چونکہ لکھاری نہیں ہوں میں اس لئے فنِ قلمکاری سے آشنائی اتنی نہیں کہ بے موسمی وفات کا دکھ لفظوں کے ذریعے صفحہ قرطاس پہ اُتار سکوں۔مگر دل ناتواں پہ اک بے موسمی وفات کے گہرے صدمے نے جو نقش ڈالا ہے اس کا بوجھ ہلکا نہ ہوا تو یہ بھی مر جائے گا۔ بے موسمی وفات جب کسی آنگن میں وقوع پذیر ہوتی ہے تو جگر چھلنی،چہرے مسخ اور دل بند ہو جاتے ہیں۔یتیمی کا وہ موسم اترتا ہے جس کے بعد بہار آنا ختم ہو جاتی ہے۔کھلتے پھول اور مہکتی کلیاں یوں ٹوٹ کے بکھرتی ہیں کہ پتا پتا زمانے کی غلام گردشوں کی نذر ہو جاتا ہے۔بچپن اور جوانی لمحوں میں صدیوں کی تھکن چہروں پہ سجائے شہر خموشاں کی مانند ویراں نظر آتے ہیں۔قلب نحیف میں ایسی اذیت پالتی مار کے بیٹھتی ہے کہ چین ایک پل نہیں آتا۔کھنکتی چوڑیاں ٹوٹتی ہیں یوں کہ تسبیح کھل کے دانوں میں بٹ جائے ۔دیواریں گھر کی خاموشیوں کے شور سے گونج اٹھتی ہیں اور ہوک دل میں اٹھتی ہے کہ قیامت ڈھا جاتی ہے۔معصوموں کی بے مراد دعائیں جو عرش بریں پہ پہنچ کر ناکام واپس لوٹ آتی ہیں تو سینے چیر کے رہ جاتے ہیں۔
ہائے دکھ۔۔۔جو بیان نہ ہو پائے!
یتیمی بے شک لاتی ہے دکھ زمانے کے ساتھ اپنے سارے۔اور معصوم پاکیزہ احساس تک خاک آلود ہو جاتے ہیں۔اس شہر آسیب میں الٹا لٹکنا پڑتا ہے کہ کچھ تو سیدھا دکھائی دے مگر۔۔۔ خوفناک اژددھے راہ چلتے بھی ڈس لیتے ہیں۔تلخیاں ملتی ہیں اس قدر کہ طفل عمر سے پہلے سیانے ہو جاتے ہیں۔زمانے کے غم جاں سلامت رکھتے ہیں مگر روح گھائل کر دیتے ہیں۔بابل کی دعاؤں کے بغیر بیٹیوں کے سروں میں چاندی تک اتر آتی ہے نہیں اترتے تو فقط رشتے اور رشتے دار۔عیدیں اور شب راتیں دبے پاؤں خاموشی سے گزر جاتی ہیں۔سالوں گھر کے دروازے دستک کی تمنا لئے دیمک کی غذا بن جاتے ہیں۔مگر دستک ندارد۔۔۔ہائے دکھ جو بیان نہ ہو پائے۔۔
جب مولوی صاحب کی گونج دار مگر آنسوؤں سے لبریز آواز سات سالہ بچے کو “بڑا بیٹا” کہہ کر پکارتی ہے تو معصوم شہزادہ لمحوں میں طویل مسافتیں طے کرکے باپ کی ذمہ داریوں سے لدی پگ کا بوجھ ناتواں کندھوں پہ اٹھانے کے لئے بھرے مجمع میں اشکبار آنکھوں کانپتی ٹانگوں اور کپکپاتے ہاتھوں سے کھڑا ہو جاتا ہے۔جسے مستقبل میں مقابلہ کرنا ہے گھپ اندھیروں اور تلاطم خیز طوفانوں سے۔ماں کا مان اور بہنوں کا بھرم بن کر ٹکرانا ہوتا ہے ہر ایسی نفرت انگیز نگاہ سے جو اس کے گھر کی طرف اٹھنے کی کوشش کرے۔ہر ایسی آواز سے جو تذلیل کرے۔ہر ایسے ہاتھ سے جو ناجائز تنگ کرے۔ہائے دکھ جو بیان نہ ہو پائے!

اللہ پاک ڈاکٹر حاجی محمد اشرف صاحب کی مغفرت فرمائے بلندی درجات عطاء کرے اور معصوم”علی” کو اس نام کی برکت سے وہ ہمت عطا ہو کہ” یتیمی ” کا احساس باپ کی “پگ” تلے دب جائے۔آمین!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں