چند روز بعد میں اور مظہر آڑو خریدنے گئے تھے۔ آڑو بیچنے والی مقامی بڑھیا کے پاس ہری مرچیں بھی تھیں۔ تفریح گاہ کے مطعم میں کھانا چونکہ عام طور پر روکھا پھیکا ہوتا تھا اس لیے میں نے کھانے کو “مرچیلا” کرنے کی غرض اس سے پانچ چھ ہری مرچیں پکڑ لی تھیں۔ جب ہم دونوں اوپر کو چڑھتی سڑک پرچل رہے تھے تو ہمیں پیراکی کے لباس میں ملبوس دو لڑکیاں سامنے سے آتی دکھائی دی تھیں۔ میں نے انہیں “ہائی” کہا تھا تو وہ بھی “ہائی” کہتے ہوئے، کھلکھلا کر ہنس پڑی تھیں۔ میں نے بات بڑھانے کی خاطر ہاتھ بڑھاتے ہوئے ان دونوں کو ایک ایک ہری مرچ پیش کی تھی۔ میرا تحفہ دونوں نے ہی مسکراتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔ بھرپور جسم اورگول چہرے والی لڑکی نے مرچ کی نوک کو دانت سے کترا تھا اور زور زور سے سی سی سی کرنے لگی تھی جبکہ اکہرے بدن والی سروقد لڑکی نے جس کے لمبے گہرے بھورے بال تھے، جس کے “کتا دانت” نوکیلے تھے اورجس کے چہرے کے نقوش کچھ کچھ تاتاروں کے نقوش سے ملتے تھے، پوری مرچ کرچ کرچ کرکے کھا لی تھی پھربھی اپنی مسکراہٹ قائم رکھی تھی۔ میں نے جوش و خروش کے ساتھ اس سے ہاتھ ملایا تھا کیونکہ اس کی یہ “مشرقی ہمت” مجھے بھا گئی تھی۔
رات کو وہ ایک بار پھر حلقہ رقص میں نظر آئی تھی۔ میں نے اسے دعوت رقص دی تھی۔ ہلکورے لینے کے دوران اس سے اگلے روز پانچ بجے شام تفریح گاہ کے مرکز میں ملنے کا وعدہ لے لیا تھا۔ اگلے روز وہ اپنی سہیلی، جس کا نام ماریا تھا وہی جس سے ہری مرچ کی تلخی برداشت نہ ہو سکی تھی، کو ساتھ لے کرمقام مقررہ پر پہنچ گئی تھی، اس بہادر لڑکی کا نام یولیا تھا۔ دونوں ہی بن ٹھن کر آئی تھیں۔ میں انہیں لے کرسمندرکی جانب چل پڑا تھا۔
سمندر سے آخری پیراکوں کی واپسی ہو رہی تھی۔ ساحل سے دور، جہاں سے ساحل پر جانے کے لیے اترائی شروع ہوتی تھی، بیٹھی ہوئی گاؤں کی بوڑھی عورتیں، نیلگوں سفید شیشے کے بھدے چھوٹے مرتبانوں میں بھری خوں رنگ شراب بیچ رہی تھیں۔ سمندرآتے جاتے میں کبھی کبھار، گھر میں تیار کی گئی یہ انگور کی شراب ان بوڑھیوں سے خرید کر نوش جان کر لیا کرتا تھا۔ پیتے ہوئے اس میں سے تمباکو کی ہمک آتی تھی لیکن اس کا سرور بہت مدھم اور کیف آور ہوتا تھا۔ بعید نہیں کہ انگور کے رس کو “تاؤ” دینے کی خاطراس میں تمباکو کے چند پتے ڈال دیے جاتے ہوں۔
ماریا اور یولیا سمندر کے کنارے ہوا خوری کرنے کی خاطر میرے ہمراہ تھیں۔ اس ملک میں مروج قاعدوں کے خلاف تھا کہ لڑکیوں کی خاطر مدارت نہ کی جائے چنانچہ میں نے شراب ناب سے بھرے ایسے دو مرتبان خرید لیے تھے۔ ساحل سمندر پر ہم اس جانب چلے گئے تھے جہاں لوگ تھے ہی نہیں، بس بڑے بڑے پتھر تھے جن کے ساتھ سمندر کی لہریں ٹکرا کر واپس ہوتے ہی نزدیکی گہرائی میں ڈوب جاتی تھیں البتہ اپنے پیچھے نمکین پانی کی پھوار اورمرتی ہوئی جھاگ چھوڑ جاتی تھیں۔ ہم تینوں ایک پتھر پر بیٹھ کر مرتبان کو باری باری منہ لگا کر جرعہ ہائے شراب حلق سے نیچے اتارنے لگے تھے۔ سیر کا ذوق، ماحول کا سحراورطبیعت کا وفور ویسے ہی کم نہیں تھے، اوپر سے انگور کی بیٹی نے ہم تینوں کے احساسات سے چہلیں شروع کر دی تھیں۔ میں نے دونوں پر شباب لڑکیوں کی کمروں میں دھیرے سے بازو ڈال کرکے انہیں اپنی جانب کھینچ لیا تھا پھر باری باری دونوں کے ہونٹوں کے ساتھ اپنے ہونٹ چپکا دیے تھے۔ ایک ایک بوسے کے جادو سے وہ دونوں میرے دائیں بائیں زانووں پراپنی نشستیں ٹکا کے بیٹھ گئی تھیں۔ دو جوان بدنوں کا گداز اورحدت اس قدر قریب اور اس قدر ہوش ربا، اس پر طرح یہ کہ وہ دونوں باری باری اس کا منہ اپنی جانب موڑ کر اسے اپنے ہونٹوں سے آب حیات پلا رہی تھیں جس میں انگور کی شراب کی چہل شامل تھی۔ وقت طویل ہو گیا تھا۔ دخت رزکی چہل ماند پڑ چکی تھی۔ ہم تینوں خوشی خوشی تفریح گاہ کے مرکز واپس آ کر ایک دوسرے سے کل ملنے کے وعدے کرکے جدا ہو گئے تھے۔
استراحت کی خاطرسفرسے پہلے مظہر نے مجھے بتایا تھا کہ سمندر پر، لطف انگیزی اور عیش کوشی کے لیے بہت سی ماہ جبینیں دستیاب ہوں گی مگر یہاں اپسرائیں تھیں تو بہت لیکن دسترس ممکن دکھائی نہیں دیتی تھی۔ جب میں نے شکوہ کیا تومظہر نے کہا تھا، “جناب اب تو آپ کو اپنا شکار خود ہی کرنا ہوگا” یہ کہہ کر وہ ہنس دیا تھا دوسرے لفظوں میں اس نے اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔
اگلے روز کوئی دو بجے دوپہر، جب مظہر پیراکی کرکے اورمیں ساحل کے قریب سمندرکے پانی میں بیٹھ کرغوطے لگانے سے تھک گئے توآ کرسیڑھیوں کے نزدیک بنی استراحت گاہ کے پھٹوں پر لیٹ گئے تھے۔ سمندر کی جانب سے مسحورکن ہوا چل رہی تھی۔ مجھے سگریٹ پینے کی طلب ہو رہی تھی۔ اس ملک میں اشیاء کی عدم دستیابی کے حالات کے سبب سگریٹ اورماچس کا کال تھا۔ یہ دونوں اشیاء بسا اوقات دوسروں سے مانگنی پڑجاتی تھیں اوراس گداگری سے کسی کو خجالت نہیں ہوتی تھی کیونکہ یہ حالات کی مجبوری کا دستور بن چکا تھا۔ میں نے ادھرادھرنگاہ دوڑائی تو ہم سے کچھ ہی دور ایک نوجوان خاتون پیٹ کے بل لیٹی سگریٹ کا دھواں اڑا رہی تھی۔ اس کی کمر پر انگیا کی پٹی اور اس کے سرینوں پر مڑھا جانگیہ انتہائی چمکدار نارنجی رنگ کے تھے۔ اس کے انڈے کی مانند سفید بدن پر یہ رنگ کچھ جچ نہیں رہا تھا مگر مجھے تو ماچس درکار تھی۔ میں نے پاس جا کر لفظ “سپیچکی” یعنی ماچس بول کردست طلب دراز کردیا تھا، خاتون نے ایک معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ماچس کی ڈبیہ میری جانب بڑھا دی تھی۔ میں نے اپنا نام بتایا تھا، اس نے بھی اپنا نام بتا کر کہا تھا “بیلاروس”۔ مختصر لفظوں میں شام کو ڈسکو میں ملنے کا طے ہو گیا تھا۔ جب میں نے سمندر سے لوٹ کرمظہر اور نتاشا کو بتایا کہ میں نے تن تنہا لڑکی سے شناسائی کرنے کا معرکہ سرکرلیا ہے تو نتاشا نے اسے شاباش دیتے ہوئے کہا تھا، لاؤ دو اتنے روبل جن سے میں وادکا کی بوتل خریدوں گی، رقص گاہ بند ہونے کے بعد تم اسے مے نوشی کی خاطر مدعو کر لینا۔ میں نے اس کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے مطلوبہ رقم اس کے ہاتھ پردھردی تھی۔
رات کو نتاشا کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے میں نے گومل شہر کی اس بیلا روسی دوشیزہ کو شراب نوشی کی دعوت دے ڈالی تھی۔ میری رہائش گاہ کے سامنے کے نیم روشن پارک میں ایک کمبل بچھا کرہم نے محفل سجائی تھی جس میں میرے اور بیلاروس یعنی سفید روس کی سفید لڑکی کے علاوہ مظہر اورنتاشا شریک تھے۔ شغل مے نوشی کے دوران نتاشا نے مجھے انگریزی زبان میں اگلی ہدایت دی تھی اور ہدایت دیتے ہوئے کھلکھلا کر ہنسی بھی تھی۔ ہدایت یہ تھی کہ بوتل ختم ہوتے ہی اپنی “عارضی محبوبہ” کو ساحل سمندر پر ساتھ چلنے کی دعوت دے دینا۔ میں نے ایسا ہی کیا تھا اور وہ بخوشی رضامند ہو گئی تھی۔ جب ہم دونوں مٹر گشتی کی خاطرروانہ ہونے لگے تھے تو نتاشا نے چابکدستی سے کام لیتے ہوئے، کمبل کو تہہ لگا کرعقب سے میری بغل میں اڑس دیا تھا۔ میں اس کم بخت انتہائی چٹی چمڑی کے ساتھ چپکا ہوا، اس کی نازک کمر کو اپنے بازو کے حلقے میں تھامے اوراس کے نرم وگرم لبوں کے بوسے لیتے ہوئے، آئندہ کارروائی کا ذوق دل میں لیے، خراماں خراماں ساحل سمندر کی طرف اترنے والی پتھر کی سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ وہ میری لب جوئی اور دست درازی کو بہ خندہ اور مسرور ہو کر قبول کر رہی تھی۔ اتنے میں ہم دونوں سمندر کے کنارے آ لگے تھے۔ آسمان پر پورا ماہتاب جگمگا رہا تھا جس کی روشنی میں سمندر کی جھاگ دار موجیں رقص کرتے ہوئے آ کر ساحل سے ٹکرا رہی تھیں۔
سمندر کے ساحل پر زمین کے کٹاؤ سے بننے والی ایک اوٹ میں ستے پتھروں پر میں نے کمبل بچھا دیا تھا اور ہم دونوں اس پربغل دربغل لیٹ گئے تھے۔ میں نے دست درازیوں کو وسیع ترکردیا تھا۔ لڑکی میری گرمجوشی سے جیسے گھلے جا رہی تھی مگر میں سرعام بوس و کنار کرنے اورفحاشی کا مرتکب ہونے سے گھبرا رہا تھا لیکن دور دور سے اسی طرح کے کٹاؤں سے آتی مدھم صداؤں نے مجھے بالآخر بے خوف کردیا تھا۔ اس وقت ساحل سمندر داد عیش دینے والے جوڑوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ چاند کی چاندنی میں انتہائی سپید عریاں بدن، کرنوں کی اٹھکیھیلیوں سے چمکتی ہوئی اس کی سنہری زلفیں، ہیجان میں سنسناتی ہوئی سانسیں، ابدان کے مساموں سے پھوٹتے پسینے کی بوندوں کو خنک کرتی ہوئی سمندر سے اٹھتی ہوا اور حسینہ کے حلق سے برآمد ہوتی ہوئی کو کو کی سی کیف آگیں صداؤں نے داد عیش کی لذت کو دوچند کر دیا تھا۔ پھر اسں نے پیراہن سے بے نیاز اٹھ کر، اپنی کمر تک بکھرے سنہری بالوں کے جلو میں سمندر کی لہروں کے ساحل سے ٹکراؤ سے آگے تک کا سفر کیا تھا اور اکڑوں بیٹھ کر سمندر کے پانی سے خود کو دھویا تھا۔ اس کا پیٹھ کر کے جانا، سمندر کی آتی لہر میں بیٹھنا اور لہر گذر جانے کے بعد اٹھنا اور مڑ کر آنا ایسا منظر تھا جو آج بھی آنکھوں کے سامنے فلم کی طرح متحرک دکھائی دے جاتا ہے۔ ہم ایک بار پھر اک دوجے کے ساتھ لگے، میلے سے واپس آنے والوں کی سی تکان کے ساتھ ہولے ہولے چلتے ہوئے رہائش گاہوں کے نزدیک پہنچ کر ایک طویل الوداعی بوسے کے بعد اپنی اپنی راہ پر چل دیے تھے البتہ اگلے روز دوپہر کے کھانے کے وقت ملنے کا وعدہ کرنا نہیں بھولے تھے۔
اگلے دن دوپہر کے کھانے کے بعد میں اپنے کمرے میں لے گیا تھا کیونکہ اس وقت کمرے کے دوسرے تمام ساتھی باہر تھے البتہ کمرے کے باہر ہال میں ساتھ کے کمرے میں مقیم تین چار لڑکیاں میرے کمرے کی دیوار کے ساتھ چپکے میز کے گرد کرسیاں بچھا کر تاش کھیلنے میں مصروف تھیں۔ میں نے کمرے کی چٹخنی چڑھا دی تھی اور ہم دونوں ایک بار پھرمحبت کے کھیل کے اصولوں کو کھوجنا شروع ہو گئے تھے۔ پلنگ کی چولیں ڈھیلی تھیں جو جسموں کی ہلچل سے بے طرح چرچرا رہا تھا۔ مجھے لگتا تھا جیسے تاش کھیلنے والیوں کے کان بس اس چرچراہٹ کی جانب لگے ہوئے ہیں۔ تاش کھیلتے ہوئے ان کے قہقہوں کی آوازیں سن کر مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ میرے کھیل کی ہنسی اڑا رہی ہوں۔ میں چونکہ مشرقی تھا اس لیے میری سوچ بھی ایسی تھی جبکہ وہ ایسے ماحول کی پروردہ تھی جہاں سب اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ دوسروں کے کاموں کی جانب نہ تو کسی کو توجہ دینے کا شوق ہوتا ہے اور نہ ہی وقت ہوتا ہے چنانچہ میری شریک عمل کو بس اپنی کیف آگینی سے سروکار تھا۔
ویسے بھی دن کی روشنی میں اس کے جسم کی بے حد سفید رنگت مجھے اوبھ رہی تھی۔ اس سفیدی کے سبب اس کے اندام سرخی کے ساتھ زردی کا پرتو لیے ہوئے تھے۔ مجھے ایک قاز کی یاد آ رہی تھی جس کے سفید پروں کے بیچ سے نکل کر کلبلاتا ہوا عضو میں نے اپنے بچپن میں پہلی اور آخری بار دیکھا تھا تو مجھے قے آتے آتے رہ گئی تھی۔ جب ہم دونوں “شرفاء” کا روپ دھار کرکمرے سے باہر نکلے تھے تو ہال میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں نے ہمیں کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے اپنے قہقہوں کو دبا کر مسکراہٹ میں تبدیل کر لیا تھا۔ میں کٹ کر رہ گیا تھا لیکن “سفید قاز” نے ان سب کی جانب ایک فخریہ مسکراہٹ اچھال دی تھی جیسے کوئی بہت بڑا کام سرانجام دے کر جا رہی ہو۔
اس ہی رات میں نے اسے حلقہ رقص میں کسی اور کے شانے سے لگے ہلکورے لیتے دیکھا تھا۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ میں نے اس کے عریاں سفید بدن سے اوبھ کراورلڑکیوں کے دبے ہوئے قہقہوں کے مسکراہٹ میں بدل جانے سے خجل ہو کر اس سے رات کو ملنے کا وعدہ نہیں لیا تھا یا پھر یہ کہ وہ اپنے “تفریحی رومان” کی کہانی محض ایک شخص تک محدود نہیں رکھنا چاہ رہی تھی۔ بعد میں وہ ایک دوبار مجھے دکھائی تو ضرور دی تھی لیکن آمنا سامنا کبھی نہیں ہوا تھا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں