ایک اور سیاسی جماعت کی تخلیق/محمد منیب خان

عمران خان انگشت بدنداں ہیں کہ آن کی آن میں کیا ہو گیا ہے۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتیں موجودہ سیاسی صورتحال پہ کھسیانی ہنسی ہنس رہی ہیں۔ عوام ہونقوں کی طرح تَک رہے ہیں کہ ہمیں انقلاب کے خواب دکھانے والے خود ریت کی دیوار ثابت ہوئےہیں۔ جبکہ صاحبان فکر و دانش پریشان ہیں کہ یہ سلسلہ کہاں رکے گا؟

سیاسی منظر نامے پہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ نیا نہیں ہے البتہ جس رفتار سے ہو رہا ہے یہ کبھی پہلے دیکھی نہیں گئی۔ تاریخ کی کتابوں سے گرد کون جھاڑے، گزرے بائیس برسوں کو ہی دیکھ لیا جائے تو 1999 میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم کرنے کے بعد اسکے بطن سے مسلم لیگ ق کا ظہور ہوا۔ جبکہ پیپلزپارٹی کو بہتر مینیج کرنے کے لیے پیپلزپارٹی پیٹریاٹ کا گروہ تشکیل پایا۔ 2006 میں میثاق جمہوریت کے بعد تیسری بڑی سیاسی قوت کی ضرورت محسوس ہوئی تو تحریک انصاف کی جماعت میں ہَوا بھر دی گئی۔حالانکہ دنیا بھر میں دو جماعتی نظام کے ساتھ کامیاب جمہوریتیں بھی چل رہی ہیں۔

اس کے علاوہ پہلے ایم کیو ایم سے “حقیقی” اور بالآخر ایم کیو ایم (پاکستان) اور پاک سر زمین پارٹی سامنے آئیں۔ جنہیں زمینی حقائق کے تناظرمیں بالآخر الحاق کرنا پڑا۔ اسی طرح  تحریک لبیک ، بلوچستان عوامی پارٹی اور جی ڈی اے کی ڈرامائی تشکیل تو ابھی کل ہی کی بات ہے۔

کسی بھی جمہوری نظام میں نئی سیاسی جماعتوں کا بننا کوئی انہونی بات نہیں لیکن پاکستان کے تناظر میں اس کے مضمرات مخلتف ہوتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی جہاں جمہوریت اپنی بقا کے لیے سسکتی رہی وہاں نئی سیاسی جماعتوں کا قیام نہ توکسی مخصوص رائے عامہ کے اظہار کا نتیجہ ہے اور نہ ہی عوام کے مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے  کی سعی بلکہ یہ ووٹ کی تقسیم کو  یقینی بنانے کا ذریعہ رہا ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ سے فوج کی سیاست میں مداخلت رہی ہے۔ سول بالادستی کوئی سوئچ نہیں کہ ایک لمحے میں آن کر دیا جائے۔ اس کے لئے حکمت و دانش سے طویل جدوجہد درکار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ  سیاست دان جمہوریت کے نام پہ سول بالادستی کا نعرہ لگانے کے لیے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی بجائے ایک متفقہ لائحہ عمل تشکیل دیں جس میں کم از کم بنیادی باتوں پہ اتفاق ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہُوا، تقسیم کرو اور حکمرانی کرو کے بنیاد اصول کے تحت عسکری اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ہی نہ صرف سیاست میں ملوث رہی بلکہ حکومتوں کو  اپنے دباؤ میں رکھتی رہی ہے۔

البتہ  نو مئی کو جو کچھ ہُوا اس نے سول سپریمسی کی جدوجہد کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان نے جو کچھ کیا  اسکا جواز نہیں دیا جا سکتا، اس پہ مستزاد ایک طرف تو لیڈر شپ نے اپنے کارکنان کو تسلیم ہی نہیں کیا اور دوسری طرف صف اوّل کی سیاسی قیادت کسی بھی قربانی دینے سے پہلے ہی سیاسی ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے نئے ٹھکانے ڈھونڈتی نظر آئی۔ کہنے والے کہتےہیں کہ ان لوگوں پہ بہت دباؤ تھا حالانکہ یہ کسی نصاب میں نہیں لکھا کہ انقلاب کے راستہ پہ کسی بھی بڑی قربانی دیے بغیر چلاجا سکتا ہے۔ لہٰذا سب سیاستدان قیام کے وقت سجدے میں گر گئے۔ اور کارکنان اب دہشت گردی کے مقدمات میں ٹرائل بھگت رہےہیں۔

پاکستان میں سیاست سب سے زیادہ موضوع بحث چیز ہے۔ اور اس سیاست میں موروثی سیاست کا ذکر بھی ہر جگہ ملتا ہے۔ اب جبکہ تحریک انصاف کے بانی اراکین جو وفاقی وزراء رہے، صوبے کے گورنر یا  وزیراعلی رہے، آزاد کمشیر کے وزیر اعظم رہے ، جب ایسے لوگ اپنی جماعت کو چھوڑ کر جائیں گے تو شاید مباحث میں الجھی قوم کو پاکستان میں موروثی سیاست کی اصل وجہ سمجھ آ جائے۔

استحکام پاکستان پارٹی بن گئی ہے۔ سیاسی افق پہ ایک اور جماعت کا اضافہ  ہو گیا۔ لیکن کیا یہ جماعت کچھ کر پائے گی؟ تو اسکا جواب ڈھونڈنے کے لیے ناسا کو برسوں تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس انداز میں تحریک انصاف کو شکست و ریخت کاسامنا ہے اور جس انداز سے استحکام پاکستان پارٹی وجود میں آئی ہے یہ پاکستان کی سیاست میں کوئی خوشگوار اضافہ نہیں ہےالبتہ یہ صورتحال اس بات کی چغلی کھا رہی ہے کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہے۔ ایسے میں امید کی ایک ہی کرن ہے کہ سب سیاسی راہنما اپنی سیاسی انا کو ایک طرف رکھیں اور ایک بڑے میثاق کی طرف بڑھیں۔ ورنہ اگلی نسل کے لیےایک نئی سیاسی جماعت بنے گی اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔

سلمان باسط کی خوبصورت ڈیوڑھی جو جیلوں میں قید سیاسی کارکنوں کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔

اک واری نئیں پچھیا مُڑ کے, ساڈے نال جو بیتی

Advertisements
julia rana solicitors

چنگی نئیں اُو کیتی!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply