انسان کے لیے دنیا کی زندگی میں صرف دو رویے ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی خود اپنی ذات کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنائے‘ وہ اپنی سوچ کے مطابق چلے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرے‘ وہ اپنے ذاتی تقاضوں کی تکمیل کو زندگی کی کامیابی قرار دے۔ دوسرا یہ کہ آدمی اپنے آپ کو خالق کا ماتحت سمجھے‘ جذبات کو رب کائنات کے تابع بنائے‘ اس کے نزدیک زندگی کی کامیابی یہ ہو کہ وہ پالنہار کی پسند کے مطابق زندگی بسر کرے اور اسی کی پسند ہی پر اس کا خاتمہ ہوجائے۔ پہلے معاملے میں گھمنڈ‘ حسد‘ انانیت‘ خود پسندی‘ مَیں‘ جیسے جذبات سر اٹھاتے ہیں‘ انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ حق وہ ہے جس کو وہ حق سمجھے اور باطل وہ ہے جس کو وہ باطل قرار دے۔ دوسرے معاملے میں آدمی کے اندر عبدیت‘ تواضع‘ اعتراف‘ انکساری‘ خود احتسابی جیسے جذبات ابھرتے ہیں۔ پہلی صورت میں انسان اگر خود پرست بن جاتا ہے تو دوسری صورت میں خدا پرست۔
معبود برحق کی طرف بلانا یہ ہے کہ آدمی کو خود پرستی کے برے انجام سے آگاہ کیا جائے اور اس کو خدا پرست زندگی اختیار کرنے کی دعوت دی جائے۔ ان دونوں قسم کی زندگیوں کو جاننے کا معتبر اور مستند مآخذ قرآنی تعلیمات ہیں جو قرآن کی صورت میں محفوظ طور پر ہمارے پاس موجود ہیں۔ دعوت و تبلیغ کا کام ایک خالص اخروی نوعیت کا کام ہے۔ قومی یا اقتصادی یا سیاسی معاملات سے براہِ راست اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ انسان کو اللہ اور آخرت کی طرف بلانے کی ایک مہم ہے۔
نبی کریم ﷺ بلا شبہ ساری دنیا کے لیے خالق کائنات کے پیغمبر ہیں۔ مگر آپ ایک محدود مدت تک دنیا میں رہے اور اس کے بعد آپ کی وفات ہو گئی۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ ﷺکی وفات کے بعد اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی صورت کیا ہے؟ جواب یہ ہے کہ آپ کی امت آپ کے بعد اس کام کی ذمہ دار ہے۔ آپ کی امت کی لازمی ذمہ داری ہے کہ وہ نسل در نسل ہر زمانہ کے لوگوں کے سامنے اس دین برحق کا پیغام پہنچاتی رہے جو آپ ﷺ اللہ کی طرف سے لائے اور جو قیامت تک اسی حال میں محفوظ رہے گا۔
معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ سب سے بہتر قول جب بھی پیش کیا گیا تو ہمیشہ اس کی مخالفت کی گئی۔ جب بھی حق کی دعوت دی جائے گی یا اسلام کی تعلیمات کو لوگوں کے سامنے لایا جائے گاتو ہمیشہ ایسا ہو گا کہ اس سے کچھ لوگوں کے مفادات پر ضرب پڑے گی‘ کچھ لوگ اس کو اپنی برتری کے لیے ایک چیلنج سمجھیں گے۔ ایسے لوگ اس کے خلاف ہو جائیں گے اور جواب میں مخالفانہ مہم شروع کر دیں گے۔یہ واقعہ اسلام کے دور اوّل میں پیش آیا اور بعد کو بھی پیش آئے گا۔ انسان کی نفسیات ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس کو وہ درست سمجھ لیتا ہے‘ وہ اس کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتاکیونکہ اس کے خلاف بات میں اس کو اپنی ذات کی نفی دکھائی دیتی ہے۔ اس بِنا پر جب بھی دعوت کا کام شروع کیا جائے تو مدعو کی طرف سے سخت قسم کا ردِعمل پیش آتا ہے۔ ہر دور میں حق کے علمبرداروں کو طرح طرح سے ستایا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر اچھی و صحیح اور درست بات لوگوں کی خواہشوں سے ٹکراتی ہے۔ ہر درست بات یہ تقاضا کرتی ہے کہ اپنی زندگی کو با اصول بنیادوں پر قائم کیا جائے اور بے اصولی اور غیر ذمہ داری کا طریقہ چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح حق کی دعوت لوگوں کی خواہشوں سے ٹکرا جاتی ہے۔ لوگ اس کی مخالفت کرنے لگتے ہیں۔
ایسی حالت میں کسی معاشرے میں دعوت حق کا اٹھنا ایک طرف معاشرے کے لیے آزمائش ہے اور دوسری طرف خود داعی کے لیے بھی آزمائش۔ معاشرے کے لیے آزمائش وہ اس اعتبار سے ہے کہ جب اس کی خواہشوں پر زد پڑے تو وہ خواہشوں کی پیروی چھوڑ کر حق کی پیروی اختیار کرنے پر راضی ہو جائے اور داعی کی آزمائش یہ ہے کہ جب مخالفت کرنے والے اس کی مخالفت کریں تو وہ ردِ عمل کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو۔ وہ اس کے مقابلہ میں صبر و حکمت کا طریقہ اختیار کرے
یہ داعی کے لیے بے حد سخت امتحان ہوتا ہے۔ اس کا مقابلہ صرف غیر معمولی صبر سے کیا جا سکتا ہے۔ یعنی مخاطب کی تلخ باتوں کو یک طرفہ طور پر برداشت کرنا۔ مخاطب کی ز یادتی کے باوجود اس کے ساتھ ہمدردی کا تعلق باقی رکھنا۔ مخاطب کی دشمنی کے باوجود اس سے متنفر نہ ہونا۔ اسی کا نام صبر ہے اور صبر کے بغیر دعوت کا کام کرناممکن ہی نہیں۔ داعی ٹیڑھی بات کا جواب سیدھی بات سے دیتا ہے‘ وہ سخت الفاظ سن کر بھی اپنی زبان سے نرم الفاظ نکالتا ہے‘ الزام تراشی کے مقابلہ میں استدلال اور تجزیہ کا انداز اختیار کرتا ہے‘ اشتعال کے اسلوب کے جواب میں صبر کا اسلوب اختیار کرتا ہے۔ اس کا ہمدردی کا جذبہ اتنا بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ وہ مدعو کی زیادتیوں کو نظر انداز کرتا رہتا ہے‘ وہ کڑوا بول بولے تب بھی داعی میٹھا بول بولتا ہے۔ وہ زیادتی کرتا ہے تب بھی داعی اس کو بھلا کر اس کی اصلاح کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ مدعو اگر اس کی غیرت پر حملہ کرے تب بھی وہ اس کو اپنے وقار کا مسئلہ نہیں بناتا۔ داعی کے دل میں مدعو کی شفقت اتنی بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی حال میں اس سے جدا نہیں ہوتی۔
منفی ردِ عمل اور مثبت ردِ عمل دونوں کا انجام یکساں نہیں ہوتا۔ داعی اگر مخاطب کی اشتعال انگیزی کے بعد خود بھی مشتعل ہو جائے تو اس کے بعد دعوت کا کام عملاََ ختم ہو جائے گا۔ داعی کا جوابی اشتعال دوبارہ مخاطب کے اشتعال کو بڑھائے گا۔ اس طرح داعی اور مخاطب کے درمیان جو فضا بنے گی وہ دعوتی عمل کی قاتل ہو گی۔ ایسی حالت میں وہاں کوئی کہنے والا ہو گا نہ سننے والا۔ اس کا واحد حل صبر و اعراض ہے۔ داعی اگر صبر و اعراض کا طریقہ اختیار کرے تو وہ تلخیوں کو گھٹائے گا وہ اس معتدل فضا کو باقی رکھے گاجس میں دعوتی عمل جاری ہوتا ہے اور اپنی فطری رفتار سے سفر کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اپنی آخری منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں