شیکسپیئرکےڈرامے اوتھیلومیں اوتھیلو اگرچہ وینس کی ریاست میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے،مگرایک سیاہ فام ہے۔اس کا اعلیٰ عہدہ بھی اس کی سیاہ فامی کا داغ نہیں دھو سکتا۔وہ ایک سفید فام برابان تیو (ڈیوک آف وینس)کی بیٹی ڈیسڈیمونیا کو بھگالے جاتا ہے تواوتھیلو ہی کا ماتحت ایاگو ،برابان تیو کے گھر پہنچ کر اسے ملامت کرتا ہے۔
ایاگو:ذرا ہوش میں آئیے جناب۔آ پ کے گھر پر ڈاکا پڑا ہے۔جلدی کیجیے اور اپنا چغہ پہن لیجیے۔آ پ کا دل توڑ دیا گیا ہے۔آ پ کی نصف جان غائب ہے۔اسی وقت،اسی لمحےایک کالا بڈھا مینڈھا،آپ کی سفید بھیڑ پر چڑھا ہوا ہے۔خراٹے مارتے ہوئےشہریوں کو گھنٹے بجا بجاکر جگائیے۔ورنی شیطان آ پ کو چتھو بنا کرچھوڑے گا۔میں کہتا ہوں ،جاگیے، اٹھیے۳۷۔
اوتھیلو کے لیے’کالا بڈھامینڈھا ‘ اور ڈیسڈیمونیا کے لیے سفید بھیڑ کے الفاظ سے نسل پرستانہ تعصب ٹپکتا صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
سولھویں صدی کے یورپی تخیل میں بھی ، سیا ہ وسفید دنیائیں یکساں نہیں تھیں۔ سیاہ دنیا خود اپنے آ پ میں ایک برائی تھی اور سفید دنیا محض سفید ہونے کے سبب ، خیر کی حامل تھی۔ کالا بڈھا مینڈھا،اپنے کالے اور بھدے ہونے کے سبب قابل ِ نفرت ہے، جب کہ سفید بھیڑ، اپنے سفید ہونے کے باعث معصوم ہے۔ اگرچہ ڈیسڈیمونیا اپنی مرضی سے ، اوتھیلو کے ساتھ بھاگی ہے،مگر اس جرم کی ساری ذمہ داری اوتھیلو پر ہے۔
یورپی تخیل کو اس بات سے گھن آتی تھی کہ ایک ‘کالا بڈھا مینڈھا‘ ،ایک سفید بھیڑ کی جنسی قربت حاصل کرسکتا ہے۔ یہ سفید نسل کی معصومیت اور خیر کی خصوصیت کو بھرشٹ کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ اسی ڈرامے میں ایاگو آگے چل کر، ڈیسڈیموینا کے باپ سے کہتا ہے کہ ’’ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنی لڑکی کا ایک عرب گھوڑے سے جوڑا لگانا چاہتے ہیں،آ پ چاہتے ہیں کہ آ پ کے یہاں ایسی اولاد ہوجو آپ کو دیکھ کر ہنہنائےاور گھوڑے اور بچھڑے آ پ کے بھائی بھتیجے ہوں‘‘۔
گویا سفید و سیاہ نسلوں کے اختلاط سے ، آدمی نہیں جانور پیدا ہوں گے،اس لیے کہ سیاہ فام، آدمی نہیں،جانور ہے۔ سفید فام انسانوں کی دنیا میں ایک ایسا جانور جس سے کئی اور کام لیے جاسکتے ہیں مگر جس سے نسلی اختلاط ناقابل ِ تصور ہے۔ نسلی اختلاط صرف ،سفید نسل کے خالص پن ہی کو آلودہ نہیں کرتا، سفید فام نسل کے کچھ تصورات کو بھی گزند پہنچاتا ہے۔ایک یہ کہ سفید فام نسل بھی ’نسائیت ‘ (effeminacy) کی حامل ہوتی ہے، جسے خود اس نسل کا غیریعنی سیاہ فام مسخر کر سکتا ہے۔ سفید فام نسل ، اپنی شناخت میں ’نسائیت ‘ کو کہیں جگہ نہیں دیتی۔
وہ جب اپنی شناخت کے اظہار کے لیے صنفی اصطلاحات کا سہارا لیتی ہے تو اپنے لیے مردانہ صفات،یعنی بہادری ، شرافت، جرأت، متحمل مزاجی، ذہانت، اولوالعزمی، تفاخر کا انتخاب کرتی ہے۔ جب کہ ان کے مقابل تمام زنانہ صفات ، جیسے: بزدلی، دھوکا، بے صبری، جذباتیت ، اطاعت پسندی کو سیاہ فاموں اور استعمار زدوں سے مخصوص کرتی ہے۔ چنانچہ کسی گوری عورت کا کسی سیاہ فام سے جنسی اختلاط ، سفید فام نسل کی شناخت میں نسائیت کی موجودگی اور قابل مسخر ہونے کی علامت ہے۔

سیاہ فام اس اختلاط سے گویا ، سفید فام کی مردانہ برتری کے تصور کو پاش پاش کرتا ہے۔ نیز نسل پرستانہ آئیڈیالوجی کی اس خصوصیت کہ ’’ طاقت ہی قدر ہے‘‘ کا پلڑا سیاہ فام کی جانب جھک جاتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نسل پرستی اور استعماری استحصال کے شکار تمام بے بس افراد، سفید فاموں کی نسائیت کو پہچانتے ہیں اور اسے زک پہچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ جنسی اختلاط کو سیاسی معنویت دینے کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ ن ۔ م۔راشد کی نظم ’انتقام ‘اس کی اہم مثال ہے۔اس نظم میں ایک گوری عورت سے جنسی اختلاط کا ذکر ہے ۔نظم کا متکلم (وہ شاعر بھی ہوسکتا ہے اور کوئی فرضی کردار بھی ) اس عورت کے ساتھ رات بھر اختلاط کرتا ہے،اور اسے ’ارباب وطن کی بے بسی‘ کا انتقام کہتا ہے۔
(اپنی کتاب ’’مابعد نوآبادیات :اردوکے تناظر میں‘‘ کے زیر اشاعت دوسرے اضافہ شدہ ایڈیشن سے اقتباس)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں