جہلم سے فواد چوہدری بھی ہی ٹی آئی چھوڑ گئے اور اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ میں 9 مئی کے واقعات کی مذمت کر چکا ہوں۔میں نے سیاست سے کچھ وقت کے لئے بریک لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور عمران خان سے اپنی راہیں جدا کر لی ہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ فواد چوہدری نے کسی سیاسی جماعت سے راہیں جدا کی ہوں، اس سے قبل وہ پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان کے طور پر بھی سیاست کے میدان میں سرگرم رہ چکے ہیں لیکن جو شہرت اور عروج اُنہیں پی ٹی آئی میں ملا وہ ماضی میں اُنہیں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے پر نہیں ملا تھا۔فواد چوہدری بلا کے ذہین اور اچھے مقرر ہونے کے باعث پارٹی قیادت کے قریب رہنے کا ہنر جانتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف پرویز مشرف بلکہ پیپلزپارٹی کے دو وزرائے اعظم کے علاوہ عمران خان کا دل جیتنے میں بھی کامیاب رہے اور پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اُنہیں کھل کر کھیلنے کا موقع ملا۔
یہ تو خیر فواد چوہدری کا اپنا مؤقف ہے کہ وہ اتنا کھل کر کھیلنے اور اتنا زیادہ موقع لینے کے باوجود بھی کیونکر سیاست سے بریک لے رہے ہیں اور عمران خاں سے اپنی راہیں جدا کر رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی میں اپنے قیام کے دوران جہاں فواد چوہدری نے اپنی ذہانت، شعلہ بیانی اور سیاسی ملاکھڑوں میں مہارت کی وجہ سے عمران خاں سے اپنی قربتیں بڑھائیں، وہیں ان کے پارٹی میں کئی لوگوں سے پھڈے بھی چلتے رہے ہیں۔ان پھڈوں میں خصوصاََ تین پھڈے ایسے ہیں جو کئی سالوں تک فواد چوہدری کے ساتھ ساتھ چلے۔
1:-۔ حامد خاں – سینئر وکیل راہنما جن کی حمایت کے بغیر وکلاء برادری کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں رہا۔پہلے حامد خاں گروپ کا مقابلہ مرحومہ عاصمہ جہانگیر گروپ سے ہوا کرتا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد وکیلوں میں ایک ہی سپر طاقت ہے اور وہ ہے حامد خاں گروپ ۔حامد خاں سنہ 1996ء میں عمران خان کی ذاتی دعوت پر پی ٹی آئی کی تشکیل کے عمل کا حصّہ بنے اور خود اپنے ہاتھوں سے پارٹی کا پہلا آئین اور مقاصد بھی لکھے لیکن انہوں نے بانی رکن ہونے کے باوجود کبھی بھی عمران خان سے ذاتی تعلق بنانے کی کوشش نہیں کی۔ حامد خان کے مطابق ان کا عمران خان سے ایک اختلاف یہ بھی رہتا تھا کہ ’وہ مشاورت کے لئے پارٹی رہنماؤں کو اپنے ذاتی گھر نہ بلایا کریں بلکہ اس مقصد کے لئے پارٹی سیکریٹریٹ کا انتخاب کیا کریں کیونکہ ذاتی گھر تو ذاتی دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے ہوتا ہے۔ اس طرح کے چھوٹے موٹے اختلافات کے باوجود بھی وہ ہمیشہ عمران خاں کو قانونی مشورے دینے اور ان کی لیگل سپورٹ بننے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ البتہ حامد خاں کئی سالوں سے فواد چوہدری سے شدید نفرت کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سنہ 2018ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں انہوں نے فواد چوہدری کے بارے میں لکھا تھا کہ فواد چوہدری کے چچا جب چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ تھے تو وہ لوگوں سے ’پیسے لے کر فیصلے کراتے تھے۔ فواد چوہدری کو عمران خاں سے گلہ ہے کہ وہ حامد خاں کی ان (عمران خاں) پر تنقید کے باوجود بھی ان کے لئے سافٹ کارنر رکھتے تھے۔ فواد چوہدری نے کبھی بھی حامد خاں کی عمران خاں سے قربت (قانونی معاملات) کو پسند نہیں کیا اور وہ مین سٹریم میڈیا میں بیان بھی دے چکے ہیں کہ توہین عدالت کیس میں عمران خان صاحب کو کوئی بولنے ہی نہیں دیتا، کبھی حامد خان گھگو گھوڑا بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو کبھی کوئی اور وکیل منہ اٹھا کر آ جاتا ہے، جبکہ توہین عدالت کا ایسا معاملہ جج اور ملزم کے درمیان ہوتا ہے۔
اسی طرح جب عمران خاں کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعتوں کے دوران ایک پیشی پر عدالت نے حامد خان سے فواد چوہدری کے عدالت سے متعلق بیانات کا تذکرہ کیا تو انہوں کہا کہ ان کی جماعت فواد چوہدری کے ان بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے اور فواد چوہدری سے اچھے کی امید بھی نہیں رکھنی چاہیے۔حامد خان کا یہ بیان سُن کر عمران خان کمرہ عدالت میں مسکراتے رہے تھے۔ اس بات کو بھی فواد چوہدری نے بہت زیادہ محسوس کیا کہ ان کا سیاسی مخالف سپریم کورٹ میں دلائل دیتے وقت ان کی (فواد چوہدری کی) توہین کرتا رہا اور عمران خاں اسے انجوائے کرتے رہے۔
2:-۔ چوہدری پرویز الٰہی — فواد چوہدری دراصل پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے امیدوار رہے ہیں لیکن پی ٹی آئی چیئرمین عمران خاں کی طرف سے فواد چوہدری کی اس خواہش کو پورا کرنے کی طرف کبھی کوئی اشارہ بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ پی ٹی آئی کی مرکزی صدارت کے لئے عمران خاں نے چوہدری پرویز الٰہی کو منتخب کیا اور ساتھ ہی ساتھ عثمان بزدار کو ہٹا کر ان کی جگہ چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ یہ صورتحال بھی فواد چوہدری کے لئے سخت نا پسندیدہ تھی۔اسی لئے جب چوہدری پرویز الٰہی کی ق لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اور انہیں عمران خاں کی طرف سے مرکزی صدر بننے کی میڈیا بریفنگ فواد چوہدری کے ذمہ لگی تو فواد چوہدری نے ان کی پی ٹی آئی میں شمولیت کو بطور مرکزی صدر نہیں بیان کیا بلکہ یہ کہا کہ چوہدری پرویز الٰہی بھی پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے ہیں اور ان کے عہدہ کے بارے میں ابھی کچھ مراحل طے ہونے باقی ہیں۔ اس موقع پر چوہدری پرویز الٰہی نے فواد چوہدری کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ (صدر) بنانا ہے آپ کو۔۔۔ خان صاحب نے کہہ دیا ہے۔ خیال رہے کہ اس واقعہ سے کچھ ہفتے پہلے ہی فواد چوہدی کی گرفتاری پر تبصرہ کرتے ہوئے پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ ’اگر یہ (گالی) پہلے پکڑا جاتا تو ہمارا کام ٹھیک ہو جانا تھا۔ پرویز الٰہی کی عمران خاں سے بڑھی ہوئی قربت نے پرویز الٰہی اور فواد چوہدری کے درمیان کشیدگی کو کافی ہوا دئیے رکھی جس کا نتیجہ اب ان کی پی ٹی آئی سے علیحدگی کی صورت میں نکلا ہے۔
3:-۔ فیاض الحسن چوہان ۔۔ اگرچہ اب تو خود فیاض الحسن چوہان بھی پی ٹی آئی چھوڑ چکے ہیں جس کی وجہ وہ 9 مئی کے واقعات کو قرار دیتے ہیں لیکن کئی سالوں سے وہ فواد چوہدری کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔جب فواد چوہدری نے اسد عمر اور جہانگیر ترین کے درمیان اختلافات کا ذکر میڈیا میں کیا تو فیاض الحسن چوہان نے بھی میڈیا میں ان کے (فواد چوہدری کے) خوب لتے لئے۔ فیاض الحسن چوہان نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ فواد چوہدری اختلاف اور غیر ذمہ دارانہ رویہ کا مظاہرہ کرتے ہیں، یہ کسی جگہ ٹک کر نہیں بیٹھ سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ جن لیڈرز (اسد عمر اور جہانگیر ترین) کا انہوں نے نام لیا وہ عمران خان کی قیادت میں متحد اور متفق ہیں، جبکہ یہ (فواد چوہدری) اتنے سقراط اور بقراط اور ارسطو بنتے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان نے فواہد چوہدری سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ اگر عمران خان ٹیم بنانے میں ناکام ہے تو آپ (فواد چوہدری) استعفیٰ دے دیں اور میں (فیاض الحسن چوہان) عمران خاں کے علاوہ کسی لیڈرشپ کو کوئی نہیں مانتا۔
اس کے علاوہ بھی فیاض الحسن چوہان نے فواد چوہدری پر الزام لگایا تھا کہ فواد چوہدری لائیو شو میں بیٹھ کر شراب پیتے ہیں اور پھر انہیں اتنا بھی نہیں پتہ چلتا کہ میڈیا کے سامنے جب بیٹھنا ہے تو کس طرح بات کرنی ہے۔ چوہان نے یہ بھی کہا تھا کہ آدھی دنیا شراب پیتی ہے، اگر ہم مسلمان معاشرے کی بات بھی نہ کریں تو غیر ملکی میڈیا میں بھی بیٹھنے کے کچھ آداب ہوتے ہیں اور فواد چوہدری ہوش سے بیگانہ ہو کر کبھی علمائے دین کے خلاف بولنا شروع کر دیتے ہیں تو کبھی پارٹی کے خلاف۔ فواد چوہدری نے عمران خاں کو کہہ کر فیاض الحسن چوہان کو 7 دفعہ وزارت اور پارٹی سے نکلوایا لیکن پھر بھی چوہان واپس آجاتے تھے البتہ اس دفعہ وہ چونکہ خود پارٹی سے گئے ہیں تو ان کی واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔
فواد چوہدری کی پی ٹی آئی کو چھوڑ دینے والی پریس کانفرنس خاصی حیران کن تھی۔ ان کا شمار پی ٹی آئی کے اُن رہنماؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے گزشتہ برس پی ٹی آئی کے اقتدار سے نکلنے کے بعد مزاحمتی سیاست پر زور دیا۔گزشتہ برس جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا تو اس کا مشورہ دینے والوں میں بھی فواد چوہدری شامل تھے۔ مزاحمتی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے ذریعہ پی ٹی آئی عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوئی لیکن اس کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگرچہ فواد چوہدری موجودہ صورتحال میں عمران خان کے اہم مشیر تھے لیکن عمران خان جب کسی فیصلے کی ٹھان لیتے تھے تو وہ کسی کی نہیں سنتے تھے اور ایسا نہیں ہو سکتا تھا کہ فواد چوہدری کا ہر کہا ہوا عمران خاں مان لیتے ہوں۔
فواد چوہدری پاکستان کے ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے چچا چوہدری الطاف حسین پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں جب کہ ایک چچا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فواد چوہدری کا سیاسی پس منظر کافی طویل ہے۔ لہذٰا اُن کی سیاست میں واپسی ہو سکتی ہے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے والے عناصر کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر ضرور اکٹھے ہوں گے اور ان میں فواد چوہدری بھی شامل ہوں گے۔ سیاست دانوں کے پاس ہمیشہ مواقع موجود رہتے ہیں۔ آپ انہیں ایک جگہ سے ماریں گے تو وہ کسی دوسری طرف سے سامنے آ جائیں گے۔ اس لئے یہ عین ممکن ہے کہ تحریکِ انصاف کے اندر سے کوئی نئی پارٹی وجود میں آ جائے تو فواد چوہدری اس کا حصّہ بن جائیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں