مجھے یاد ہے۔(قسط نمبر 8)۔۔۔حامد یزدانی

والد گرامی جناب یزدانی جالندھری کی مہکتی یادوں کی منظرمنظرجھلکیاں

قسط نمبر 8

بڑے بھائی ساجد یزدانی نے فلموں کی تدوین کاری اور ہدایت کاری کی تربیت حاصل کرکے اب اپنی ایک فلم بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ وہ لاہور اور کراچی سے شائع ہونے والے فلمی اور ثقافتی جرائد سے بھی منسلک ہیں۔ آج لاہور میں مال روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں ان کی پذیرائی کے لیے خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔ میں اپنے بھائیوں  خالد، شاہد، راشد اور ماجد کے ساتھ ہوٹل پہنچا ہوں۔ والد صاحب بھی تشریف لے آئے ہیں۔انھیں اگلی نشستوں میں سے ایک پر بٹھایا گیا ہے۔ اس تقریب کی صدارت اداکار محمد علی کررہے ہیں جو آہستہ آہستہ فلمی دنیا سے سماجی بہبود کی سرگرمیوں کی جانب آتے جارہے ہیں۔

تقریب کا آغاز ہوتا ہے ۔ فلم اور صحافت سے منسلک بہت سے نمایاں افراد اظہارِ خیال کرتے ہیں۔والد صاحب بھی ساجد بھائی کی حوصلہ افزائی فرماتے ہیں اور دعا دیتے ہیں۔ صدرِ تقریب محمد علی تقریر کا آغاز کرتے ہیں اور کہتے ہیں:

’’فلمی دنیا بہت عجیب دنیا ہے۔ اس کے رنگ اور روشنی اکثر ہماری آنکھوں کو چندھیا دیتی ہے۔ میں نے اسی روشنیوں کی دنیا میں اپنی زندگی بسر کی ہے اور ان گنت لوگوں کو آتے جاتے دیکھا ہے۔آج کی یہ تقریب میرے لیے کئی لحاظ سے اہم ہے۔میں ساجد میاں کو اُس روز سے دیکھ رہا ہوں جب یہ پہلی بار سٹوڈیو میں داخل ہوئے تھے اور ایک معاون ہدایت کار کے طور پر جس جاں فشانی اور پیشہ ورانہ دیانت سے اور سنجیدگی سے اپنے فرائض انجام دینے میں مگن تھے اور ان کے لہجے کی متانت اور گفتگو کا انداز اور عملے کے ہر رُکن کا احترام ۔۔۔یہ سب دیکھ کر میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ یہ لڑکا یہاں فلمی صنعت میں کیسے آنکلا۔ میں اس مہذب نوجوان کو دیکھ کر حیران ہوا کرتا۔ مگر آج میری وہ حیرت ختم ہوگئی جب مجھے معلوم ہوا کہ یہ یزدانی جالندھری صاحب کا لختِ جگر ہے۔ ادب و تہذیب کے سوتے جس کے گھر کی دہلیز سے پھوٹتے ہوں وہ ایسا مہذب نہ ہوگا تو کیسا ہو گا!۔ آج میرا تجسس ختم ہوگیا اور مدت بعد یزدانی صاحب کو جو پاکستانی فلمی صنعت کے خاموش بانیان میں سے ہیں ان سے مل کر جو خوشی ہورہی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔‘‘ پھر انہوں نے اور بھی کچھ باتیں کیں۔ ساجد بھائی کو وہ ساجد میاں کہہ کر مخاطب کررہے تھے اور انھیں دعا دے رہے تھے۔ تقریر ختم کرکے وہ سیدھے والد صاحب کے پاس گئے۔ مصافحہ کیا اور بغل گیر ہونے کے اندازمیں قریب ہوکر بولے: ’’مبارک ہو، یزدانی صاحب۔ اب آپ کی خاموشی بولنے لگی ہے۔آپ نے ہماری تہذیب کو زندہ رکھنے کا حق ادا کردیا ہے۔‘‘

والد صاحب نظریں جھکائے بس دھیما دھیما مسکرا رہے ہیں۔ ان کی نشسست کے سامنے گل دان کے پہلو میں دھرے سیاہ پتھر کے ایش ٹرے کے کونے پر ٹِکا ان کا ادھ جلا سگریٹ اب بھی سُلگ رہا ہے۔

میں نے بعد میں ساجد بھائی سے کہا کہ محمد علی صاحب کی گفت گو میں ادبی چاشنی اور لہجے کی گمبھیرتا نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔کیا وہ فلم کے سیٹ سے باہر بھی یوں ہی صدا کاری اور اداکاری کیا کرتے ہیں؟

’’علی بھائی ایسے ہی ہیں‘‘ ساجد بھائی مسکراتے ہوئے بولے’’ وہ گھر میں زیبا بھابھی سے بھی اسی لہجے میں بات کرتے ہیں۔ اداکاری نہیں ۔یہ اُن کا فطری انداز ہے۔‘‘

٭٭٭

ایسی ہی ایک تقریب اب مال روڈ پر واقع ایک ریستوران میں بپا ہے۔اس میں اداکار حبیب بھی مدعو ہیں ۔والد صاحب اپنی دفتری مصروفیات کے باعث قدرے تاخیر سے ہال میں پہنچے ہیں ۔ اداکار حبیب فلمی دنیا سے متعلق دیگر مہمانوں  کو چھوڑ کر والد صاحب کی بڑھ گئے ہیں ۔اس گرم جوشی سے ان کا خیرمقدم کرتے ہیں جیسے مہمانِ خصوصی وہ ہوں اور پھر ان کے ساتھ  الگ سے ایک صوفے پر محوِ گفتگو ہوجاتے ہیں۔میں دیکھتا ہوں کہ محمد علی صاحب کے برعکس حبیب بہت دھیمی آواز میں بات کرتے ہیں اور سوال کا جواب شگفتگی سے مگر عام لوگوں کی طرح بے تکلفی سے دیتے ہیں۔

میں حیران ہوں کہ یہ ایک دوسرے کو کیسے اور کب سے جانتے ہیں۔ والد صاحب کی کم گوئی نے ہم سے ان کی زندگی کی کتنی باتیں چھپائے رکھیں۔ یہ بات بار بار دل کے دروازے پر دستک دیتی ہے کہ انھیں اپنی یادداشتیں لکھنا چاہیئں مگر ایسی باتیں سُن کر بھی وہ بس مسکرا دیتے ہیں یا پھر سگریٹ کے دھوئیں میں اُڑا دیتے ہیں اور کوئی نیا شعر سوچنے یا لکھنے میں مگن ہوجاتے ہیں ۔

٭٭٭

            پاپا، یہ غزل تو ایک نظر دیکھ لیجئے گا۔ مجھے آج شام تنقید کے لیے پیش کرنا ہے اہل ِ صریرِ خامہ کے اجلاس میں۔ یہ نوجوان لکھنے والوں کی تنظیم ہے ادھر آپ کے اخبار کے دفتر والی عمارت ہی میں اس کا اجلاس ہوتا ہے اب۔ پاکیزہ ریستوران میں۔‘‘  میں والد صاحب کو بیگ تھامے ہوئے گھر سے نکلتا ہوا دیکھ کر کہتا ہوں۔

“ابھی کچھ جلدی میں ہوں۔ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ اجلاس میں جانے سے پہلے میرے دفتر سے لیتے جائیں، تب تک غزل دیکھ لوں گا‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ میری غزل اپنے بھورے تھیلے میں رکھ لیتے ہیں۔

شام کو مجھے کوپر روڈ پہنچنے میں بہت ہی دیر ہوگئی ہے۔پھر بھی جانا تو چاہیے ۔ کم از کم حاضری تو لگ جائے اجلاس میں۔یہ سوچ کر ریستوران پہنچا ہوں۔ یہ کیا، والد صاحب ریستوران یعنی تنقیدی اجلاس سے باہر نکل کر اپنے دفتر کی طرف جارہے ہیں۔ آگے بڑھ کر سلام کرتا ہوں اور حیرت سے انھیں دیکھتا ہوں۔ مجھے دیکھ کر خوش ہیں۔ کہتے ہیں:’’ بھئی، میں سمجھا کہ آپ غزل لینا بھول گئے ہیں۔ اجلاس میں پہنچا تو دیکھا کہ آپ وہاں بھی نہ تھے۔ بہرحال،افسانہ سنا، نظم سنی اور پھر غزل کی باری آئی تو آپ کی طرف سے میں نے یہ غزل پیش کردی اور گفتگو بھی سن لی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے غزل میری طرف بڑھا دیتے ہیں۔’’ ویسے مجموعی طور پر آپ کی غزل کو خوب سراہا گیا۔ تفصیلی بات کا وقت نہیں مجھے واپس دفتر پہنچنا ہوگا۔۔۔آپ جائیں کم از کم دوستوں کے ساتھ چائے کا لطف تو اٹھائیں۔‘‘ میں دھیمے اور ندامت آمیز اندازمیں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ وہ مسکراتے ہوئے ’’سیاست‘‘ کے دفتر میں داخل ہوجاتے ہیں اور میں ’’پاکیزہ‘‘ ریستوران میں جہاں مجھے مزید معذرت پیش کرنا ہے۔۔۔ مگر وہاں تو سب نوجوان گویا خوش ہیں میری تاخیر پر شکر گزار کہ میری وجہ سے ان کے اجلاس میں یزدانی جالندھری صاحب نہ صرف شریک ہوئے بلکہ تخلیقات پر اپنی رائے بھی دی۔یہ بات ان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ کوتاہی پر سزا کے بجائے انعام پانا ایک انوکھا تجربہ ہے میرے لیے۔بہرحال دوست بھی خوش ہیں اورمیں بھی۔

٭٭٭

میرے بی ۔اے پاس کرنے کی خوشی میں سمن آباد میں واقع رفیع الدین ذکی قریشی صاحب کے ہاں بھائی یونس حسرت امرتسری صاحب نے ایک خصوصی محفلِ مشاعرہ کا انعقاد کررکھا ہے جس میں والد صاحب بھی شریک ہیں مگر انھوں نے صدارت کے لیے قائم نقوی صاحب کا اور مہمانِ خاص کے طور پر اوکاڑہ سے آئے اسلم کولسری صاحب کا نام تجویز کیا ہے۔

نظامت علی اصغر عباس کررہے ہیں۔ان کے علاوہ نعیم اظہر،انوار قمر اور عباس تابش بھی مشاعرہ میں شریک ہیں۔ والد صاحب اپنی باری آنے پر میرے لیے ایک دعائیہ نظم پیش فرماتے ہیں۔ میں جی ہی جی میں اپنے مقدر پر نازاں ہوں۔

٭٭٭

پاکستان ٹیلی وژن پر مجھجے قومی نعتیہ مشاعرہ میں نعت سنانا ہے۔ میں نعت والد صاحب کو سناتا ہوں۔ وہ شاباش دیتے ہیں۔ میں کسی ترمیم یا مشورہ کی درخواست کرتا ہوں تو مجھے فرماتے ہیں کہ مشورہ کے لیے میں نعت خالد احمد کوسناوں کیونکہ وہ کچھ مصروف ہیں۔ میں خالداحمد صاحب سے ملنے واپڈاہاوس پہنچتا ہوں اورانہیں یہ بتا کر کہ مجھے والد صاحب نے بھیجا ہے اپنی نعت سناتا ہوں۔خالد احمد اپنے مخصوص انداز میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور اس امر پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ ایک استادِ فن نے انھیں اس قابل سمجھا۔

وہ مجھے بتاتے ہیں کہ یزدانی جالندھری جیسا حرف شناس اس دور میں شاید ہی کہیں ہو۔ پھر وہ ایک مشاعرہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں انہوں نے جو غزل سنائی اس میں لفظ “تہلکہ” فعولن کے وزن پر باندھا ہوا تھا۔سب نے شعر پر داد دی۔ بعدازاں چائے کے دور  میں یزدانی صاحب نے انھیں چپکے سے بتایا یہ لفظ فاعلن کے وزن پر باندھا جاتا ہے۔ خالد صاحب کہتے ہیں اس دن کے بعد سے میرے دل میں  ان کا احترام اور بھی بڑھ گیا ہے۔  یہ سن کر مجھے اچھا محسوس ہوا ہے۔

….

حلقہ تصنیف ادب کی جانب سے میکلیگن روڈ پر واقع پرنس ریستوران میں ’’ایک شام یزدانی جالندھری کے نام‘‘بپا ہے۔ والد صاحب کے نوجوانی کے دوست اور ہم ۔مکتب میرزا ادیب صدارت فرمارہے ہیں۔ والد صاحب ان کے ساتھ والی نشست پر تشریف فرما ہیں ۔ میرے عزیز دوست ضیا الحسن (جو اب ڈاکٹر ضیا الحسن ہوچکے ہیں اور جامعہ پنجاب میں اردو کے استاد ہیں) نظامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔مضامین پیش کرنے کو آئے لکھاریوں میں (ڈاکٹر) سعادت سعید، حفیظ تائب، خالد احمد، انور سدید،جعفر بلوچ، قائم نقوی،رشید کامل،یونس حسرت امرتسری شامل ہیں جبکہ حاضرین میں اسرار زیدی، ذکی قریشی، سراج منیر، نعیم اظہر، انوار قمر، عباس تابش ،علی اصغر عباس، غضنفر علی ندیم، طارق کامران،اصغر عابد، (ڈاکٹر) امجد طفیل اور کتنے بزرگ اور نوجوان لکھنے والے شریک ہیں۔

ریستوران میں بیٹھنے کو جگہ باقی نہیں ۔ کچھ دوست کھڑے ہوئے ہیں۔ والدصاحب کے فن و شخصیت پر مضامین اور احباب کی طرف سے پزیرائی دیکھ کر جی بھیگنے لگا ہے۔ تقریب کے آخر میں والد صاحب سے ان کا کلام سنا جاتا ہے اور داد و تحسین سے کمرہ فی واقع گونجنے لگتا ہے۔ میرے دل میں عجب فرحت کی کیفیت موج زن ہے۔

۔۔۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”مجھے یاد ہے۔(قسط نمبر 8)۔۔۔حامد یزدانی

  1. تسلیمات یزدانی صاحب !
    آپ نے جستہ جستہ یادوں کو جس شگفتگی اور شائستگی کے ساتھ بستہ بستہ کیا ہے ۔ اس میری جان آپ سے ہدیہ تبریک قبول فرمایے بہت عمدہ سلسلہ ہے میں پڑھ رہا ہوں اور آپ کی یاداشت بھی ۔۔قابل ستائش ہے ۔ اللہ حافظ

Leave a Reply