ایسے ٹولے کئی تھے، جن سب میں مذہب کی نفی، شعور کی معراج تصور کی جاتی تھی۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی مذہب کے مُلا، پروہت، پادری، ربّی وغیرہ حاکموں کی مدد کرنے کی خاطر مذہب کا حلیہ بگاڑنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے مگر عوام کی اکثریت جو ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہوتی ہے مذہب سے جذباتی وابستگی رکھتی ہے۔ کہیں بھی اور کبھی بھی ساری قوم، ملک میں بسنے والے سارے لوگوں اور مستزاد یہ کہ ساری دنیا کو جذبات سے عاری نہیں کیا جا سکتا یعنی سبھوں کو عقل کی بنیاد پر سوچنے کی جانب راغب کیا جانا ممکن نہیں۔ پھر یہ لوگ جو خود محبت کے جذبے سے انکاری نہیں تھے نجانے کیوں کروڑوں جذباتی لوگوں کی لگن کو سمجھنے سے قاصر تھے۔
یہی وجہ تھی کہ ایسی پارٹیاں ایسے ملکوں کے لوگوں میں جہاں مذہب بہت اہم ہو کبھی جگہ نہیں بنا پائیں ،بالخصوص وحدانیت پر یقین رکھنے والے لوگوں کے ملکوں میں۔ کثیر الالوہی معاشروں میں ایسی پارٹیوں نے نہ صرف لوگوں کے دل جیتے بلکہ ان ملکوں میں حکومتیں بھی بنائیں۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ روس، مشرقی یورپ کے دوسرے ملکوں اور کیوبا میں تو عیسائیت تھی جو اگرچہ تثلیث کو مانتی ہے لیکن اسے کثیرالالوہی مذہب نہیں کہا جا سکتا تو وہاں یہ پارٹیاں کیسے کامیاب ہوئی تھیں؟
یہ ایک لمبی بحث ہے بس اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ جس طرح ایران میں بادشاہت کے خلاف سب سے زیادہ جدوجہد وہاں کی “حزب تودہ” یعنی ایران کی کمیونسٹ پارٹی نے کی تھی مگر انقلاب لانا آیت اللہ حضرات کے نام لگ گیا تھا اسی طرح روس میں بادشاہت کے خلاف سب سے پہلے سرکشی کلیسا نے کی تھی مگر اس ابتری سے بائیں بازو کی مختلف پارٹیوں نے فائدہ اٹھایا تھا، انقلاب لانے کا سہرا بالشویکوں کے سر رہا تھا۔ مشرقی یورپ کے ملکوں میں تو کمیونسٹ انقلاب ویسے ہی لائے گئے تھے جیسے آج سرمایہ داری نظام کئی ملکوں میں “رنگین انقلابات” یا مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے ملکوں میں”بہار عرب” برپا کرتا ہے۔ کیوبا کی بات تو رہنے ہی دیں۔
میں اگرچہ ان ٹولوں میں سے ہی ایک ٹولے میں شامل تھا جس میں مَیں نے بہت بعد میں جا کر کہیں چھتیس سینتیس برس کی عمر میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ بھی اس لیے کہ ملک کے دفاع سے متعلق شعبے کی خفیہ ایجنسی مجھے اپنے ساتھ ملانا چاہتی تھی۔ میں اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتا تھا چنانچہ میں نے عجلت میں اپنے تئیں ذلت کے مارے لوگوں کے لیے کام کرنے کو “ثواب” جان کر ایسے ہی ایک ٹولے کےاپنی جانب بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا تھا۔
اس ٹولے میں ایک دو بار سرسری طور پر مجھے اس ملک کے دورے پر بھیجے جانے کا اشارہ بھی ہوا مگر میں تو علائے کلمۃ الحق پر یقین رکھتا تھا اس لیے میں نے قبل اس کے کہ مجھے رسمی طور پر دورے پر جانے کی دعوت دی جاتی منہ پھاڑ کر کہہ دیا تھا کہ ،” میں تو کبھی ایسے دورے پر نہ جاؤں جس میں اسے وہاں کی حکومت اپنی مرضی سے وہ کچھ دکھائے جو وہ دکھانا چاہتی ہو اور میں اس سب کو نہ دیکھ پاؤں جو میں خود دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں تو اپنے طور پر ہی جا کر وہاں کے حقائق کا مشاہدہ کروں گا”۔ میں تب اس بات پر یقین نہیں رکھتا تھا کہ بعض اوقات فرشتے کہی بات پر آمین کہہ دیا کرتے ہیں۔
میرے ساتھیوں میں سے اکثر کی اس ملک کے ساتھ لگن ویسے ہی تھی جیسے مسلمانوں کی کعبہ اور مسجد نبوی سے، عیسائیوں کی یروشلم اور قسطنطنیہ سے اور یہودیوں کی اسرائیل کے ساتھ ہوتی ہے۔ اگر میں خود کو اس نظریے سے جدا کر سکتا جو تھا ہی جذبات سے عبارت یعنی میرا آبائی اور پیدائشی مذہب تو میں کسی ملک یا وہاں رائج نظام یا نظریے سے بھلا ویسی ہی جذباتی وابستگی کیوں کر رکھ سکتا تھا؟
طیارے میں داخل ہوا تو بھی مجھے یاد نہیں تھا کہ فرشتوں نے جس بات پر آمین کہی تھی وہ پوری ہونے چلی ہے۔ بہر حال میں جونہی طیارے میں داخل ہوا تو مجھے ایک عجیب چیز دیکھنے کو ملی تھی ۔ اس زمانے میں اس ملک میں بوئنگ اور ائیربس استعمال کرنے کا رواج نہیں تھا جو آج عام ہے اس لیے مقامی طور پر ساختہ اپنے مسافر بردار طیارے استعمال کیے جاتے تھے، عجیب یہ تھا کہ طیارے کی چھت میں دو تین مقامات پر سے جیسے پانی کی پھوار پڑ رہی ہو لیکن وہ پانی نہیں تھا خوشبو ملے ذرات تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ طیارے میں داخل ہوتے ہی اس جادوئی منظر کی جانب متوجہ ہوئے تھے ماسوائے ان نوجوانوں کے جو ایسے طیاروں میں سفر کرنے کے عادی تھے۔
ایسے نوجوانوں کی تعداد خاصی زیادہ تھی۔ یہ سب چھٹیاں گذار کر نہیں بلکہ ان کی اکثریت بالٹی گوشت یعنی کڑاہی اور دیگر پاکستانی پکوانوں سے محظوظ ہونے کی خاطر کراچی میں دو تین روز گذارنے کے بعد واپس جا رہی تھی۔ مجھے ان کی چلبلی طبیعتوں سے یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ وہ سب طالب علم ہیں لیکن یہ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ بعد معلوم ہوا تھا کہ وہ سب “پوائزن” کے سوداگر بھی ہیں۔ ارے بھائی زہر کے نہیں پوائزن نام کے فرانسیسی پرفیوم کے۔
مجھے برسوں گذرنے کے بعد یہ یاد نہیں رہا کہ میرے برابر کی نشست پر کون بیٹھا تھا؟ اگر کوئی بیٹھی ہوتی تو ضرور یاد رہتا اور کہانی شاید اور طرح کی ہو جاتی یا اگر نہ بھی ہوتی تو اس ہمسفر کا تذکرہ کم از کم ضرور ہوتا۔ یہ البتہ یاد ہے کہ نشست “ایزل” والی تھی یعنی نشستوں کے درمیاں گذرگاہ کے ساتھ ملحق، وہ دن اور آج کا دن میں اگر سینکڑوں نہیں تو بیسیوں ہوائی سفر کر چکا ہوں اور روش کی ایسی ہی نشست کا انتخاب کرتا ہوں ۔ شاید اس لیے کہ اٹھنے، نکلنے، آنے جانے میں سہولت رہتی ہے۔
بہرحال جب طیارہ ایک خاص بلندی پر پہنچ کر سیدھا ہوا تو میزبان عملہ مشروبات کی ٹرالی لے کر آ گیا تھا۔ میں تب تک شراب نوشی سے تائب نہیں ہوا تھا۔ اب تو اللہ معاف کرے میں ایسا عمل کرنے کا سوچتا تک نہیں ہوں بلکہ میں نے اپنے شراب خور دوستوں کو کہہ دیا ہے کہ جب وہ پیے ہوئے ہوں تو مجھے فون نہ کریں۔ درست کیا ہے، سوچ کی ایک عمومی لہر اور شعور کی تبدیل شدہ کیفیت میں اٹھنے والی سوچ کی لہر، بھلا کیسے باہم ہو سکتی ہیں۔ شراب پی کر ہر شخص اپنے موقف کو دوسرے پر ٹھونسنے پر تل جاتا ہے۔ یاد آیا ایک بار میں اپنے سے عمر میں خاصے کم عمر دوست کے ساتھ بیٹھا شغل کر رہا تھا۔ اس کے شعور کی تبدیل شدہ کیفیت سے برآمد ہوتی سوچ کو وہ دوست بہت دیر تک سہتا رہا پھر بڑے نرم لہجے میں استفسار کیا تھا،” جب آپ پیے ہوئے نہیں ہوتے تو آپ خالصتاً جمہوری رویوں کے حامل ہوتے ہیں مگر پی لینے کے بعد آپ بڑے فیوڈل بن جاتے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟”۔ میں نے جواب میں کہا تھا،” جب پی لیتا ہوں تو مجھ میں سے میرا باپ برآمد ہوتا ہے” اور یہ کہہ کر خود ہی قہقہہ بار ہو گیا تھا۔
فضائی میزبان ہر خواہش مند کو حسب فرمائش سرخ یا سفید وائن کا، کوئی دو گھونٹ بھر جرعہ دے رہے تھے۔ میں اپنے ہم وطنوں کی طرح سخت مے پینے کا عادی تھا، کلی بھر جرعہ دیکھا تو سوچا کہ منہ ہی گیلا ہوگا اور کیا؟ میزبان دوسری بار انڈیلنے سے انکاری تھے۔ چونکہ طلباء سوداگر پہلے ہی جانتے تھے چنانچہ جب ٹرالی اس کے متوازی اس سے اگلی نشست سے گذرنے لگی تو اس ہی طرح “ایزل” نشست پر بیٹھے ہوئے ایک جرات مند نے ٹرالی کی نچلی سطح سے ریڈ وائن کی ایک بوتل اچک لی تھی۔ اس چیرہ دستی سے میزبان غیرآگاہ رہے تھے۔ نوجوان نے دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس چوری کی شراب سے مجھے بھی دو اضافی جرعے نوش جان کرنے کا موقع دیا تھا۔ آج وہ نوجوان بہت بڑا کاروباری شخص ہے اور سنا ہے کہ لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کرنے میں بھی ویسے ہی ماہر ہے جیسے ٹرالی سے وائن کی بوتل اڑانے کا ماہر ہوا کرتا تھا۔
شراب اتنی مخمور کن تو نہ تھی کہ مجھ میں سے میرا باپ برآمد ہو جاتا مگر میرا باپ میرے اندر بے کل ضرور تھا کیونکہ میرا باپ اور میں خود دونوں ہی مہمان نوازی کا جب تک دو گنا جواب نہ دے لیتے ہماری انا کی تسکین نہیں ہوتی تھی۔ کرنسی میرے پاس تھی نہیں کہ میزبانوں کو لالچ دے کر، بوتل دو بوتل خرید کر مہربان نوجوان اور اس کے ساتھی طالبعلم کی ضیافت کرتا۔ کرنسی نہ ہونے کی وجہ یہ سوچ تھی کہ زرمبادلہ جاتے ہوئے خرید کر لوں گا مگر اتفاق سے آخری روز کوئی غیر متوقع تعطیل آ پڑی تھی اس لیے ایرپورٹ سے ٹریولر چیک ہی خرید پایا تھا۔
اسی اضطراب اور بیخ و بن میں مجھے کچھ سوجھی تھی۔ میں نے میزبان خاتون کو طلب کرکے ایک کاغذ اور قلم لا دینے کی درخواست کی تھی۔ پھر انگریزی زبان میں اس خاتون کی تعریف میں ایک نظم لکھی تھی۔ نظم لکھنے کے بعد قلم واپس کرنے کے بہانے میزبانوں کے کیبن میں جاکر اس خاتون کو اس کے حسن اور حسن سلوک سے متعلق نظم سنائی تھی- معاوضے میں ایک نہیں بلکہ یکے بعد دیگرے وائن کی تین بوتلیں پائی تھیں۔ اس ضیافت سے دو طالبعلم مخمور ہو کر انٹا غفیل ہو گئے تھے۔ میں نے اپنے اندر اپنے باپ کو تو اس سکون آور دوائی کے زیر اثر سلادیا تھا پر آپ جاگتا رہا تھا۔
طیارہ لینڈ کر گیا تھا۔میں نے آنے سے پہلے اپنے اس دوست کو جس نے اسے اس ملک میں مدعو کیا تھا “ایکسپریس ٹیلیگرام” بھیجا تھا جس میں اپنے آنے کی تاریخ اور وقت بتایا تھا۔ کسٹم اور امیگریشن سے فارغ ہو کر جب میں باہر نکلا تو دوست کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ اس ملک کا ارتباطی نظام اس قدر خراب تھا کہ فوری تار بھی کوئی دس روز بعد موصول ہوتا تھا۔ دوست بیچارے کو تار ملتا تو وہ پہنچتا۔ کرنسی ندارد، ملک اجنبی، زبان اجنبی، کرے تو کیا کرے؟ اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ ایک بڑی عمر کا شخص میری طرف بڑھا تھا جس نے پوچھا تھا،” آپ کو زبان آتی ہے، مجھے ٹیکسی لینی ہے”۔ وہ شخص شاید طیارے میں طالبعلموں کے ساتھ شغل شراب نوشی کے موقع پر میری فعالیت کو بھانپتا رہا تھا، اسی لیے سمجھا ہوگا کہ کوئی پرانا مسافر ہے۔
” صاحب زبان تو مجھے بھی نہیں آتی، البتہ ٹیکسی لے سکتا ہوں پر میرے پاس مقامی کرنسی نہیں ہے” میں بھلا یہ کیوں بتاتا کہ میرے پاس کوئی بھی کرنسی نہیں۔
” کوئی بات نہیں میرے پاس روبل ہیں” اس شخص نے کہا تھا جو اس ملک میں کام کرنے والی کسی پاکستانی فرم کا اہلکار تھا اور یہاں شاید آتا جاتا رہتا تھا۔
میں نے اس شخص سے یہ پوچھ کر کہ کہاں جانا ہے اس سڑک اور جہاں خود جانا تھا اس سڑک کا نام لے کر ٹیکسی والے سے “بات” کی تھی۔ ڈرائیور “دولار، دولار” کی رٹ لگائے ہوئے تھا جبکہ میں “روبل، روبل” کی تکرار کر رہا تھا۔ ٹیکسی پر جانے والے لوگ زیادہ نہیں تھے۔ بہت سے مقامی لوگ تو پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں پر سوار ہو کر جا چکے تھے جو میری طرح “غیرملکی” تھے ان میں سے اکثر لینے آنے والوں کے ساتھ چلے گئے تھے یا لینے کی خاطر آنے والوں کا انتظار کر رہے تھے چنانچہ ٹیکسی والا بالآخر ایک سو روبل کے عوض لے جانے پر رضامند ہو گیا تھا۔ یہ پچیس برس پہلے کا قصہ ہے، آج ایک ہزار روبل سے کم میں کوئی بات بھی نہیں کرے گا۔ بہرحال جب ٹیکسی اس شخص کی منزل تک پہنچ گئی جہاں اس کا میزبان پہلے ہی کھڑکی سے جھانک رہا تھا تو یہ بھائی صاحب عجلت میں “اچھا خدا حافظ” کہہ کر رخصت ہوا چاہتے تھے کہ میں نے یاد دلایا تھا،” ٹیکسی والے کو ایک سو روبل دے دیں”۔ اس نے خجل ہو کر سوری کہتے ہوئے ایک سو روبل کا لینن کی تصویر والا نوٹ ڈرائیور کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔
قصہ مختصر یہ کہ مجھے مقامی زبان میں صرف اس سڑک کا نام آتا تھا جہاں واقع یونیورسٹی کے ہوسٹلوں میں کسی ایک میں مجھے جانا تھا تا حتی کہ مجھے ہوسٹل کا نمبر تک معلوم نہیں تھا۔ میں نے لفظ “سٹوڈنٹ” کہہ کر سونے کا اشارہ کرکے ٹیکسی ڈرائیور کو سمجھایا تھا اور دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ سمجھ گیا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیور پبلک ڈیلنگ والے لوگ ہوتے ہیں، بھانت بھانت کے لوگوں سے ان کا واسطہ پڑتا ہے جن میں مجھ جیسا “لازبان” شخص بھی شامل تھا۔
گذرے زمانوں کی سبھی تعریف کرتے ہیں کیونکہ ان کے ساتھ یاد ماضی چپکی ہوتی ہے۔ یہ انسانی خاصہ ہے کہ وہ اچھی یادوں کو زیادہ یاد رکھتا ہے اور بری یادوں کو مغز کے کسی نہاں خانے میں دھکیل دیتا ہے۔ مگر یہ بھی درست ہے کہ ہر عہد کی کچھ اچھی باتیں ضرور ہوتی ہیں، کچھ معیشت سے متعلق اور کچھ معاشرت بارے۔ تو اس زمانے میں اس ملک کے لوگوں کی اخلاقیات خاص طور پر غیر ملکیوں کے حوالے سے بہت مثبت ہوتی تھی جو اتنا عرصہ بیت جانے پر نہ صرف ہوا ہو چکی ہے بلکہ معکوس بھی ہو چکی ہے۔ آج ہر جانب غیر ملکی ہیں چاہے ان کی اکثریت وسط ایشیائی ملکوں سے ہی کیوں نہ ہو مگر اب وہ “توارش” یعنی کامریڈ نہیں رہے، اب انہیں “گاستر بائتر” کہا جاتا ہے یہ جرمن لفظ کا روسی لہجہ ہے جس کا مطلب ہے ” کاٹنے والے مہمان” یعنی میزبانوں کے حق میں سے چھین کر کھانے والے افراد۔ یہ توہین آمیز اصطلاح قوم پرستی کی غماز تو ہو سکتی ہے لیکن درست ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ دراصل کوئی قوم اپنے تفاخر کے زیر اثر کم آمدنی والے، ضرررساں اور کراہت آمیز کام کرنے سے انکار کر دیتی ہے تو ایسے کام صرف تارکین وطن ہی کرتے ہیں اور وہ بھی کم معاوضے پر۔ اور تو اور دکانداری اور کم مالیت کے کاروبار جیسے دکاندار ہونے کو بھی ایسی قوموں کے افراد اپنے وقار کے منافی خیال کرتے ہیں چنانچہ ان برادر قوموں کے لوگ جو چھوٹے کاروبار کو مناسب کام سمجھتے ہیں جب منڈیوں میں چھا جاتے ہیں تو وہی قوم پرست جو ایسے کام کو بھی برا سمجھتے تھے ان کے خلاف نفرت اگلنے لگتے ہیں۔
بہرحال ٹیکسی ڈرائیور نے کسی ایک ہوسٹل کے سامنے گاڑی روک کر میرا سوٹ کیس نکال کر باہر رکھا تھا، پھر ہاتھ اٹھا کر سلام کیا تھا اور عجیب نامانوس لہجے میں انگریزی زبان کا تھینک یو کہہ کر چلا گیا تھا۔ میں ان طلباء پر نظر جمائے کھڑا تھا جو ہوسٹلوں سے نکل کر یونیورسٹی کی جانب گامزن تھے۔ اس لیے کہ شاید کوئی مانوس شکل دکھائی دے جائے جس سے میں اپنے میزبان مظہر گورمانی کے بارے میں جان سکوں کہ وہ کونسے ہوسٹل کے کس کمرے میں مقیم ہے۔ بیشتر لڑکے لڑکیاں افریقی یا لاطینی امریکی تھے البتہ کچھ گورے بھی تھے۔ ویسے تو “گورے” کی یہ اصطلاح ان ملکوں کی ہے جہاں انگریز یا ان کے رشتے دار یعنی نوآباکاروں کی اولادیں بستی ہیں جن کی آج بھی سابقہ نوآبادیات سے آنے والے لوگوں کے ساتھ مغائرت ہے مگر تب میرے ذہن میں یہی سنی پڑھی اصطلاح آئی تھی۔ ایک عرصہ قیام کے بعد اسے معلوم ہو سکا تھا کہ نہ تو وہ گورے ہیں اور نہ باہر سے آنے والے سانولے یا سیاہ انسانوں سے دوری رکھتے تھے البتہ کوئی ناخلف اگر نفرت کا اظہار کرنا چاہے تو رنگدار یا سیاہ سبھی لوگوں کو “چورنے ژوپا” یعنی سیاہ سرینوں والا کہہ کر ان سے اپنی نفرت کا اظہار کر سکتا ہے مگر ایسے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
بڑی مشکل سے ایک طویل قامت گوری رنگت کا نوجوان دکھائی دیا تھا جو باقی “گوروں” کی نسبت کچھ اور طرح گورا تھا، مجھے لگا تھا کہ ہو نہ ہو وہ پٹھان ہے۔ پھر بھی اس نے انگریزی میں پوچھا تھا کہ آپ کہاں سے ہیں۔ میں نے جب بتایا کہ میں اسی ملک سے ہے جہاں سے وہ وارد ہوا تھا تو اس کی جان میں جان آئی تھی۔ جب میں نے مظہر کے بارے میں پوچھا تو نوجوان نے کہا تھا کہ وہ اسے زیادہ تو نہیں جانتا مگر وہ ان دونوں ہوسٹلوں میں سے کسی ایک میں رہتا ہے شاید۔ معذرت چاہتا ہوں مجھے کلاس میں جانا ہے مجھے دیر ہو رہی ہے، یہ کہہ کر وہ چلا گیا تھا۔
میں سوٹ کیس اٹھا کر ہوسٹل میں داخل ہوا تھا۔ ایک کیبن میں مقامی نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے ستودنت (اب مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ حرف ٹ نہیں چلے گا) اور ملک کا نام لے کر پوچھا تھا۔ اس نے جھٹ سے ایک رجسٹر کھولا تھا اور ایک جانب اوپر سے نیچے انگلی پھیرنا شروع کی تھی۔ ایک مقام پر انگلی ٹکا کر اس نے کہا تھا “عارف” اور اسی ملک کا نام لیا تھا جو میرے منہ سے سنا تھا۔ اب مسئلہ پیدا ہو گیا تھا کہ چوکیدار یا دربان جو کچھ بھی یہ نوجوان تھا اس تک اپنی بات کیسے پہنچائی جائے۔ شکر یہ ہوا کہ ایک افریقی طالبعلم سامنے آ گیا۔ اس کے توسط سے میں نے مقامی نوجوان سے درخواست کی کہ میرا سوٹ کیس کیبن میں رکھنے دے تاکہ میں عارف کو مل کر آ سکوں۔ اس نے بات مان لی تھی، کمرے کا نمبر بتایا تھا اور افریقی طالبعلم نے سمجھا دیا تھا کہ تیسرے فلور پر دائیں جانب مڑ کر راہدری کے کسی ایک جانب اس نمبر کا کمرہ ہوگا۔
میں نے جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ اندر سے مقامی زبان میں ہی کسی نے کچھ کہا تھا جس کا مطلب میں نے یہی لیا تھا کہ اندر آ جاؤ۔ عارف صاحب ادھیڑ عمر کے بے حد نستعلیق شخص تھے۔ جب میب نے انہیں اپنی آمد اور مظہر کی تلاش بارے بتایا تو انہوں نے سب سے پہلے تو اپنا شیو کا سامان پیش کیا تھا کہ جائیں شیو بنا لیں، ہاتھ منہ دھولیں۔ چائے پیتے ہیں پھر مظہر کی تلاش پر نکلتے ہیں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ ہوسٹل میں نہیں بلکہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ کسی کرائے کے اپارٹمنٹ میں کہیں مقیم ہے۔ خیر چائے پینے کے بعد ہم دونوں مظہر کی تلاش کے لیے نکلے تھے۔ عارف صاحب کا ارادہ تھا کہ یونیورسٹی جا کر طالبعلموں سے معلوم کرتے ہیں۔ ابھی ہوسٹل سے زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ مجھے عقب سے ایک لڑکی کو دیکھ کر گمان ہوا تھا کہ یہ نتاشا ہے۔ جی ہاں نتاشا مظہر کی اہلیہ تھی جو تب اس کے ہمراہ میرے ہاں آئی تھی جب مظہر نے مجھے استراحت کی خاطر اس ملک آنے کی دعوت دی تھی۔ میں نے زور سے پکارا تھا “نتاشا!” لڑکی مڑی تھی اور دوڑتی ہوئی آ کے میرے گلے لگ گئی تھی۔ یہ وہی تھی ، یہ اور بات کہ بعد میں مجھے معلوم ہوا تھا کہ یہاں تو ہر چھٹی لڑکی کا نام نتاشا ہے، ہر دوسری کا لینا، ہر تیسری کا آنیا اور ہر چوتھی کا تانیا۔ ہر پہلی اور پانچویں کے نام مختلف ہو سکتے تھے۔
اب ہم تینوں مل کر اس ہوسٹل کے آٹھویں فلور پر پہنچے تھے جس کے ایک کمرے میں مظہر نتاشا کو کام پر جانے کے لیے رخصت کرکے پھر سے سویا تھا۔ جب نتاشا نے دروازہ کھٹکھٹایا اور بتایا تھا کہ وہ لوٹ آئی ہے تو اس کے شوہر نے چہرے پر انتہائی ناگوار تاثرات لیے ہوئے دروازہ کھولا تھا مگر مجھے دیکھ کر مارے حیرت اور خوشی کے مجھے گلے لگاتے ہی ایک منٹ کہہ کر یہ جا وہ جا، کہیں چلا گیا تھا۔ ہم تینوں کمرے میں داخل ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ مظہر کہیں سے شیمپین کی بوتل لے آیا تھا۔ وہ میری آمد کی خوشی منانا چاہتا تھا۔ گلاس رکھے گئے تھے۔ جونہی اس نے بوتل کھولی تو اس کا مواد ابل کر تقریباً پورے کا پورا بیچارے عارف علی خان صاحب کو چہرے سے گھٹنوں تک گیلا کر چکا تھا۔ مظہر اور نتاشا دونوں ان کو صاف کرنے میں جت گئے تھے۔ مگر عارف صاحب جیسے بیٹھے تھے ویسے ہی بیٹھے رہے تھے اور بولے تھے” بھئی جو بچا ہے وہ کم از کم اپنے مہمان کے لیے تو انڈیل دیں”۔

جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں