کچھ دن پہلے شائع ہونے والے کالم میں عرض کیا تھا کہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومت کے درمیان بیک چینل مذاکرات کا سلسلہ اس قدر تلخی کے ماحول میں بھی جاری رہا ہے جو عمران خاں کی طرف سے ہر اگلی میٹنگ میں اچانک پچھلے مطالبات سےیو ٹرن لے کر نئے مطالبات پیش کرنے کی وجہ سے ناکامی یا مزید تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے۔
کالم کا لنک:پی ڈی ایم حکومت اور تحریک انصاف کے مابین بیک چینل مذاکرات کا ٹوٹتا جڑتا سلسلہ/غیور ترمذی
سیاسی تجزیہ نگاروں میں بڑے مشہور اور دانشور کہلوانے والے پنڈت اس خبر کو غیر سنجیدگی سے لیتے رہے ہیں لیکن حالات نے اب یہ گواہی دے دی ہے کہ راقم کی خبر درست تھی۔
اسی خبر سے پیوستہ اگلی خبر یہ ہے کہ ہر اگلی میٹنگ میں یو ٹرن لے کر نئے مطالبات پیش کرنے کے پیچھے عمران خاں کی مرشد بشری بی بی کے مؤکلات کی کارستانیاں تھیں۔ یہ مذاکرات ایک مرحلہ میں اس سٹیج پر بھی طے ہو گئے تھے کہ پی ڈی ایم حکومت نے بجٹ پیش کرنے کے بعد جون 2023ء کے آخر میں اسے منظور کروا کر اسمبلیاں توڑ دینی تھیں اور ستمبر 2023ء میں ملک بھر میں چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہو جانے تھے۔ اس نکتہ کو عمران خاں نے بھی قبول کر لیا تھا اور پی ٹی آئی و حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعہ اس کا اعلان اگلے دن کیا جا رہا تھا کہ اسی رات عمران خاں کی طرف سے نیا مطالبہ سامنے آ گیا کہ ان کے اور بشری بی بی کے خلاف توشہ خانہ چوری کیس، ممنوعہ فارن فنڈنگ کیس، القادر ٹرسٹ فراڈ کیس اور پنجاب و خیبر پختونخوا بیوروکریسی میں مبینہ طور پر پیسے لے کر کی جانے والی پوسٹنگز و ٹرانسفر کروانے کے الزامات والی انکوائریاں فی الفور ختم کی جائیں۔ اس سے پچھلی میٹنگ میں حالانکہ عمران خاں کی طرف سے پی ٹی آئی مذاکراتی ٹیم نے یہ آمادگی ظاہر کی تھی کہ عمران خاں، بشری بی بی اور پی ٹی آئی کے خلاف چلنے والی تمام انکوائریوں کو قانونی طریقہ سے چلنے دیا جائے گا اور عمران خاں یا پی ٹی آئی کی طرف سے ان تحقیقات میں کسی بھی قِسم کو کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔
یہ نیا مطالبہ اس قدر بچگانہ و حیرت انگیز تھا کہ خود پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم بھی اسے سُن کر ششدر رہ گئی تھی اور وہ اسے پیش کرتے ہوئے شدید ہچکچاہٹ کا شکار تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ مطالبہ اس قدر غیر منطقی تھا کہ اسے کوئی بھی سیاسی حکومت کسی بھی طرح قبول نہیں کر سکتی تھی کیونکہ ایسا کرنا ان کی سیاسی موت ہوتی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عمران خاں، بشری بی بی اور پی ٹی آئی قیادت کے خلاف جو انکوائریاں اب ثابت شدہ ہیں وہ دراصل پی ڈی ایم حکومت کی طرف سے عمران خاں وغیرہ کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا حصہ تھیں حالانکہ ان تمام کیسوں میں شریک جرم افراد کی طرف سے بھی گواہیاں اور ثبوت مل چکے ہیں کہ یہ سیدھے سیدھے اربوں روپے کی کرپشن کے معاملات تھے نہ کہ کوئی انتقامی کارروائی۔
یہ بہت حیرت انگیز ہے کہ ایک شخص جو بظاہر آکسفورڈ کا پولیٹیکل سائنس میں گریجو یٹ ہے، پوری دنیا گھوم چکا ہے اور اوائل جوانی سے ہی شہرت اور بین الاقوامی شخصیات میں شامل ہے، وہ اس قدر غیر منطقی، غیر سیاسی اور بچگانہ حرکات کر سکتا ہے۔ اگر عمران خاں کی ان باتوں کا سماجی و نفسیاتی جائزہ لیں تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کی عقل و دانش اور فہم پر بشریٰ بی بی نے شاید ہپناٹزم، میگناٹزم اور مسمریزم جیسے اعمال کے ذریعہ مکمل تسلط جما رکھا ہے جس کی وجہ سے عمران خاں نہ تو وزیراعظم ہوتے ہوئے وزیراعظم تھے اور نہ پی ٹی آئی چیئرمین ہوتے ہوئے کسی بھی طرح پارٹی سربراہ کے شایان شان کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ کسی بھی مزاحمتی سیاسی تحریک میں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ لیڈر اپنے کارکنوں کو پہلے تو ریاست کے خلاف پُرتشدد جارحانہ حملوں کی ترغیب دے اور بعد میں یہ کہہ کر ان سے پہلوتہی اختیار کر لے کہ چونکہ وہ گرفتار تھا اس لئے اسے نہیں معلوم کہ اس کے پارٹی لیڈروں اور کارکنوں نے کیونکر ریاستی اداروں پر حملہ کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ خود کو اور بشری بی بی کو “ریڈ لائن” قرار دیتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ اگر ان کو گرفتاری کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک بھر میں ایسا بلکہ مزید سخت ردِعمل آ سکتا ہے۔
عمران خاں پر بشریٰ بی بی کا اس قدر تسلط ان کی پارٹی کے تتر بتر ہونے کی بنیادی وجہ بن چکا ہے۔ کسی سیاسی پارٹی قیادت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی بیوی کو مرشد قرار دے اور میڈیا کے سامنے پارٹی کارکنوں کو یہ کہے کہ وہ ان کے مرشد نہیں ہیں بلکہ ان کی بیوی دراصل ان کی اپنی مرشد ہے۔ ایک پارٹی لیڈر، ایک سابق وزیراعظم اور ایک مشہور ترین سلیبریٹی کا ایک عورت یا اپنی بیوی کے اس قدر زیر اثر ہونے کی کوئی اور سائنسی توجیہ نہیں ہو سکتی، اس لئے عمران خاں کے قریب ترین (حال ہی میں ہوئے سابقہ) لوگوں کا یہ دعویٰ متبادل حقیقت ماننا پڑے گا کہ بشریٰ بی بی نے ہپناٹزم، میگناٹزم اور مسمریزم کے ذریعہ عمران خاں کو اپنے شدید زیرنگیں کیا ہوا ہے اور عمران خاں اپنی زبان اور سوچ کی بجائے وہ کرتے ہیں جس کا حکم انہیں ان کی مرشد دیتی ہے۔ کبھی وہ انہیں کہتی ہے کہ وہ بنی گالہ چھوڑ کر ٹھنڈے پہاڑوں میں چلے جائیں تو وہ نتھیا گلی کو اپنا مسکن بنا لیتے ہیں اور اگر وہ کہے کہ پانی کے نزدیک رہنا ہے تو عمران خاں یکایک اپنی بنی گالہ والی 400 کنال کی رہائش گاہ کو چھوڑ کر نہر کنارے بنی ایک ڈیڑھ کنال پر محیط زمان پارک والی رہائش گاہ پر پہنچ جاتے ہیں۔
بشریٰ بی بی کا غیر مرئی قوتوں اور صلاحیتوں کے حصول کے لئے چلّے کاٹنا کبھی بھی مخفی نہیں رہا۔ سنہ 1985ء اور اس کے اردگرد کے سالوں میں لاہور ڈیفنس کے وائے بلاک کمرشل میں موٹر سائیکل ریسنگ سے لے کر خود کو ایک روحانی شخصیت کے طور پر دنیا کے سامنے لانے والی بشریٰ بی بی کے اس رُخ کی نشاندہی بہت سے لوگ کر چکے ہیں جن میں قندیل بلوچ (مرحومہ), عون چوہدری، فردوس عاشق اعوان اور دوسرے کئی لوگ شامل ہیں۔ بشریٰ بی بی کی تمام حرکات و سکنات یہ نشان دہی کرتی ہیں کہ وہ اسی طرح کی قوتوں کے حصول کے لئے چلّے کرتی رہتی ہیں۔ عدالت میں پیشی کے وقت وہ باقاعدہ شرعی برقع میں ملبوس تھیں لیکن ان کے اردگرد سفید چادروں کا حصار قائم کرنا، عمران خاں کے اپنے بیان کے مطابق بشریٰ بی بی کا مسلسل 6 مہینوں تک خود کو ایک کمرہ میں بند کر لینا (شاید یہ وہی دورانیہ ہے جس میں عمران خاں مبینہ طور پر دیگر خواتین کے ساتھ تعلقات میں مصروف رہے)، بنی گالہ محل کی چھت پر گوشت، دال اور چاولوں کی مسلسل ترسیل، وقتاً فوقتاً عمران خاں کا اپنی رہائش گاہیں تبدیل کر لینا وغیرہ ایسی حرکات و سکنات ہیں جو مسلسل چلہ کشی میں اگلے مراحل کی طرف جانے کے لئے درکار لوازمات میں شامل ہوتے ہیں۔
دراصل بشریٰ بی بی کی عمران خاں سے شادی بھی ایک پلاننگ کا ہی نتیجہ لگتی ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ جب عمران خان کی ریحام خان سے شادی ہوئی تو چیئرمین پی ٹی آئی کافی پریشان رہنے لگے تھے جن کی بہت ساری وجوہات میں ریحام خاں کی طرف سے پارٹی اور سیاسی معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوششیں اور عمران خاں کی کچھ ویڈیوز اور فوٹوز بنانے جیسی حرکات بھی شامل تھیں۔ اس مسلسل پریشانی سے عمران خاں ڈپریشن میں چلے گئے تو اس کے علاج کے لئے ایک مشہور صحافی کے مشورہ کے مطابق جہلم میں ایک پیر سے باقاعدہ طور پر ان کے پاس جا کر اپنا علاج شروع کروا دیا مگر انہیں افاقہ نہ ہو سکا۔ اسی دوران چیئرمین پی ٹی آئی کا دبئی میں مقیم اپنی پارٹی عہدہ دار مریم ریاض وٹو سے رابطہ ہوا جو بشریٰ بی بی کی سگی بہن ہیں ،اور انہوں نے ہی عمران خان کو مشورہ دیا کہ وہ ان کی بہن (بشریٰ بی بی) سے رابطہ کریں کیونکہ انہیں روحانی معاملات میں کافی عبور حاصل ہے۔ مریم ریاض وٹو کے مشورے پر عمران خاں ڈپریشن سے نکلنے کے لئے بشریٰ بی بی سے ملتے جلتے رہے۔ اسی دوران ہی قندیل بلوچ مرحومہ نے ٹی وی چینل پر انکشاف کیا تھا کہ بنی گالا میں ایک پیرنی اکثر آتی جاتی رہتی ہے جس کا عمران خاں پر کافی اثرورسوخ قائم ہو چکا ہے۔ عمران خاں اور بشریٰ بی بی کی پہلی ملاقات خاور مانیکا کے اِسی گھر پر مریم وٹو نے ہی کروائی تھی جو بنی گالا میں عمران خان کے گھر کے عین نیچے واقعہ ہے۔ اسی گھر سے بشریٰ بی بی راولپنڈی/ اسلام آباد میں مقیم اپنے مریدوں کے لئے روحانی معاملات چلاتی تھیں- بشریٰ بی بی کے مریدین میں فلم انڈسٹری کے علاوہ بڑے بڑے لوگ شامل تھے جن میں فرح خان عرف فرح گوگی بھی بشریٰ بی بی کی خاص مریدوں میں شامل تھی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کا جب روحانی علاج شروع ہُوا تو انہوں نے پہلی بیعت خاور مانیکا کے ہاتھ پر کی، اس کے بعد روحانیت کا یہ سلسلہ کافی مہینوں تک چلتا رہا۔ عمران خان کی بشریٰ بی بی سے شادی سے متعلق خواب والی بات فرح خان کی طرف سے شروع کی گئی جس کے بعد اس خواب پر مہر ثابت کرنے کے لئے خاور مانیکا نے بھی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی شادی سے متعلق ایک خواب دیکھا۔ مبینہ طور پر اس خواب میں نبی کریم ﷺ کی بشارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان کی سالمیت، ترقی و استحکام کے لئے بشری بی بی کو حکم دیا گیا کہ وہ خاور مانیکا سے طلاق لے کر عمران خاں کی زوجیت میں آ جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ گھڑا ہوا جھوٹ تھا کیونکہ دونوں جہانوں کے سردار اور رحمت اللعالمین پاک نبی کریم ﷺ کس طرح ایک 35 سالوں تک محیط شادی رکھنے والی 5 جوان بچوں اور نواسے نواسیوں والی عورت کو یہ حکم دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر کو طلاق دے کر نئی شادی کر لے۔ افسوس صد افسوس کہ یہ مضحکہ خیز جھوٹ پھیلایا گیا اور یہ شادی کروائی گئی۔

دراصل چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی شادی کے معاملات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سر انجام پائے کیونکہ بنی گالا محل کے قریب گھر لینا، ملاقاتیں اور خواب والی کہانی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی شادی اور پھر اس کے بعد مبینہ طور پر ہپناٹزم، میگناٹزم اور مسمریزم یا “روحانی” چلہ کشی کے ذریعہ عمران خاں کو ٹریپ کرنے کا توڑ ناممکن نہیں تو اب بھی جوئے شِیر لانے کے مترادف تو ہو ہی چکا ہے۔ بشریٰ بی بی، خاور مانیکا اور اس سازش میں شریک تمام کرداروں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ جیسے ہی بشریٰ بی بی نے عمران خاں سے علیحدگی اختیار کی تو اربوں/ کھربوں روپے کی کرپشن کے الزامات سے جان چھڑوانا ان کے لئے ممکن نہیں رہے گا۔ اسی لئے ان کی طرف سے ہر ممکن کوشش جاری ہے کہ پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں کسی بھی طرح یہ مطالبہ منوا لیا جائے کہ عمران خاں نیازی اور بشریٰ بی بی کے خلاف جاری کرپشن الزامات کی تمام انکوائریوں کو فی الفور ختم کر کے انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ البتہ 9 مئی کے واقعات کے بعد اب یہ ممکن نہیں رہا کہ عمران خاں اور بشریٰ بی بی اپنے ایسے کسی بھی مطالبہ کو پی ڈی ایم حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سے منوا سکیں کیونکہ اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور دوسروں کو گالیاں دینے کی وجہ سے پی ٹی آئی قیادت اب خود کو اس مقام پر پہنچا چکی ہے کہ جہاں ان کی پارٹی تتر بتر ہو کر ان کی سیاست کے خاتمہ کے اعلانات کر رہی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں