ہاتھ، چہرے اور جسم کی مختلف حرکات کے ذریعے پیغام رسانی کے عمل کو اشارتی زبان کہا جاتا ہے۔ سوال کیا جاتا ہے کہ اشارتی زبان کی تاریخ کتنی پرانی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اشارتی زبان کی تاریخ بولنے والی زبان سے زیادہ پرانی ہے۔ انسان نے بولنے والی زبان سے پہلے اشارتی زبان کے ذریعے پیغام رسانی شروع کی۔ پتھر کے دور کا انسان شکار کے وقت اسی زبان کا استعمال کرتا تھا۔
امریکہ کے مقامی قبائل میں ہر قبیلے کی اپنی زبان ہُوا کرتی تھی۔ اس لیے یہ قبائل اشارتی زبان کے ذریعے تجارت کیا کرتے تھے۔ ان قبائل نے جب یورپ سے تجارت کا آغاز کیا تو اس وقت بھی یہ اشارتی زبان کے ذریعے ہی پیغام رسانی کیا کرتے تھے۔
زمانہ جاہلیت میں سماعت سے محروم افراد کو بے وقوف تصور کیا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے سلطنت روم میں سماعت سے محروم افراد کو وصیت کا حق حاصل نہیں تھا۔
پیڈرو پونس ڈی لیون کو اشارتی زبان کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ سولہویں صدی میں سپین سے تعلق رکھنے والے اس مونک نے محسوس کیا کہ عبادات اور مراقبے کے دوران لوگ اشاروں سے ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔ اس نے سوچا کہ جس طرح عام لوگ ایک دوسرے سے اشارتی زبان میں بات کرسکتے ہیں۔ اگر ان اشاروں کو سماعت سے محروم افراد کو سمجھا دیا جائے تو ہمارے اور سماعت سے محروم افراد کے درمیان زبان کا فاصلہ ختم ہو سکتا ہے۔
سترہویں صدی میں فرانس میں سماعت سے محروم افراد کو بولنا سکھانے کیلئے کنٹینرز میں بند کیا جاتا تھا۔ اس دور کے حکیموں کا خیال تھا کہ کنٹینرز میں بند کرنے سے انھیں بولنے اور سننے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ فرانس کے ایک پادری جون پیبلو بونیٹ کو سماعت سے محروم افراد پر ہونے والے ظلم کو دیکھ کر تکلیف ہوتی تھی۔ 1620ء میں بونیٹ نے اشارتی زبان کی پہلی کتاب شائع کی۔ جس کے ذریعے سماعت سے محروم افراد کو ایک ہاتھ کی انگلیوں کے اشاروں کے ذریعے حروف تہجی سکھانے کی کوشش کی گئی۔ بونیٹ کی کتاب میں دو اہم ترین مسائل تھے۔ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ اسے سمجھنا ہر شخص کیلئے ممکن نہ تھا، دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس کتاب میں بہت سے الفاظ سِرے سے تھے ہی نہیں۔ مثال کے طور پر “اور”، “نہیں” ،”ابھی تک” وغیرہ جیسے عام الفاظ کو شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔
فرانس ہی کے ایک اور پادری چارلس مشل لپی نے 1755ء میں سماعت سے محروم افراد کی مشکلات کو محسوس کرتے ہوئے اشارتی زبان میں گرائمر کو شامل کیا۔ لپی نے اپنی زندگی میں سماعت سے محروم افراد کیلئے اکیس سکول بنوائے۔
امریکہ سے تعلق رکھنے والے تھامس ہوپکن گلاڈیٹ 1814ء میں اپنی کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے۔ اچانک انکی نظر اپنے ہمسایوں کی بچی پر پڑی جو اشاروں میں بات کر رہی تھی۔ گلاڈیٹ نے اس بچی کو اشارتی زبان میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا۔ اپنے مقصد کے حصول کیلئے وہ فرانس چلے گئے۔ وہاں تین سال قیام کیا۔ پھر امریکہ واپس آکر سماعت سے محروم بچوں کے پہلے سکول کی بنیاد رکھی۔ گلاڈیٹ کا تعلیمی ادارہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا گیا۔ گلاڈیٹ کی یونیورسٹی کو سماعت سے محروم افراد کی دنیا کی نمبر ون یونیورسٹی تسلیم کیا جاتا ہے۔
برطانیہ کے ڈاکٹر ہیو برصغیر میں سماعت سے محروم افراد کے سکول کے قیام کی تجویز لائے۔ سکول کے قیام کیلئے اس وقت کے وائسرائے لارڈ رپن سے مذاکرات کیے گئے۔ لارڈ رپن کو تجویز بہت پسند آئی۔ اس طرح 1885 میں ممبئی میں سماعت سے محروم افراد کے پہلے سکول کی بنیاد پڑی۔
تقسیم سے پہلے برصغیر میں جو سائن لینگویچ بولی جاتی تھی اسے برٹش انڈوپاک سائن لینگویج کہا جاتا ہے۔ اشاروں کی یہ زبان بی ایس ایل (برٹش سائن لینگویج سے ملتی جلتی ہے۔ پاکستان میں اشاروں کی جو زبان استعمال کی جاتی ہے اسے پی ایس ایل کہا جاتا ہے۔ پی ایس ایل دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی زبانوں کی طرح ہمہ گیر تو نہیں لیکن اس پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔
دو سال قبل میں نے لاہور سے تعلق رکھنے والی خصوصی دوست شگفتہ خانم کا انٹرویو کیا تھا۔ شگفتہ سماعت سے محروم افراد کی تعلیم پر پی-ایچ-ڈی کر رہی ہیں۔ اسکے علاوہ تین ایم-اے بھی کیئے ہیں۔ سپیشل ایجوکیشن میں سترہویں گریڈ کی ٹیچر ہیں۔
چند روز قبل میری شگفتہ سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ سماعت سے محروم بچوں کے والدین اکثر گلا کرتے ہیں کہ انکے بچے قرآن پاک کی تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔
شگفتہ نے مختلف اسلامی ممالک کے اشارتی زبان کے ایکسپرٹس سے رابطہ شروع کیا۔ انڈونیشیا اور ملائیشیاء کے کچھ مدارس سے بات کی لیکن انھوں نے موثر جواب نہ دیا۔ پھر شگفتہ نے مصر کے ایک مدرسے سے رابطہ کیا۔ جہاں بچوں کو اشارتی زبان میں قرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ مدرسے سے مدد کی درخواست کی لیکن انھوں نے کورس دینے سے انکار کر دیا۔ مدرسے کو ڈر تھا کہ کہیں کوئی غیر مسلم کورس لے کر اپنے مذموم مقاصد نہ حاصل کر لے۔ شگفتہ نے دبئی میں اپنے بابا سے بات کی۔ ان سے پوچھا کہ آپ کا کوئی جاننے والا مصر میں ہے تو انھوں نے کہا کہ بہت سارے لوگ ہیں۔ پھر شگفتہ کے بابا نے بھی کوششیں شروع کر دیں۔
چند روز بعد مدرسے نے خود شگفتہ سے رابطہ کیا اور پورا کورس شگفتہ کے حوالے کر دیا۔ شگفتہ اور انکی بہن نے پہلے محلے کے چند بچوں کو اشارتی زبان میں قرآن پاک پڑھایا۔ پھر شگفتہ اس کورس کو اپنے سکول لے گئی۔ ڈھائی سو بچے اشارتی زبان میں قرآن کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
شگفتہ نے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر این-جی-او بھی بنا رکھی ہے۔ یہ این-جی-او فنڈ ریزنگ کیلئے تھیٹر بھی کرتی ہے۔ اس تھیٹر کی خوبی یہ ہے کہ اسے پرفارم کرنے والے سب لوگ کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ تھیٹر کی سٹوری شگفتہ لکھتی ہیں، اداکاری بھی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ نعت خوانی کا شوق بھی رکھتی ہیں۔

وطن عزیز کے تمام سماعت سے محروم بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینا شگفتہ کا مشن ہے۔ اسکے لیئے باقاعدہ چینل اور ایپ پر بھی کام جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں