• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ترکیہ : باحجاب خواتین کی داستانِ استقامت(حصّہ اوّل)/ضیاء چترالی

ترکیہ : باحجاب خواتین کی داستانِ استقامت(حصّہ اوّل)/ضیاء چترالی

ترکیہ  کا حالیہ پارلیمانی و صدارتی الیکشن کئی لحاظ سے تاریخ ساز رہا۔ اسلام پسند صدر رجب طیب اردگان کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈا کیا گیا، اس میں عورت کارڈ سرفہرست ہے کہ یہ ’’مولوی‘‘ حقوق نسواں کے غاصب ہیں۔ مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ تاریخ میں پہلی بار اردگان تیسری مدت کیلئے صدر منتخب ہوگئے اور ترک تاریخ میں پہلی بار ان کی جماعت “اے کے پارٹی” کی 50 خواتین نے الیکشن جیت لیا اور قومی اسمبلی کی ممبر بن گئیں۔

دلچسپ بات یہ کہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ باحجاب بھی ہیں۔ ان میں ترک تاریخ کی سب سے کم عمر رُکن پارلیمان زہراء نور ایدمیر بھی ہیں۔ جن کی عمر صرف 25 سال ہے۔ جو دارالحکومت انقرہ سے جیت گئیں۔ زہراء پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں۔ اس کے ساتھ محترمہ رمیساء قدق بھی ہیں۔ جن کی عمر 27 برس ہے اور وہ استنبول سے جیت کر رPکن پارلیمان بن گئیں۔

600 نشستوں میں سے اردگان کی اے کے پارٹی 267 نشستیں جیت گئی۔ ان میں سے 50 خواتین کے پاس ہیں۔ اس سے یہ امید بلکہ یقین ہوگیا ہے کہ اب ترکیہ  میں حجاب کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ حجاب کے حصول کیلئے ترک خواتین کی داستانِ استقامت نہایت ایمان افروز ہے۔ آیئے اس پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔

’’حقِ اظہارِ حیا‘‘ کے حصول کیلئے ترکوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ ترک تاریخ کے مقبول ترین وزیر اعظم عدنان میندریس اپنے وزرائے خارجہ وخزانہ کے ہمراہ پھانسی چڑھے۔ شہید عدنان میندریس مسلسل تین بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ 1954 کے انتخابات میں ان کی پارٹی نے 541 کے ایوان میں 502 نشستیں جیتیں۔ میندریس پر جو فرد جرم عائد ہوئی اس کے مطابق دینی مدارس کی بحالی، بہت سی بند مساجد کا اجراء، عربی میں اذان اور خاتون پولیس افسران کو سر ڈھانکنے کی اجازت، یہ سب امور ریاست کے خلاف گھناؤنا جرم اور سیکولر ازم سے صریح انحراف قرار پائے۔ ’’استغاثہ‘‘ نے ثبوت کے طور پر پارلیمان میں قائد حزب اختلاف عصمت انونو اور وزیر اعظم کے درمیان مکالمہ پیش کیا۔ ملکی حالات پر گفتگو کرتے ہوئے عدنان میندریس نے ایک معصوم سا سوال کیا کہ اگر خواتین بلا کسی جبر، اپنی مرضی و رضا سے سر ڈھانپ  کر گھر سے باہر آئیں تو اس سے سیکولر اقدار کیسے متاثر ہوں گی۔؟

اس پر حزب اختلاف کے کسی رکن نے کہا کہ حجاب ایک مذہبی علامت ہے، جس کی عوامی مقامات پر نمائش و اظہار قانون کے منافی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا ’’پھر تو پارلیمان کو خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی کرنی چاہیے۔‘‘

اس پر قائد حزب اختلاف نے پوچھا کہ کیا آپ پارلیمان کے ذریعے شریعت لانا چاہتے ہیں؟

تو میندریس نے کہا ’’یہی جمہوریت ہے اور اگر پارلیمان چاہے تو ملک میں شریعت نافذ ہو سکتی ہے۔‘‘

اس بات پر وزیر خارجہ فطین رستم نے پُر امید انداز میں کہا کہ انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا، جبکہ وزیر خزانہ حسن ارسلان بے اختیار اللہ اکبر کہہ اٹھے۔

یہ مقدمہ کتنا شفاف تھا، اس کا اندازہ چیف پراسیکیوٹر محمد فیاض کے بیان سے ہوتا ہے، جو انہوں نے پریس کو جاری کیا۔ محمد فیاض کے مطابق صدر جمال گرسل نے میندریس اور ان کے ساتھیوں کے پروانہ موت (ڈیتھ وارنٹ) پر دستخط کرنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ مقدمے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ اس عبرتناک انجام سے بھی اسلام پسندوں نے کوئی ’’سبق‘‘ نہ سیکھا اور ’’حق اظہارِ حیا‘‘ کی جدوجہد جاری رہی۔

جون 1996 میں پروفیسر نجم الدین اربکان المعروف ’’خواجہ صاحب‘‘ سیکولر جماعت راہِ مستقیم پارٹی (DYP)سے شراکتِ اقتدار کا معاہدہ کرکے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے سرکاری دفاتر میں حجاب پر پابندی ہٹانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ حجاب پر پابندی کے خاتمے کی راہ مستقیم کی سربراہ اور نائب وزیر اعظم تانسو چلر بھی حامی تھیں۔ لیکن اس سے پہلے کہ پارلیمان میں کوئی قراراداد آتی، ترک فوج نے خواجہ صاحب کے دینی رجحان پر تشویش کا اظہار شروع کر دیا اور صرف ایک سال بعد نہ صرف ان کی حکومت برطرف کر دی گئی، بلکہ ان کی جماعت پر بھی پابندی لگا دی گئی۔

پھانسی برداشت کرنے والوں کیلئے اقتدار سے معذولی اور جماعت پر پابندی کیا چیز تھی۔ رفاح پارٹی پر پابندی لگتے ہی اسلام پسند پروفیسر صاحب کی قیادت میں فضیلت پارٹی (FP)کے نام سے منظم ہوگئے اور 1999 کے انتخابات میں فضیلت پارٹی تیسری بڑی جماعت بن کر اُبھری۔ مزید یہ کہ فضیلت کے ٹکٹ پر استنبول سے مروہ صفا قاوفجی Merve Safa Kavakcı نامی خاتون رکن پارلیمان منتخب ہوگئیں۔ یہ جدید ترکی کی تاریخ میں پہلی خاتون تھی، جسے پارلیمنٹ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ اسے حلف اٹھانے کی اجازت نہیں ملی۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس نے حجاب پہن رکھا تھا۔ گویا کمال اتاترک کے سیکولر نظام سے بغاوت کا عَلم سرعام بلند کر رکھا تھا۔ یعنی اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں؟۔۔۔۔بہت بڑا سیاسی ایشو بن گیا۔ سیکولر عناصر اس خاتون کے خلاف ڈٹ گئے۔ ڈاکٹر مروہ کو ایک ماہ کی مہلت دی گئی کہ وہ حجاب اتار کر آئیں اور حلف اٹھالیں۔ مروہ نے اسکارف اتارنے سے انکار کر دیا، جس پر پارلیمان سے ان کی رکنیت ختم کرنے کے ساتھ وزارت انصاف نے فضیلت پارٹی کو بھی کالعدم کر دیا۔ خاتون کو نہ صرف پارلیمنٹ سے نکالا، بلکہ اس کی ترک شہریت بھی ختم کر دی گئی۔ یہ دربدر ہو کر ملک میں گھومتی اور پولیس اور خفیہ ایجنسیوں سے چھپتی پھرتی رہی، مگر کوئی ٹھکانہ نہ ملا تو بالآخر ملک ہی چھوڑ دیا اور واپس امریکہ چلی گئی۔

مروہ قرآن کی حافظہ ہونے کے ساتھ امریکہ کی مؤقر جامعہ ہارورڈ سے پی ایچ ڈی اور نامور کمپیوٹر سائنسدان ہیں۔ امریکہ واپس آکر  انہوں نے دنیا کی نامور یونیورسٹی، جامعہ Howard اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ امریکی ٹیلی ویژن کو ایک انٹرویو میں مروہ نے بہت ہی مغموم لہجے میں کہا کہ ان کے حجاب سے امریکی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں اور وہ اسکارف کے ساتھ سارا کام کرتی ہیں، لیکن میرے ملک کے امن کو دو میٹر کے اس کپٖڑے سے سخت خطرہ لاحق ہے۔ ’’ہائے اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب۔‘‘

خدا کا کرنا کہ فضیلت پارٹی کے کالعدم ہونے کے دو سال بعد طیب رجب اردگان کی قیادت میں اسلام پسند پھر برسر اقتدار آگئے۔ اردگان فٹبال کے کھلاڑی اور اس وقت 48 سال کے جوانِ رعنا تھے۔ جس زمانے میں استنبول کے رئیس شہر (Mayor) تھے، انہیں ایک رزمیہ اسلامی نظم پڑھنے کے ’’الزام‘‘ میں سزا بھی ہو چکی تھی۔ دلچسپ بات کہ جس روز نظم پڑھنے کے جرم میں اردگان جیل بھیجے جا رہے تھے اسی دن انہوں نے ’’نغمات یوں نہیں مرتے‘‘ کے عنوان سے اپنی آواز میں 4 معروف شعرا کے 8 انقلابی گیتوں پر مشتمل ایک پورا البم جاری کر دیا۔ صرف ایک ہفتے میں اس البم کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں، اردگان نے ساری کی ساری آمدنی ترک شہدا کے پسماندگان کیلئے وقف کر دی۔ اردگان کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد سرکاری تقریبات میں خاتونِ اول اور وزرا کی بیگمات کی عدم شرکت پر اعتراض ہوا، لیکن وزیر اعظم کی اہلیہ امینہ اردگان نے صاف صاف کہہ دیا کہ میں حجاب کے بغیر گھر سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔

جولائی 2016 میں مصر، متحدہ عرب امارات اور امریکہ کی مدد سے ترک افواج کے سیکولر عناصر نے اردگان حکومت کے خلاف بغاوت کی۔ بمباری اور فائرنگ کے باوجود ترک عوام نے مسلح باغی فوجیوں کی مشکیں کس دیں اور یہ نام نہاد انقلاب سختی سے کچل دیا گیا۔ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بغاوت کو عدلیہ اور سول افسران کے ایک حصے کی حمایت بھی حاصل تھی۔ غیر آئینی سرگرمیوں کے ذمہ داروں کو سزائیں دینے کے ساتھ ملازمتوں سے برطرف کر دیا گیا اور انتظامیہ سیکولر انتہا پسندوں سے بڑی حد تک پاک ہوگئی۔ اسی دوران حکومت نے بیرون ملک تعینات سفارتی عملے کیلئے حجاب کی پابندی ختم کر دی اور 2017 میں مروہ صفا قاوفجی پورے وقار کے ساتھ ملائیشیا میں ترکیہ کی سفیر مقرر کر دی گئیں اور ان کی باحجاب بیٹی فاطمہ قاوفجی ترک صدر کی ترجمان ہیں۔ تصاویر میں اکثر ترک صدر رجب طیب اردگان کے ساتھ کھڑی ایک باحجاب لڑکی نظر آتی ہے، یہ اسی عظیم خاتون (مروہ صفاء قاوقجی) کی بیٹی ہے۔ اس لڑکی کا نام فاطمہ جولہان ابو شنب ہے۔ یہ صدر اردگان کی خاص مترجم ہیں اور ان کی والدہ محترمہ مروہ قاوقجی اب بھی ملائیشیا میں ترکیہ کی سفیر۔ یہ باحجاب لڑکی عالمی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات سمیت ہر موقع پر ترک صدر کے ساتھ نظر آتی ہے۔

زندہ قوم کے لیڈر اردگان عالمی فورمز پر اپنی قومی زبان ترکی میں گفتگو کرتے ہیں، پھر یہ مترجم ان کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان کی والدہ مروہ قاوقجی ہی وہ پہلی خاتون  ہیں ، جنہوں نے جدید ترکیہ  میں سرکاری عمارت کے اندر سرعام حجاب پہننے کی گویا بنیاد رکھی۔ ان کی داستان بڑی ایمان افروز ہے۔ یہ خاتون عزیمت اور صبر و ثبات کی پیکر، اپنے مؤقف پر چٹان کی طرح ڈٹنے والی صنف آہن اور پھر پورے معاشرے کی سوچ کا دھارا بدلنے والی اولو العزم شخصیت۔ مروہ 30 اكتوبر 1968ء کو انقرہ میں پیدا ہوئیں۔ ترکی میں تعلیم مکمل کرکے اعلیٰ ڈگری کے حصول کے لئے امریکہ  چلی گئی اور جامعہ ٹیکساس میں کمپیوٹر انجینئرنگ میں داخلہ لیا۔ ان کے والد بھی امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مروہ بھی یونیورسٹی میں تدریس کرنے لگیں۔ مروہ کالج کے زمانے سے ہی استاذ نجم الدین اربکانؒ کی فکر سے متاثر ہوگئی تھیں۔ اب اربکان صاحب اپنی سیاسی پارٹی ’’جماعت الرفاہ‘‘ کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ اس لئے مروہ نے وطن واپس آکر اس جماعت میں خدمات سر انجام دینے کا ارادہ کیا۔ مروہ کے خاندان کا اسلام سے رشتہ بہت گہرا تھا۔ ان کے والد کو بھی 1986ء میں دینی رجحان کے سبب ملک چھوڑ کر امریکہ  جانا پڑا تھا۔ بہرحال ترکی آکر مروہ نے اربکان کی نئی جماعت فضیلت پارٹی کے ساتھ وابستہ ہوگئیں۔ جماعت الرفاہ پر پابندی عائد ہونے کے بعد اربکان نے اس نئی جماعت کی بنیاد ڈالی تھی۔ انہوں نے 1999ء کے انتخابات میں استنبول کے حلقے کا ٹکٹ مروہ کو دے دیا۔ مروہ چونکہ سائنسدان تھیں اور تقریر کی صلاحیت سے مالامال۔ ووٹرز کے دل جیتنے میں کامیاب ہوئیں اور حلقے میں بھاری اکثریت سے جیت گئیں۔ یہ ترکی کی تاریخ میں رکن پارلیمان منتخب ہونے والی پہلی باحجاب خاتون تھیں۔ ان کے انتخاب سے سیکولر ازم کی بوسیدہ عمارت کے ستون ہل گئے اور ملک میں ایک بھونچال آگیا کہ باحجاب خاتون ترکی کی رکن پارلیمان؟

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply