لفظوں کے دانت/یوحنا جان

27 مئی 2023ء کی شب کا اندھیرا پھیلنے کے لیے بے تاب تھا۔ اچانک مغرب سے چند لمحات قبل میرے  ہم جماعت سید ذوالفقار کا فون آیا  کہ باغ جناح جانا ہے۔ یہ میرا ایم فل اردو کا ہم جماعت اور تھوڑا فاصلے پر وحدت روڈ پر ایک ہوسٹل میں مقیم اور آبائی علاقہ پارا چنار  سے تھا۔میرا ہوسٹل وحدت روڈ مین روڈ پر جبکہ اس کا تھوڑا ہٹ کے ہے  ۔ فون  کرکے کہتا ہے کہ میں ہوسٹل آرہا ہوں، میں نے کہا آجاؤ۔ آتے ہی بازو پکڑا اور کہا چلو باغ جناح جانا ہے۔

میں نے کہا اب تو اندھیرا بڑھ رہا ہے میری طبیعت بھی ٹھیک نہیں اور دوسرا کپڑے بھی استری نہیں  ہیں، شیو بھی بڑی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں بھی ایسے ہی ہوں، میں نے کہا ٹھیک ہے مگر مجھے دس منٹ دے دو صرف شیو بنا لوں۔ جلدی جلدی شیو کی کپڑے جو صبح کالج کے لیے پہنے تھے پہن لیے اور موٹر سائیکل کی چابی لی۔ موبائل فون پر مختصر راستہ تلاش کیا جہاں ٹریفک کا رش نہ ہو اور کنال روڈ سے مال روڈ گزرتے ہوئے باغ جناح پہنچ گئے۔ باغ میں داخل ہوئے موٹرسائیکل پارک کی اور پیدل چلنا شروع کردیا۔ ایک دم چاروں اطراف پرندوں کی آوازیں ، چمگاڈروں کی گونج اور چیلوں کی گرج نے خوش آمدید کہا۔ وقت کی رفتار مسلسل اندھیرے کو آواز دے رہی تھی۔ میں پہلی بار باقاعدہ باغ جناح آیا اور میرا ہم جماعت بھی دونوں چلتے چلتے دائیں بائیں نظر کر رہے تھے ۔ کچھ لوگ زمین پر ، کچھ بنچوں پر،کچھ اپنےمحبوب کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے محبت کے رنگ دکھاتے ہوئے لمبے لمبے قہقہے لگاتے من کا بوجھ اُتار رہے تھے۔ پیدل چلتے ہم دونوں باتیں کرتے قدم بڑھاتے  گئے۔ اچانک ایک جوڑے کو دیکھا جو ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پھولوں کے درمیان بیٹھے سلیفی لیتے ملے ۔ ان کی گفتگو کا موضوع تو معلوم نہیں لیکن   حرکات سے     لگ رہا تھا کہ وہ جنسی خواشات کی تکمیل چاہتے ہیں۔

بہر حال ہم آگے لائبریری کی طرف بڑھے اور مرکزی دروازے پر پہنچے۔ یہاں ذوالفقار ایک تصویر لینے کا کہتا ہے لیکن میں نے کہا ضرور لیں گے پر ابھی نہیں کیونکہ مجھے کافی دنوں بعد قید سے آزاد سانس لینے کا موقع ملاتھا،سو میں  چہل قدمی کرنا چاہتا تھا۔ چلتے وقت پارک میں چند بڈھے جن کے سر پر سفید بالوں کا راج تھا، کچھ سیاسی گفتگو میں محو تھے، جو اس سرزمین کے لوگوں کا ایک اہم مسئلہ ہے۔ ان پر مزید توجہ دیئے بغیر آگے کی راہ لی ۔ باغ میں ایک  کونے پر  آئس کریم کا سٹال لگا تھا،  وہ خریدی، اتنے میں اذان ہوگئی،  بیشتر  لوگ بھاگم  بھاگ مسجد کا رخ کر رہے تھے تو کچھ اُدھر ہی محبوب کا ڈوپٹہ  بچھا کر رب کائنات  کے سامنے سجدہ ریز تھے۔  خیر،آئس کریم تو ہم نے لے لی  تھی مگر ذائقہ رتی برابر نہ تھا ۔ پیدل چلتے آگے بڑھے دیکھا کہ ایک طرف ایک ہرن چہل قدمی کرتا نظر آیا میرے ہاتھ میں مکئی کے دانے تھے جو ہم نے آئس کریم کے بعد منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے خریدے تھے۔ مٹر گشت جاری تھا  ،چلتے چلتے جنگلے کے اُس پار کھانے کی تلاش میں ہرن اس طرف آتا دکھائی دیا اور پاس آکر سر اٹھا کر دیکھنے لگا۔
اس کا ارادہ کچھ کھانے کا تھا سمجھنے کے لیے اشارہ ہی کافی اور دیکھنے کے لیے آنکھیں جو قدرت نے عطا کی ہیں۔ میرے ہاتھ میں مکئی کے دانے تھے وہی اس کی طرف   بڑھا دیئے اور وہ کھانے لگ گیا دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا ہرن بھی بھاگ کر آ گیا ۔میں نے چند سکینڈز کے بعد دیکھا کہ پہلے والے ہرن کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے گویا شکریہ ادا کرتا ہو ،تب میرے ذہن کی بتی نے اشارہ دیا اور یاد کروایا کہ کل رات اک شخص مجھ سے ایک روٹی مانگ کر لے گیا اور لاکھوں دعائیں دے گیا ،پتا نہیں میں غریب تھایا وہ؟

اس تعجب اور حیرت کے لمحے  نے ایک دم جھنجھوڑکر رکھ دیا دوسری جانب سمجھا بھی دیا کہ فطرت کو آج بھی سمجھا جاسکتا ہے اگر اس کو جاننے کی سعی کی جا ئے۔ اس منظر نے نا  صرف میرے سامنے ایک بے حس معاشرے کا نقشہ پیش کیا بلکہ ہر اس پڑھے لکھے جاہل کا آئینہ بھی عیاں کر دیا جو اس دھرتی پر چلتی پھرتی لاشیں اور بہت بڑا بوجھ   ہیں ۔ ذوالفقار  مجھے کہنے لگا کہ  “یار یہ لوگ کیسے تعصب پرست اور تشدد سے بھرپور ہیں؟”
میں نے  کہا،”جب ادب اور زندگی کا دامن الگ الگ ہو کر بکھر جائے تو پھر کسی بھی بات کا اثر نہیں ہوتا ،چاہے جتنی بھی کتابِ  مقدس کی دلیلیں دے لیں۔ ایک اور بات  کہ ادب کلچر کی کاملیت کا  نام ہے۔”
اس نے میری طرف گہری نگاہ کرکے دیکھا ،اور پوچھا،وہ کیسے ؟
اس کا اور کیا ثبوت ہو سکتا  ہے کہ ماضی قریب اور حال کے تناظر میں وہ لوگ جو کبھی اس سرزمین کے مالک تھے آج بھی غلام ہیں یہ غلامی ذہنی معذوری بن کر نسل در نسل رواں دواں ہے۔ تو پھر فطرت بھی گردش میں ہے اس کےلیے باطن کا سفر کرنا پڑتا ہے اور وہ عام شے نہیں ہے۔ ہر ایک کے پاس موجود ہے مگر علم نہیں  ہے،ہروقت ساتھ ہے لیکن پہچان نہیں۔وہ منظر عام پہ ہے اور ان جیسوں کے لیے نہیں۔ان باتوں کے تذکرہ میں آگے بڑھتے ہوئے درختوں کے جھنڈ سے گزرے اچانک چمگاڈروں کا غول شام کی تاریکی میں آزادی کی گونج کو بلند کرتے ہمارے سروں سے گزرا جو شاید اس  مخمصے میں تھےکہ ہم یہ باتیں کیوں کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے انھوں نے ہماری باتیں سن لی ہوں   اور بُرا مان لیا ہو، بہرحال جلدی سے نکل کر ہم کھلے میدان میں آگئے جہاں پر آسمان پر ستاروں کے پہرے نمایاں تھے۔ چلتے ہوئے ہم واپس لائبریری کے مرکزی دروازے پر آگئے اور اس کے بالکل سامنے ایک پچاسی سالہ بزرگ درخت اسٹونیا کے مین تنے کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ اس کے مرکزی تنے  کو چھونے کی کوشش کرنے لگا مگر ایک دم چونکا دینے والا نقطہ بذریعہ محسوساتی حس میرے دماغ کی بتی کو حرارت دینے لگا۔ درخت کے مرکزی تنے کے قریب کان لگایا توایک آواز آئی جس نے اس بزرگ درخت کی زندگی کا ریکارڈ بتایا وہ بولا:
“آرام سے کھڑا رہ ،مجھے تکلیف مت دو۔ کئی لوگوں نے مجھے زبردستی ہاتھوں اور اپنے غلیظ خیالوں سے ایذاء  دی ہے۔ مگر تم لوگوں نے میری خاموشی کاغلط مطلب لیا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ میں ان ساکن لمحات کو توڑوں اور تم سب کے سارے کرتوت سامنے آجائیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا، وہاں اس سے معذرت کرتے ہوئے واپسی کی راہ لینے کا فیصلہ کیا۔واپس آتے وقت راستے میں گلاخشک ہونے کی وجہ سے پانی پینے کا حوصلہ کررہا تھا۔اچانک سڑک کے کنارے ایک واٹرکولر پر نظر پڑی ۔ درخت کی ڈانٹ نے سانسوں کو بےترتیب کر رکھا تھا جنہیں بحال کرنے کے لیے پانی والے کولر کے ساتھ کھڑے ایک سو دس سالہ درخت کے ساتھ سہارا لینے کی تمنا کی۔جو کافی حد تک تجربہ کار اور قابل معلوم ہو رہا تھااور کافی راز داں  بھی دکھائی دیتا تھا۔ اس کے قریب جا کر اس درخت کی بابت شکایت لگانا چاہی تاکہ دل کا غبار نکل جائے۔ذوالفقار نے کہاچھوڑو ہم چلتے ہیں مگر میں نے ایسا نہ کیا بلکہ کھوج اور اس کے نازیبا رویہ کا بتانا چاہا۔سلام کیا اس نے سرگوشی میں جواب دیا۔ اس درخت سے میں نے شام کے اندھیرے میں جو وقت کی رفتار سے بڑھ رہا تھا پوچھا:
تم نے بہت سے مناظر اور قرب و جوار دیکھے ہیں کیا  تم  بھی مجھے ان میں شریک کر سکتے ہیں؟
اس نے سرگوشی میں اشارہ کرکے قریب آنے کا کہا، جب میں نے جواب جاننے کے لیے کان کو نزدیک کیاتو وہ بولا:
“کئی راز میرے اندر ہیں بہتر یہی ہو گا کہ خاموشی سے چلا جا ورنہ مجھے تو دلیل کا بھی موقع نہیں ملنا اور کاٹ ڈالیں گے۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply