پچھلے مضمون میں ایک لاطینی اصطلاح Persona کا ذکر ہوا تو ، بات چل نکلی ہے ، کے موافق اس لفظ کی نفسیاتی تعبیر پر بھی گفتگو ہونی چاہئے جس کا ذکر دنیائے نفسیات کے سب سے بڑے نفسیات دان ،میری نظر میں، کارل ژونگ نے کیا ہے۔
ہم میں سے ہر ذات کا ایک تاریک پہلو موجود ہے، جو دوسروں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور عموما ہم اپنے اس تاریک پہلو سے انکاری نظر آتے ہیں، لیکن ہمارے انکار سے یہ چیزیں غائب نہیں ہو جاتیں بلکہ ہمارے لاشعور میں جمع ہوتی رہتی ہیں جہاں وہ ایک پرچھائی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں ۔
پرچھائی کے بننے کیلئے ضروری ہے آبجیکٹ روشنی کا راستہ روکے، نتیجے میں مخالف سمت میں پرچھائی نمودار ہوگی، ژونگ کی تعریف کے مطابق یہ آبجیکٹ جو ہماری نفسیاتی پرچھائی کو جنم دیتا ہے ،ہماری شخصیت کا وہ سماجی پہلو ہے جسے فرد دوسروں کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا ، یہ دراصل فرد اور سماج کے درمیان ایک ماسک ہے ، اسی ماسک کو Persona کا نام دیا گیا، یہ پرسونا جہاں ایک طرف ہمارے پسندیدہ خصائل کو دنیا پر آشکار کرنے میں مدد دیتا ہے، وہیں ناپسندیدہ پہلوؤں کو چھپانے کا کام بھی دیتا ہے ۔
شخصی تشکیل کی ابتداء چونکہ اوائل عمر میں ہی ہوچکی ہوتی ہے، اس لئے فرد اپنے بچپنے سے یہ جاننا شروع کرتا ہے کہ اسکے کردار و اطوار کے کونسے پہلوؤں کو عزیز و اقارب اور معاشرہ اچھی نظر سے دیکھتے ہیں اور کونسے پہلوؤں کو رد کیا جاتا ہے، ردشدہ پہلوؤں کو فرد Persona یعنی ماسک سے چھپانا شروع کر دیتا ہے، فریب خوردگی کے احساس سے بچنے کیلئے فرد صرف منظور شدہ پہلوؤں کو اپنی پوری شخصیت ماننا شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ ردشدہ پہلوؤں کو لاشعور میں دفن کیا جاتا ہے جہاں وہ پرچھائی کی صورت پروان چڑھتے ہیں۔
پرچھائی انسانی شخصیت کا وہ پست حصہ ہے، نفسیاتی عناصر کا مجموعہ، جو شعوری رد کہ وجہ سے آشکار ہونے سے محروم رہتا ہے، نتیجے میں یہ تمام ردشدہ عناصر ایک خود مختار مگر منقسم شخصیت کو جنم دیتے ہیں، یہ خودمختار منقسم شخصیت انسان کے لاشعور میں اس کی ظاہری شخصیت کا بالکل متضاد عکس پیش کرتی ہے۔ ہم دوسروں میں وہی خامیاں ڈھونڈھنے اور ان پر تنقید کرنا پسند کرتے ہیں جو ، بالقوہ، ہماری شخصیت میں موجود ہوتی ہیں لیکن اسے سمجھنے اور اس کے اقرار کی جرآت اور شعور ہم میں نہیں ہوتا۔ کبھی اگر لاشعور میں طوفان اٹھے تو ہماری شعوری شخصیت پرچھائی کی منہ زور لہروں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے اور پرچھائی کی یہ لہریں تباہ کن نتائج سامنے لاتی ہیںَ ، ذہنی دباؤ ، اضطراب ،معدے و سر کا درد، چیخ و پکار ، بلند فشار خون وغیرہ اس کی عمومی علامات ہیں ۔
اس سمت سب سے پہلا اور اہم ترین قدم اس بات کا اقرار کرنا اور شعورا قبول کرنا ہے کہ وہ جسے میں اپنی مکمل شخصیت مانتا آیا ہوں، وہ ہرگز مکمل نہیں بلکہ جزوی ہے، میری شخصیت کے کتنے ہی پہلو اور عناصر ایسے ہیں جنہیں میں نہ صرف سماج، بلکہ خود سے بھی چھپاتا آیا ہوں ، واقعہ یہ ہے کہ فرد کیلئے اپنے لاشعور میں جھانکنا اور ردشدہ پہلوؤں کو پہچاننا قدرے مشکل ہو سکتا ہے، اس کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے گرد موجود لوگوں کے کردار کو پرکھنے کی کوشش کیجئے ، احباب کے مختلف کرداروں کے وہ مثبت یا منفی پہلو جو آپ کے جذبات میں ہلچل مچاتے ہیں یا مچا سکتے ہیں تو جان جائیے کہ آپ کی شخصیت میں یہ مثبت یا منفی پہلو موجود ہے، چاہے آپ لاکھ انکار کرتے رہیں۔ اگر ہم کسی دوست کے ایک پہلو کو رد کر رہے ہیں یا ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو زیادہ امکانات یہی ہیں کہ کردار کا یہی پہلو ہمارے بچپنے میں ہمارے والدین، بہن بھائی، دوست، بزرگ یا استاد نے رد کیا تھا اور ہم اسے پرچھائی کی صورت لاشعور میں پھینک کر مطمئن ہو بیٹھے ہیں، اگرچہ پرچھائی کے کچھ حصے انفرادی بھی ہو سکتے ہیں جو صرف آپ ہی کا خاصہ ہوں لیکن ان حصوں کی بھاری اکثریت اجتماعی ہے کیونکہ “مومن” اپنے بھائیوں سے اچھائی میں مختلف لیکن برائی میں مشابہت رکھتا ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں