ایسے انسان کی آپ بیتی جنہوں نے باوجود صدمات کو جھیلنے کے اپنی زندگی کے ان واقعات کو دہرانے کی خواہش ظاہر کی جس کے وہ عینی شاہد تھے تاکہ تاریخ کے صفحات پہ انکے سچ کا اضافہ ہوسکے۔یہ داستان ہے 64سالہ ڈاکٹر انور شکیل کی، جو آج کینیڈا کے شہری ہیں ۔ انہوں نے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں ایک اردو زبان بولنے والے بہاری خاندان میں آنکھ کھولی ۔ اور سقوط ڈھاکہ کے سانحہ اور جنگ میں ہارنے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ انڈیا کے شہر میرٹھ کی چھاؤنی کے کیمپ نمبر اٹھائیس میں زندگی کے 22 ماہ کی قید کاٹی۔
اسیری میں یگانگت
شاید وطن سے دوری ، قید میں یکجائی اور حالات کی بےبسی کبھی ہمیں وہ سبق دیتی ہے جو انسانیت کی پکار ہے یعنی تفریق کے باوجود ایک دوسرے سےمحبت اوریگانگت۔
میرٹھ میں چار کیمپ تھے، ہمارے کیمپ کا نمبر ۲۸ تھا لیکن اور تین کیمپ بھی تھےجن کے نمبر کسی ترتیب سے نہیں تھے مثلاً ایک کیمپ کا نمبر ۵۱ تھا۔
دو ماہ بعد اعلان ہُوا کہ ہمارے کیمپ کے کمانڈر کرنل ببر سنگھ کیمپ کے دورے پہ آئیں گے۔ دورے کے بعد انہوں نے بہت اطمینان اور خوشی کا اظہار کرتے ہوۓ کہا “آپ لوگوں نے بہت ڈسپلن کا مظاہرہ کیا۔ کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ، ہر معاملہ بہت سکون سےنبھایا۔انہوں نے کہا ہم نے آپ کو جو روزمرہ کے کام دئیے ہیں اسکا مقصد آپ کو مصروف رکھنا ہے۔ورنہ تو آپ بیٹھے بیٹھے بور ہو جائیں گے۔ وقت کیسے گزاریں گے۔ انہوں نےکہا آپ ایک نہ ایک دن پاکستان ضرور جائیں گے۔لیکن کب ؟ہم اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وقت مشکل ہے لیکن کٹ جاۓ گا۔”انہوں نے یہ بھی کہا کہ صبح سے دوپہر تو کام ہوتا ہے لیکن آپ لوگ شام کے لیے کوئی تفریحی ایکٹیوٹی بھی کریں۔ببر سنگھ کی یہ تقریر پہلے دن کی طرح سخت نہیں تھی۔ بلکہ کافی نرم لہجہ میں کی گئی تھی۔
کیمپ کا کچن جہاں کھانا بنتا تھا اس کو لنگر خانہ کہا جاتا تھا اور یہیں سے کھاناتقسیم ہوتا۔ کم ازکم ہر قیدی کے لیے یقیناً کھانے سے متعلق سرگرمی اہم تھی۔
کیمپ میں سب ہی عمروں کے لوگ تھے چھوٹے، بڑے، جوان اور بوڑھے،اکیلے رہنے والےیا خاندان کے ساتھ۔وہ لوگ کہ جن کے خاندان مغربی پاکستان میں تھے۔ قیدی مختلف ذہنی کیفیات سے گزر رہے تھے ۔ کوئی ڈیپریشن اور مایوسی تو کوئی امید وبیم کے عالم میں۔ بس وقت گزر رہا تھا اور ہم سب وقت کی کشتی میں سوار اس بات کے منتظر تھے کہ کب اذنِ رہائی ملے۔
ایک مسئلہ جو تھا وہ یہ کہ ہمارے پاس کوئی ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ نہ تھا جوساتھ لاۓ تھے اب نہ رہا تھا۔ ہم نے شروع کے تین چار ماہ دانت نمک اور انگلی سے صاف کیے ۔ پھر بعد میں ہم سب کو ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش اور لائف بواۓ صابن ملا۔
سب سے زیادہ پریشانی سگریٹ کے عادی قیدیوں کی تھی۔ یہ مرد قیدی، جیل نمبر 1 جس میں عورتیں اور بچے تھے، اور جیل نمبر2، مرد قیدیوں کے درمیان گشت کرنے والے سنتریوں کے پھینکے ہوۓ سگریٹ کے ٹکڑوں کے منتظر رہتے۔ اپنے اداروں میں اعلیٰ عہدوں پہ کام کرنے والے قیدی جن کے کئی ملازم دفتر میں انکی تابعداری کرتےہوں گے ۔ وہ اپنے نشے کی عادت کے بے بس غلام تھے۔ وہ ان سپاہیوں سے درخواست کرتے کہ زیادہ سگریٹ چھوڑا کرو۔ بعد میں تو دوستی ہو گئی تھی تو چوری چھپےہندوستانی فوجی ہی ان کا دو چار سگریٹ کا انتظام کردیتے۔یہ بھی اچھا تھا کہ میرےوالد اور چچا کو سگریٹ کی عادت نہیں تھی ۔
ہفتہ میں دو بار گھر کے مرد قیدیوں کو اپنے خاندان کے پاس جانے کی اجازت مل گئی تھی ۔ جس کا دورانیہ پہلے آدھ گھنٹے اور پھر ایک گھنٹے کے لیے ہوگیا۔ میں ابّی کے ساتھ اپنی امی اور بہن بھائیوں کے پاس جاتا۔ زمین پہ بستر بچھا ہوتا ۔ ہم وہیں بیٹھ جاتے اور باتیں کرتے۔ وہیں ہماری سنجھلی چچی بھی تھیں ، ہمارے سنجھلے چچا کی بیوی، جو ڈھاکہ میں ہمارے ساتھ رہتی تھیں۔ چچی کی کوئی اولاد نہیں تھی مگر ان کومرتبان میں لڈو، بیسن کے لڈو، شکر پارے اور نمک پارے بناکر رکھنے اور مہمانوں کی ان چیزوں سے مہمانداری کرنے کی عادت تھی۔ایک دن ہم ان سے ملنے لگے تو بہت غمگین آوازمیں کہا” بیٹا ہمارے پاس یہاں تو کچھ بھی نہیں تمھیں کھلانے کو۔” ہم نے کہا “کوئی بات نہیں، ہم سمجھتے ہیں۔” مگر ان کی اداسی کم نہ ہوئی، قفس میں آشیانہ کیسے بنتا۔امی ، چچی اور چچا ، جو ابّا سے بڑے تھے، ان کو اس بات پہ بہت فخر تھا کہ میں کم عمری میں کیسے ابّی کو سنبھالنے کی ذمہ داری اُٹھا رہا ہوں۔
ہم لوگ کیمپ کے بیچوں بیچ ، قیدیوں کی اینٹوں سے بنائی ہوئی مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کرتے۔ اس جماعت میں شیعہ سُنّی کی کوئی تفریق نہیں تھی۔
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوۓ۔۔۔۔
والا معاملہ تھا۔
ہم سب میرٹھ کے کیمپ میں تین فروری کو پہنچے تھے۔ ایک ماہ بعد محرم کا مہینہ آگیا۔مجھے یاد ہے یومِ عزا کی مجلس کے لیے قیدیوں ہی میں سے ایک بہت اچھے مقرر انیس زیدی صاحب تھے ۔ بعد مجلس دھیمے انداز میں ماتم بھی ہوتا۔ محرم کی دس تاریخ بھی آئی لیکن امام کے غم میں سوگوار، کالے کپڑے نہیں پہن سکتے تھے ۔ اس موقع پہ بھی ہم سب ایک سے لباس پہنے ہوئے تھے۔ ۔قیدیوں کا لباس! کسی بھی فرقہ کی تفریق کے بغیر ،البتہ ہر قیدی کی قمیض پہ مختلف نمبر ضرور لکھا تھا۔ اسیری کے غم کی ڈور نے سب کو جوڑ کے رکھا ہُوا تھا۔ رنگ، مذہب ، ذات پات اور زر کی بنیاد پہ تقسیم سے آزاد قیدی۔کیمپ کمانڈر بھی بار بار کہتے کہ آپ سب بہت منظّم انداز میں رہ رہے ہیں ۔
جب کئی ماہ گزر گئے تو یہ اجازت ملی کہ باپ دن میں دو تین گھنٹوں کے لیے بچوں کواپنے ساتھ لا سکتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دن انسپکشن ہونا تھی، جو میرٹھ کے چارکیمپوں کے انچارج بریگیڈئیر جے پی ایس باجوہ کر رہے تھے۔اس معائنہ کے دوران ایک پانچ چھ سال کا لڑکا اپنے والد کے ساتھ تھا۔ اس کے ہاتھ میں پلاسٹک کی کھلونا گن تھی۔ بچے نے گن کو بریگیڈئیر صاحب کے سر پہ تان دیا اور کہا” میں چھوڑوں گا نہیں۔آپ نے ہمیں قید کرکے رکھا ہے اور ہمیں گھر نہیں جانے دے رہے۔” اسکی اس حرکت پہ سنتری نے فوری ایکشن لینا چاہا تو انہوں نے منع کرتے ہوئے کہا “ نہیں یہ بچہ ہے اوراسکے پاس کھلونا ہے۔” پھر بچے سے کہا” نہیں آپ جائیں گے۔ ہم نے آپ لوگوں کوحفاظت کے لیے رکھا ہوا ہے کہ آپ اپنا گھر چھوڑ کے آۓ ہیں تو آرام سے رہیں۔” پھرانہوں نے بچے کو چاکلیٹ بھی دی۔
اسکے بعد ہر تین چاہ ماہ بعد جب وہ کیمپ آتے تو بچوں کے لیے چاکلیٹ اور بڑوں کےلیے قرآن شریف اور جاءنماز کا تحفہ لاتے۔اور ان قرآن پاک کو ہندو سپاہی کے بجاۓہندوستان فوج کا کوئی مسلمان فوجی ہی اٹھاتا۔ اور قیدیوں کو دیتا۔ مسلمانوں کے نام انکے بیج سے پڑھے جاسکتے تھے۔ کاش دوسروں کے جذبات، خیال اور احساس کو ہم ہمیشہ اپنی زندگیوں میں مقدم رکھ سکیں ۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں