حصول علم اور تحصیلِ معلومات کے عام طور پر پانچ معروف ذرائع ہیں جنہیں حواس خمسہ بھی کہا جاتا ہے۔ ہم جو کچھ سیکھتے اور حاصل کرتے ہیں وہ ہمیں دیکھنے، سننے، چھونے، سونگھنے اور چکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن ان پانچ حسی خصوصیات کے علاوہ انسان کے پاس ایک اور حس بھی ہے جسے بالعموم چھٹی حس کہا جاتا ہے۔اس صلاحیت کو استعمال کرتے ہوئے انسان ایسے کام انجا م دے سکتا ہے جو ظاہری حواس سے ممکن نہیں ایسی صلاحیت کو ایکسٹرا سینسری پرسیپشن کہا جاتا ہے(Extra sensory perception) ایسا علم جو ظاہری حواس سے حاصل ہونا ممکن ناہو۔ اس کو اکثر چار اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1 ٹیلی پیتھی۔ دوسرے شخص کے ساتھ ذہنی طور پر بات چیت کرنے کی صلاحیت یا کسی دوسرے کے دماغ میں اپنا پیغام پہنچانا
2باطنی نظر یا غیب بینی۔ ایسی خبر دینا جو ظاہری حواس سے حاصل کرنا ممکن نا ہو، ایسے واقعات یا اشیاء کو دیکھنے کی صلاحیت جو کسی بھی زرائع کے بغیر ممکن نا ہو
3 مستقبل کے واقعات کو دیکھنا۔
4 سائکوکائنیسس سوچ کے ذریعے مادی اشیاء پر تصرف کرنا ان کو اپنی جگہ سے ہلانایا ان کی ہیت میں تبدیلی کرنا
آج تک پوری طرح یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس چھٹی حس کا عقلی اور منطقی منبع کہاں ہے اور یہ کس طرح کام کرتی ہے؟ ابھی تک اس کے بارے میں مکمل معلومات نہیں مل سکیں بعض لوگوں میں یہ حس حد سے بڑھی ہوتی ہے اور بعض میں بالکل ہوتی ہی نہیں۔ اسی چھٹی حس کو وجدان (Intuttion) کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
intuition is the power or faculty of attaining to direct knowledge or cognition without evident rational thought and inference.
“وجدان ایک ایساعلم ہے جس کی اساس اگرچہ انسانی تجربات پر استوار ہوتی ہے۔ لیکن اس علم کا حصول معروف سائنسی اصولوں سے ماورا ہوتا ہے۔ وجدان کا حامل شخص خود بھی یہ نہیں جانتا کہ وہ ایک خاص نتیجے پر کس طرح اور کیوں پہنچا“۔
فرانسیسی فلسفی برگساں نے وجدان (intuition) کو عقل کی ترقی یافتہ شکل قرار دیا تھا ۔ ’’مابعدالطبیعات کا تعارف ‘‘ میں برگسان نے کہا کہ، علم دوقسم کا ہے، ایک مطلق کاعلم (Knowledge of absolute) اوردوسرا اضافی کا علم (Knowledge of Relative) ۔ دونوں قسم کے علوم کو حاصل کرنے کے طریقے بھی الگ الگ ہیں۔ اضافی کاعلم حاصل کرنے کا طریقہ برگسان کے مطابق اینالسس (Analysis) ہےجبکہ مطلق کے علم کے حصول کا طریقہ وجدان (Intuition) ہے۔ برگسان کہتاہے کہ وجدان ہمیں شئی فی الذات میں داخل کرتاہے جبکہ اینالسس ہمیں شئے فی الذات سے باہر ہی فقط اُس کی صفات تک محدودرکھتاہے۔علامہ اقبالؒ برگساں کی اس رائے سے متفق ہیں علامہ اقبال اپنے پہلے خطبے میں وجدان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’وجدان حقیقت الحقائق کے ابدی اور باطنی پہلو پر نظر رکھتا ہے۔اس کے برعکس عقل اس کے خارجی اور عارضی پہلو کو مدنظر رکھتی ہے۔اس کے باوجود یہ دونوں ایک ہی حقیقت کی رویت کے طالب ہوتے ہیں۔ برگساں درست کہتا ہے کہ وجدان تو صرف عقل کی ترقی یافتہ شکل ہے‘‘۔
بہت سے لوگ اس انسانی صلاحیت سے انکاری ہیں مگر کسی چیز کے وجود کو نہ ماننا اور کسی چیز کے وجود کا انکار کر دینا ۔ یہ دو مختلف باتیں ہیں ۔ ان کے محرکات بھی مختلف ہیں اور نتائج بھی ۔کسی چیز کو نہ ماننا اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوتا بلکہ آپ کی کم علمی کی دلیل ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے وہ چیز موجود ہو مگر آپ کے علم میں نہ ہو ۔مگر کسی چیز کا انکار کر ڈالنا کم علمی کی دلیل نہیں بلکہ باقاعدہ ایک دعویٰ ہے ۔ اس دعوے کے لئے ثبوت درکار ہیں ۔ علم درکار ہے ۔ یہ دعویٰ اگر علم کے ساتھ کیا جائے تو قابلِ ستائش ہے اور اگر بغیر کسی علم کے کیا جائے تو اس سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں ہے روزنامہ پاکستان میں لیفٹیننٹ کرنل(ر)غلام جیلانی خان وجدان کے بارے میں ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ یہ وجدان آتا کہاں سے ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ ذہن ہی کے سرچشمے سے پھوٹتا ہے۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس کا تعلق کلیتاً دماغ یا ذہن سے نہیں ہوتا۔ سگیمنڈ فرائڈ نے ذہن کے بارے میں کہا تھا”ذہن پانی پر تیرتے ایک برف کے تودے (آئس برگ) کی طرح ہے۔ جس کا صرف ساتواں حصہ سطحِ آب پر تیرتانظر آتا ہے جبکہ باقی چھ حصے پانی کے اندر ہوتے ہیں اور نظر نہیں آتے“۔ دوسرے لفظوں میں انسانی ذہن کے ساتویں (1/7) حصے کو ”شعور“ کہا جاتا ہے جبکہ باقی چھ حصے ”تحت الشعور یا لاشعور“ کہلاتے ہیں۔ غور کیجئے کہ ہمارے نہاں خانہء دماغ میں شعوری یا عقلی علوم کا ذخیرہ صرف 13فیصد ہے جبکہ باقی 87فیصد ذخیرۂ معلومات کی اساس، شعور نہیں بلکہ تحت الشعور یا لاشعور پر ہے…… وجدان کا تعلقی اسی 87فیصد ذخیرۂ معلومات سے ہے۔ ماہرینِ دماغ نے دماغ کے کرّے (Sphere)کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ بائیں جانب والا نصف کرہ عقلی علوم کو کنٹرول کرتا ہے مثلاً ریاضی، منطق،لسانیات وغیرہ جبکہ دائیں جانب والے نصف کرے میں فنونِ لطیفہ کا سوئچ بورڈ ہے مثلاً ادب، موسیقی، تخیل، خواب، سراب،شاعری وغیرہ۔ ان دونوں نصف کروں میں باہمی تعامل (Interaction)اتنی تیزی سے انجام پاتا ہے کہ دنیا کا کوئی کمپیوٹر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ شرط یہ ہے کہ انسان کی دماغی کیفیت تندرست ہو اور وہ مریض نہ ہو۔ بعض ماہرینِ علوم نفسانی کا خیال ہے کہ معلومات اور علوم براہ راست دائیں نصف کرے (یا تحت الشعور والے حصے) میں بغیر شعوری نصف کرے سے رابطہ کئے، ذخیرہ کی جا سکتی ہیں۔ انسانی تفکر و تدبر کا زیادہ سے زیادہ کام یہی تحت الشعور انجام دیتا ہے۔ وجدان چونکہ انسانی دماغ کے تحت الشعور والے حصے (دائیں طرف) سے پھوٹتا ہے اس لئے اس پر عقل و خرد کی حکمرانی نہیں ہوتی۔ البتہ جب وجدانی عمل و قوع پذیر ہو جاتا ہے تو پھر شعوری حصہ (بائیں طرف والا) فعال ہو جاتا ہے۔ یوں تحت الشعور اور شعور میں تعامل شروع ہوتا ہے۔ جنرل جے ایف سی فلر نے لکھا ہے: ”کہ ایک کامیاب جرنیل کی قوتِ حافظہ ایک ایسی لائبریری کی مانند ہوتی ہے جس میں بہت سی کتابیں ایک ترتیب سے شیلفوں میں رکھی ہوتی ہیں۔ وہ جس کتاب سے استفادہ کرنا چاہتا ہے اسی شیلف کو کھول کر فوراً کتاب کا مطلوبہ حصہ نکال لیتا ہے“۔ یہ لائبریری جتنی بڑی ہو گی، ذخیرۂ کتب اتنا ہی زیادہ ہو گا۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں