دکھ کئی قسم کے ہوتے ہیں، اور بالخصوص ایسے دکھ ’پالے‘ جاتے ہیں جن پر آپ کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ مثلاً کشمیر اور فلسطین کا دکھ، امت مسلمہ کی گمرہی کا دکھ، پاکستان میں پیدا ہونے کا دکھ، رنگ گورا یا بال جلدی سفید ہونے کا دکھ، قد اور نسوانی حسن یا مردانہ وجاہت کے فقدان کا دکھ، اولاد نرینہ پیدا نہ ہونے کا دکھ، مرضی کی حکومت نہ بننے اور شوہر یا بیوی ’مرضی‘ کی نہ ملنے کا دکھ، وغیرہ وغیرہ، فہرست طویل ہے۔
اوپر سے ہمارے لبرل دوستوں کو فکر ہے کہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے مذہب کی گرفت زندگی کے ہر شعبے میں بڑھتی جا رہی ہے۔ اُنھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سری لنکا کی شرح خواندگی تقریباً سو فیصد ہے۔ ابھی نیشنل جیوگرافک پر ایک پروگرام میں دیکھ رہا تھا کہ وہاں ایک مندر میں مذہبی تہوار کے موقعے پر روزانہ ایک لاکھ سے زائد لوگ پرشاد لینے آتے ہیں۔ لبرل دوستوں کا مذہب سے شکوہ سکھوں کو بھی دیکھتے ساتھ ہی غائب ہو جاتا ہے۔ اُن سے وہ کبھی پگڑی اور داڑھی کی بابت بات نہیں کرتے۔ ورنہ سٹوڈنٹس کی مذہبی داڑھی اور سنگھوں کی داڑھی میں سوائے گوند کے کیا فرق ہے؟
یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کی تاریخ ہماری تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات یا جوانی پر مرکوز نہیں۔ آپ جنگل میں سفر کرتے ہوئے کانٹوں اور جھاڑیوں کا صفایا کیے جانے کا تقاضا نہیں کر سکتے۔ عقیدے، تنگ نظری، خوف اور خوابوں کی جھاڑیاں ہمیشہ راہ میں رہیں گی۔ آپ کو آگے کی راہ کا علم ہی نہیں تو اُس کے صاف کیے جانے کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں؟ کیا کوئی مغموم بیوی یا مایوس شوہر فانی اور عام انسانوں کی تاریخ میں سے کوئی مثالی شوہر یا مثالی بیوی بتا سکتا ہے؟ یا اپنے عہد اور معاشرے سے نالاں شخص بتا سکتا ہے کہ تاریخ کا کونسا دور ملتا تو وہ زیادہ خوش ہوتا؟

اگر جل پری بننے کا شوق ہے تو خود ٹانگوں پر کپڑا باندھ کر سمندر کے کنارے لیٹ جائیں اور چلنے سے معذور ہو جائیں۔ اگر ہرکولیس بننے کا شوق ہے تو کرۂ ارض کا بوجھ اُٹھانا پڑے گا۔ تو اچھا نہیں کہ زندگی کو جہاں ہے جیسے ملی ہے کی بنیاد پر لیں، تھوڑا بہت راستہ صاف کریں، اور بس۔ کوئی خوابوں کا جزیرہ ملنا ہوا تو مل جائے گا، ورنہ رائیگانی تو ہے ہی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں