٹرینگ بھی حاصل کرنی پڑتی ہے۔ چھوٹے بچوں کو ڈے کئیرز میں چھوڑا جاتا ہے یا بے بی سٹر کے ساتھ مگر تنہا بالکل نہیں چھوڑا جاتا۔ بچوں کو اکیلا بازاروں یا دیگر جگہوں پر بھیجنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہاں اگر کوئی شخص کسی بچے کے ساتھ زیادتی کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے نہ صرف سخت سزا اور جرمانہ کیا جاتا ہے بلکہ اسے جنسی مریض قرار دے کر اس کا نفسیاتی علاج بھی کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگوں کو ایک ادارے کے ساتھ رجسٹر ہونا پڑتا ہے ۔
ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی لگ جاتی ہے۔ وہ جس محلے یا نئی جگہ پر جا کر رہیں۔ انھیں اپنے آس پاس کے پورے محلے میں بذریعہ اشتہار یا خط بتانا پڑتا ہے کہ وہ جنسی جرم میں ملوث رہ چکے ہیں۔ اگر وہ اپنے ہمسائیوں کو اپنے بدکرداری سے آگاہ نہ کریں تو نہ صرف ان کی سزا میں اضافہ کر دیا جاتا ہے بلکہ ان کی تصاویر اور کالے کرتوت تمام سکولوں اور پوسٹ آفس میں آویزاں کر دی جاتی ہیں۔ ایسے لوگوں کا داخلہ سکولوں اور دیگر ایسی تمام پبلک جگہوں پر بھی منع ہوتا ہے، جہاں بچے پائے جاتے ہوں۔ ان لوگوں کو آئندہ کوئی نوکری بھی نہیں دیتا۔ انھیں شرمندگی اور تنہائی کی زندگی گزارنا پڑتی ہے۔
کاش اسی قسم کے موثر قوانین وطن عزیز میں بھی بن سکیں اور بچوں پر ناجائز ظلم کر کے ان کی زندگی تباہ کرنے یا ان کا چراغ گُل کرنے والے ظالم درندوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا جا سکے۔ بد قسمتی سے کیونکہ پاکستانی معاشرے میں اکثر خواتین کام نہیں کرتیں لہذا مرد حضرات بچوں کی تمام ڈیوٹیاں ان پر ڈال کر فارغ اور بری الزمہ ہو جاتے ہیں جو کہ ایک بے حد غلط رویہ ہے۔ یاد رہے کہ بچوں کے جنسی استحصال میں زیادہ تر ایسے لوگ ہی ملوث ہوتے ہیں جن کو بچے جانتے ہیں۔ ان لوگوں میں قریبی رشتہ دار، گھریلو ملازم، پڑوسی، کزن، استاد اور مولوی حضرات بھی شامل ہیں۔ بچوں اور ان کے گرد و نواح پر کڑی نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر آپ کا ہنس مکھ ہر وقت چہچہاتا ہنستا مسکراتا بچہ یکلخت بجھ سا گیا ہے، یا غصے سے کھولتا پھر رہا ہے، ڈپریشن اس کے چہرے سے عیاں ہے تو اسے اپنے پاس بٹھا کر پیار سے پوچھیے کہ اس کا رویہ تبدیل ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
بچوں پر اعتماد کیجیے اور انھیں خود پر اپنا اعتماد بھی قائم کرنے کا قائل بھی کیجیے۔ ان سے ایسا دوستانہ سلوک کریں کہ وہ اپنی ہر بات آپ سے شیئر کر سکیں۔ جن بچوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے وہ خود کو مجرم اور گناہگار سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کا نفسیاتی علاج بھی بے حد ضروری ہوتا ہے۔

پاکستان میں لاپروائی ایک عام امر ہے۔ امریکہ میں بھی پاکستانی اور عرب گھرانے کے ننھے بچے سڑکوں پر پائے جانے کی بنا پر ماں باپ کو سزائیں دینے کے کافی کیسز ہوتے رہتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں