• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پار چناں دے – چندربھاگا سے چناب تک کا سفر(آخری حصّہ چہارم )۔۔ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

پار چناں دے – چندربھاگا سے چناب تک کا سفر(آخری حصّہ چہارم )۔۔ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری

جھنگ کے ساتھ چناب پہ ”ریواز پل“ واقع ہے جو ملک پاکستان کے سب سے پرانے پلوں میں سے ایک ہے۔ یہ 1905 میں انگریزوں نےبنایا تھا جسے قریب موجود گاؤں کی وجہ سے چنڈ بھروانہ پل بھی کہا جاتا ہے۔

جھنگ کا ایک اور حوالہ محبت بھی ہے۔ چناب کنارے محبت کی اس سر زمین سے  ہیر سیال جیسی مٹیارن نے جنم لیا جس کے عشق کی داستان، چناب کہانیوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔
بہت سے مصنفین و شعرا نے ہیر ہیررانجھا کی کہانی لکھی، لیکن ان میں سے سب سے مشہور وارث شاہ کی لکھی ہوئی  ہیر وارث شاہ ہے۔ مختصر کہانی یوں ہے کہ تخت ہزارے کا میاں مراد بخش عرف رانجھا باپ کے مرنے کے بعد بھائیوں سے تنگ آ کہ گھر چھوڑ دیتا ہے اور پھرتے پھرتے ہیر سیال کے جھنگ آ پہنچتا ہے۔ یہاں جب وہ ہیر کو دیکھتا ہے تو اپنا دل دے بیٹھتا ہے۔
ہیر بھی رانجھے کی ونجلی (بانسری) کے سحر میں اس کی شیدائی ہو جاتی ہے اور یہ دونوں چھپ کہ ملنے لگتے ہیں یہاں تک کہ ہیر کا چاچا کیدو اسے پکڑ لیتا ہے اور اس کی شادی کھیڑوں میں کر دی جاتی ہے۔
ماہی ماہی کوکدی میں آپے رانجھن ہوئی
رانجھن رانجھن ہر کوئی آکھے ہیر نہ آکھے کوئی
(شاہ حسین)
ادھر عشق میں نا کامی سے رانجھے کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ دوبارہ آوارہ گردی کرنے لگا۔ ایک دن اس کی ملاقات بابا گورکھ ناتھ سے ہوئی جو جوگیوں کے ایک قبیلے کا بانی تھا۔ اس کے بعد رانجھا بھی جوگی بن گیا۔ اس نے ٹلہ جوگیاں پر اپنے کان چھدوائے اور جوگی بن کر  رنگ پور پہنچا جہاں ہیر بیاہی گئی تھی۔ یہاں اس نے سیدو کھیڑے کے مکان پر صدا لگائی جسے پہچان کہ ہیر اپنی نند سہتی کے ساتھ اس سادھو کو خیرات دینے باہر نکلی۔ ہیر نے رانجھا کو پہچان لیا۔ رانجھا نے رنگ پور میں ڈیرہ لگا لیا اور خیرات کے بہانے ہیر کا دیدار کرتا رہا۔
یہاں سے آگے اس داستان پر بہت سے لوگوں کا اختلاف پایا جاتا ہے۔ کسی کے مطابق بیٹی کی ضد سے مجبور ہیر کے والدین دونوں کی شادی پر رضا مند ہو گئے مگر حاسد کیدو نے عین شادی کے دن زہریلے لڈو کھلا کر ہیر کا کام تمام کر دیا جبکہ کوئی کہتا ہے کہ ہیر کو زہریلے سانپ کے ڈسنے پر علاج کی غرض سے رانجھے جوگی کے ساتھ بھیجا جاتا ہے جہاں سے وہ فرار ہو جاتے ہیں اور کھیڑے انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ کہیں لکھا ہے کہ جھنگ کہ قریب پہنچنے پر سیال انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ہیر رانجھا دونوں کو ہی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔
بے ادباں نہ سار ادب دی نال غیراں دے سانجھے ہُو
جیہڑے ہانہہ مِٹی دے بھانڈے کدی نہ ہوندے کَانجھے ہُو
جیہڑے مُڈھ قدیم دے کھیڑے ہوون کدی نہ رانجھے ہُو
جَیں حضور نہ منگیا باہُو گئے جہانیں وَانجھے ہُو
(حضرت سلطان باہو رح )
ہیر رانجھا کی کہانی پر مبنی بھارت اور پاکستان میں متعدد بار “ہیر رانجھا“ نام کی فلمیں بن چکی ہیں جن میں فردوس اور اعجاز درانی کی پنجابی فلم ہیر رانجھا نے بہت نام کمایا۔
پنجاب میں تین صدیوں تک اس کو شادی بیاہ، میلوں اور دیگر مواقع پر گایا اور سنا جاتا رہا ہے۔ آج بھی پنجاب کے دیہاتوں میں بزرگ شخصیات اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
جنڈیالہ شیر خان میں وارث شاہ کے مزار پہ آج بھی ہیر پڑھی جا رہی ہوتی ہے۔
یہ تو ایک کہانی ہے جسے اکثر لوگ حقیقت نہیں مانتے اور تاریخی طور پہ بھی اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ دوسرا حضرت بابا بلھے شاہ، حضرت سچل سرمست، حافظ برخوردار اور دیگر صوفی شعرا نے ہیر رانجھا کا جو تصور پیش کیا وہ عاشقی کا تاثر نہیں دیتا بلکہ دونوں کے روحانی مرتبہ و مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔
ہیر کا مزار بھی #جھنگ میں واقع ہے جبکہ چناب کے نام پر جھنگ کا مشہور تعلیمی ادارہ  چناب کالج 1991 میں بنایا گیا تھا ۔

واپس چناب کی طرف آتے ہیں۔
جھنگ سے ہی کچھ جنوب میں #تریموں کے مقام پر کشمیر و پوٹھوہار کا پانی لے کر  دریائے جہلم اس میں آن ملتا ہے۔ اسی جگہ تریموں ہیڈ ورکس واقع ہے۔
1939 میں بنائے جانے والے اس بیراج سے نکلنے والی بڑی نہر تریموں – سدھنائی لنک کینال ہے جو مشرق سے چناب کا پانی لے کہ خانیوال میں دریائے راوی پر بنے  سدھنائی ہیڈورکس میں مل جاتی ہے۔ حویلی کینال بھی اس کے ساتھ ہی سفر کرتی ہے۔ جبکہ تریموں کی غربی جانب رنگ پور کینال نکلتی ہے جو جھنگ اور مظفرگڑھ کے علاقوں کو سیراب کرتی ہے۔
یہیں چناب کے دوسری جانب #اٹھارہ_ہزاری واقع ہے جس کے قریب تھل کا ریگستان ہے۔

کچھ جنوب میں سفر کریں تو ہم چناب کے ساتھ شور کوٹ شہر پہنچ جاتے ہیں۔ ۔
شور_کوٹ جھنگ کی تحصیل ہے جہاں پاک فضائیہ کی اہم ائیر بیس موجود ہے۔ قلعہ شورکوٹ کی بنیاد مشہور راجا اشور نے رکهی تهی اس لیے علاقے کو شورکوٹ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اس شہر سے 12 کلو میٹر کے فاصلے پر شور کوٹ چھاؤنی اور شور کوٹ چھاؤنی جنکشن واقع ہے۔ یہ شہر صوفی بزرگ سید بہادر علی شاہ اور شاہ محمود غازی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
شور کوٹ سے آگے  گڑھ مہاراجہ ہے جہاں مشہور صوفی حضرت سلطان باہورح کا مزار واقع ہے۔ عہد شاہجہاں میں شور کوٹ میں پیدا ہونے والے صوفی بزرگ  سخی سلطان باہوؒ کا تعلق سلسلہ سروری قادری سے ہے۔ آپ کے والد سپاہی تھے۔ آپ ایک صالح، شریعت کے پابند، حافظِ قرآن فقیہ شخص تھے۔ سخی سلطان باہو کی والدہ بی بی راستی، عارفہ کاملہ تھیں ۔ سلطان باہو کی پیدائش سے قبل ہی بی بی راستی کو ان کے اعلیٰ مرتبہ کی اطلاع دے دی گئی تھی اور ان کے مرتبہ ”فنا فی ھُو” کے مطابق ان کا اسمِ گرامی باھُو الہاماً بتا دیا گیا۔ آپ نے ابتدائی باطنی و روحانی تربیت اپنی والدہ ماجدہ سے حاصل کی۔
جس چیز نے آپؒ کو شہرت دوام بخشی وہ #ابیات_باہو ہے۔ اس کے ہر مصرعے کے بعد ہُو آتا ہے جو ذات باری تعالیٰ  کے لیے مخصوص ہے۔ یہ خاص رنگ سخن باہو کے ساتھ ہی مخصوص ہے۔ آپ کی تمام شاعری تصوف پر مبنی ہے۔ آپ کا عرس ہر سال جمادی الثانی کی پہلی جمعرات کو گڑھ مہاراجہ میں منایا جاتا ہے۔
یہاں #احمد_پور_سیال کے پاس جھنگ کا اختتام ہوتا ہے اور یہ خانیوال کی حدود میں داخل ہوتا ہے جہاں ”ستیاں والا” کے مقام پر  راوی اِس میں آ ملتا ہے۔ ضلع خانیوال اور مظفرگڑھ کی مختصر سی حد بندی کرتا ہوا یہ ضلع ملتان کے مغرب میں آ جاتا ہے جہاں دوسری طرف ضلع مظفرگڑھ واقع ہے۔
یہاں  محمد والا کے مقام پر ایک چھوٹا ہیڈورکس بنایا گیا ہے جسے ہیڈ محمد والا کہا جاتا ہے۔ ہیڈ محمد والا کے قریب چناب کے گرد پائے جانے والے خوبصورت پرندوں اور آبی حیات کی بہتات ہے۔ یہ ایک بہترین تفریحی مقام ہے۔
مظفرگڑھ کی طرف لنگر سراں کے قریب اس میں ”تونسہ پنجند لنک کینال” شامل ہوتی ہے جو دریائے سندھ پر  تونسہ بیراج سے نکلتی ہے۔ دوسری طرف ملتان میں بوسن کا علاقہ ہے جو آموں کی پیداوار اور مویشی بانی کے لیئے مشہور ہے۔
کچھ جنوب میں ملتان کینٹ کی حدود شروع ہو جاتی ہے۔ یہیں ملتان سے مظفرگڑھ اور کوٹ ادو جانے والی لائن اس پر شیر شاہ پل سے گزرتی ہے۔  شیر شاہ پل ملتان و مظفرگڑھ کے بیچ مرکزی رابطہ پُل ہے۔

پاکستان کا پانچواں بڑا شہر  ملتان، دنیا کے قدیم ترین شہروں میں گنا جاتا ہے۔ اس کی تاریخ قبلِ مسیح سے بھی پہلے کی ہے۔ اسلامی تاریخ کی بات کی جائے تو  مولتان کو سب سے پہلے 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد محمود غزنوی نے ہندوستان کو فتح کرنے کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کیا اور اسے اپنی حکومت میں شامل کیا۔ 1175 عیسوی میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دے کر ملتان پر قبضہ کر لیا۔ غوری کے بعد بے شمار خاندانوں نے اس کو اپنا پایہ تخت بنائے رکھا،جن میں خاندانِ غلاماں ،خاندانِ خلجی، خاندانِ تغلق، خاندانِ سادات، خاندانِ لودھی اور پھر مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں تک ملتان مسلم سلطنت کا حصہ رہا۔ 1857 کی جنگ ِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ملتان پر مکمل قبضہ کر لیا جو برصغیر کی آزادی تک جاری رہا ۔

اس شہر کی شہرت کے کئی حوالے ہیں۔
صوفیاء ، مزار و درگاہیں، سوہن حلوہ، ہندوؤں کا قدیم  پرہلاد مندر، ملتانی کاشی گری، فنِ کھسہ سازی، گرد و گرما اور رسیلے آم۔
یہاں چناب کی دوسری جانب مظفرگڑھ واقع ہے جس کی بنیاد 1794 میں  نواب مظفر خان شہید نے رکھی تھی۔ دو دریاؤں کی بیچ واقع یہ ضلع پنجاب کے زرخیز ترین اضلاع میں سے ایک ہے جہاں بہترین کپاس، آم اور گندم پیدا ہوتی ہے۔
چناب اپنے اختتامی سفر پر رواں دواں ہے جہاں یہ خان پور، شجاع آباد، خان گڑھ ، فیض پور، شہرسلطان، شاہ پور اور مڈ والا سے ہوتا ہوا #بہاولپور کی حدود میں آ جاتا ہے۔

یہاں خشک  دریائے ستلج اس میں جا ملتا ہے اور کچھ ہی آگے مغرب میں مظفر گڑھ بہاولپور سرحد پرعلی پور کے قریب ” پنجند ہیڈ ورکس” آ جاتا ہے۔
پنجند ہیڈورکس پنجاب کے بڑے بیراجوں میں سے ایک ہے جہاں ایک زمانے میں پانچوں دریاؤں (روای ، چناب، ستلج، بیاس، جہلم) کے پانی کا سنگم ہوتا تھا۔
پنجند کی تاریخی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مہا بھارت کے قصے کہانیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے جو ”پنجا ندا” (پانچ ندیاں) کے حوالے سے ہے۔ پنجاب کی تاریخ کا پنجند سے گہرا تعلق ہے، مسلمانوں کی آمد سے پہلے پنجاب کا علاقہ بیاس سے غزنی تک تھا اور اسیپت سندھو (ست دریاؤں کی سرزمین) کہلاتا تھا۔
1922ء میں  ستلج ویلی پراجیکٹ کے تحت اس دریا پر ہیڈ ورکس کی تعمیر شروع ہوئی جو 1932ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا۔اس منصوبے کے تحت ہیڈ پنجند سے دو بڑی نہریں ”عباسیہ نہر” اور ”پنجند کینال” اور بعد ازاں نیو عباسیہ کینال نکالی گئیں جو ضلع بہاول پور و #رحیم_یار_خان سمیت چولستان کے وسیع علاقہ کو سیراب کرتی ہیں۔ انتظامیہ کی عدم توجہی کے باعث آبپاشی کا ایک بڑ ا ذریعہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔

ہیڈ پنجند سے نکلنے والی نہریں جو چولستان کو سیراب کرتی تھیں، ریت اور مٹی سے اٹ کر اپنی صلاحیت کھو چکی ہیں جس کی وجہ سے چولستان کا 64لاکھ ایکڑ رقبہ صحرا میں تبدیل ہوچکا ہے۔
کسی بھی ملک کی تہذیب و ثقافت اوراس کے تاریخی مقامات اس ملک کی شناخت ہوتے ہیں جنھیں آنے والی نسلیں “ثقافتی ورثے” کے طور پر سنبھال کر ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔ پنجند تاریخی اعتبار سے رومانیت کی حامل سرزمین رہی ہے جسے بابا بلھے شاہ، شاہ عبدالطیف بھٹائی اورابراہیم ذوق جیسے صوفی شعراء نے موضوع سخن بنایا۔ پانچ دریاؤں کے ملاپ کا تصور ہی انسانی ذہن کے لیے دلچسپی کا حامل ہے جس کی وجہ سے ملک بھر کے دوردراز علاقوں سے لوگ یہاں کھنچے چلے آتے ہیں۔

ہیڈ پنجند کے پاس صرف ایک کمرے کا چھوٹا سا #میوزیم موجود ہے جس کی صفائی بھی نہیں کی جاتی۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ پاکستان ٹورازم کی سرکاری ویب سائٹ پر ہیڈ پنجند جیسے تاریخی اور تکنیکی لحاظ سے اہمیت کے حامل مقام کا کوئی ذکرتک موجود نہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ یہاں سیاحت کے فروغ کے لیے کسی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے اور نہ کوئی سہولیات میسر ہیں۔
اس بیراج سے آگے چناب کو  دریائے پنجند بھی کہا جاتا ہے۔

یہاں اس کی جنوب مشرقی جانب ضلع رحیم یار خان کی حدود شروع ہو چکی ہے جہاں اس کے کنارے زرخیز میدان واقع ہیں۔ مظفر گڑھ کی جانب  سیت پور چناب پر آخری بڑا قصبہ ہے۔
یہ قدیم قصبہ  طاہر خان ناہڑ کے مقبرے کی بدولت جانا جاتا ہے۔
اس جگہ کا ذکر ہندؤوں کی مقدس کتاب رگ وید میں بھی ملتا ہے ۔ اوچ اور سیت پور کے تاریخی مقامات ایک دوسرے کے قریب واقع ہیں۔ اوچ میں واقع  رام کلی کے مقام اور سیت پور کے نام سے کچھ لوگ سیتا رام کی کہانی کو اس علاقے سے جوڑتے ہیں۔
سکندر اعظم کے یہاں حملے اور قبضے سے متعلق تذکرے بھی ملتے ہیں جو ابھی مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔

ایک اور روایت کے مطابق محمود غزنوی کے ہم عصر اور فریقِ مخالف راجہ جے پال نے گیارہویں صدی عیسوی میں اپنی دو بیٹیوں سیتا اور اوچا رانیوں کے ناموں سے یہ علاقے منسوب کئے ۔ مسلمانوں کی عملداری میں آنے کے بعد یہاں مختلف حکمران خاندان بدلتے رہے۔ اسلام خان لودھی نے یہاں اپنی خود مختار سلطنت قائم کی اور سیت پور کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ مخدوموں کے عہد میں بھی یہ علاقہ ایک علیحدہ مملکت کے طور پر قائم رہا، بہاول پور کے عباسیوں نے ھی کچھ عرصہ یہاں حکومت کی۔
1880 کی دہائی میں بنی شاہی مسجد بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔
یہاں سے آگے بل کھاتا چناب مختلف شاخوں میں منقسم ہو جاتا ہے اور بستی گھاگھڑی پہنچتا ہے۔
بستی گھاگھڑی کے قریب ہی وہ مقام ہے جہاں ہماچل و جموں کشمیر کا چندر بھاگا پنجاب کا چناب بن کہ خود کو سندھو کے سپرد کر دیتا ہے۔ سندھو ندی اسے ایک ماں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔

یوں اپنے پانیوں میں محبت گھولے، ہماچل کی وادیوں کی خوبصورتی سموئے، کشمیر کے زعفرانی ذائقے لیئے، جموں کی تاریخ سنبھالے، پنجاب کے میدانوں کی زرخیزی اوڑھے, اپنے سینے پر کئی بندوں کا بوجھ اٹھائے اور مختلف نہروں کو پانی دان کرتے چندربھاگا، سندھ میں ضم ہو جاتا ہے۔
وہ چاند تاروں کے سارے قصے
وہ ہیر رانجھے کی سب کہانی
وہ لیلی مجنوں کی چاہتوں کے
سنائیں گے جب فسانے خود کو
تو چپکے چپکے
پھر ان کے دل میں
چناب لہریں ابھار دے گا
تو سوہنی کچے گھڑے پہ بیٹھی
مسا فتوں کو سمیٹ لے گی
کہیں سے تیروں کی جھولی بھر کے
صاحباں تلملا اٹھے گی
اور تپتے صحرا میں کھوجتی سی
سسی کو پنوں تلاش لے گا
پھر اس طرح کی ہزاروں باتیں
ہزاروں قصے سنا کریں گے
اور چاند ماموں کی ٹھنڈی لو میں
گداز راتیں گزار دیں گے
اور اپنی اپنی انا کی خاطر
ہم اپنی چاہت کو مار دیں گے
پرانے قصے پرانی باتیں
بھلا چکو جب تو لوٹ آنا

Advertisements
julia rana solicitors london

٭ وہ اضلاع جہاں سے چناب گزرتا ہے ،
لاہول و سپِتی، چمبہ ، کشتواڑ، ڈوڈہ، رامبن، ریاسی، ادھم پور، جموں، سیالکوٹ، گجرات، گوجرانوالہ، منڈی بہاؤالدین، حافظ آباد، سرگودھا، چنیوٹ، جھنگ، خانیوال، مظفرگڑھ، ملتان، بہاول پور اور رحیم یار خان۔
٭ چناب سے منسوب جگہیں/چیزیں ؛
1- چناب ایکسپریس (سرگودھا تا لالہ موسیٰ)
2- چناب کلب فیصل آباد
3- چناب کالج جھنگ
4- چناب کاٹن جننرز خان پور، رحیم یار خان۔
5- چناب انڈسٹریز فیصل آباد۔
6- چناب کالونی گیلری لائل پور میوزیم۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply