بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ ہمارا ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے اور اس سے نکلنے کا ایک ہی حل ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے فیض سے مشرف ہوں۔ غالب کی طرح قرض پر کھانے پینے کی عادت بہت بری ہوتی ہے۔ ہم بطور قوم قرض کے عادی ہوگئے ہیں اور بڑی آسانی سے ہر آنے والی حکومت قرض لینے کو ضروری اور اس کی ذمہ داری ماضی کی حکومت پر ڈال دیتی ہے۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ہم پہلے سادہ مقروض ہوئے، پھر مقروض تر ہوئے اور اب مقروض ترین ہوگئے ہیں۔ ویسے تو مقروض عزت، غیرت اور حمیت پروف ہوتا ہے اور اسے کسی کے کہنے سننے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہم نے بھی کمال کیا ہے، آئی ایم ایف سے وعدے کرکے آتے اور یہاں امریکی اور مغربی جامعات کے فیض یافتہ بابو اپنے کیے وعدوں کو وفا نہ کرتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دن حکم ملا اگر قرض لینا ہے تو سٹیٹ بنک کا چیئرمین ہم لگائیں گے۔ مرتے کیا نہ کرتے، سر تسلیم خم کرتے ہوئے سٹیٹ بنک کو ان کے حوالے کر دیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ سٹیٹ بنک کو ان کے حوالے کرنے کا مطلب سکیورٹی رسک تھا کہ ہم کس جگہ کتنے پیسے لگا رہے اور ہمارے کیا کیا منصوبے ہیں، وہ سب ہم سے پہلے وہاں پہنچ جاتے، جن کے لیے یہ ادارے بنائے گئے ہیں۔
ویسے آپ کے علم میں اضافے کے لیے بتا رہا ہوں کہ آئی ایم ایف کا بنیادی مقصد ممبر ممالک کی اقتصادی مدد کرنا بتایا گیا ہے۔ وہ مدد تو خاک کرتے، ہمارے معزز وزراء کے بقول وہ ایک ارب ڈالر کے لیے ناک سے لکیریں لگوا رہے ہیں۔ ہمارے وزیر خزانہ صاحب چیخ رہے ہیں کہ ہم بھکاری نہیں ہیں بلکہ عزت مند ممبر ملک ہیں اور ہماری تحقیر کی جا رہی ہے۔ جی ڈار صاحب بالکل ہماری توہین ہو رہی ہے، کچھ ناسمجھ سیاسی مخالفت میں اس پر خوش ہیں کہ آئی ایم ایف ٹھیک کر رہا، ایسا سوچنا درست نہیں، یہ اسحاق ڈار کی نہیں پاکستانی وزیر خزانہ کی توہین ہے۔ ڈار صاحب آپ نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی ہے کہ ہم جیو پولیٹکس کا شکار ہو رہے ہیں اور جو بھری بزم میں راز کی بات کرے اور وہ راز بھی بین الاقوامی استعمار کے ایجنڈے کو بے نقاب کرنے والا ہو تو پھر آئی ایم ایف کے فیصلہ ساز تو آپ کی کچھ نہیں سنیں گے۔ ڈار صاحب نے درست کہا کہ ہمیں اتنی خود مختاری تو دو کہ ہم یہ فیصلہ کرسکیں کہ کہاں کتنا ٹیکس لگانا ہے، یہ ڈار صاحب کے دل کی تکلیف ہے کہ انہیں اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے جال میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ اب ہمارے معاشی فیصلے براہ راست وہاں سے آتے ہیں۔
کیا وقت تھا، ہم جنرل مشرف صاحب کے دور میں روز سنتے تھے کہ فلاں قرضے ری شیڈول ہوگئے، فلاں قرضوں میں یہ رعائت مل گئی اور یہ ریویو بھی بہترین ہوگیا اور اتنے بلن ڈالر آبھی گئے۔ جنرل مشرف صاحب پر یہ کرم نوازیاں ان کی امریکی خدمت گزاری کا نقد انعام تھیں۔ جنرل مشرف نے ہزاروں پاکستانیوں کو امریکی حملوں میں مروا دیا، پرائی جنگ کو ہمارے گھر تک لے آیا، ہم آج بھی اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ اس سب کا نقد انعام بہرحال اس نے وصول کیا۔ خیر ہماری مالی حالت کو بہت برا کہا جا رہا ہے کہ ہمارے پاس زرمبادلہ کے چار ارب ڈالر سے کم کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ اس سے ہم ایک ماہ کی امپورٹس بھی بڑی مشکل سے کرسکتے ہیں۔ ہم نے ایل سی کھولی ہے اور چاہتے ہیں کہ ہم ایل جی پی گیس خرید لیں، دنیا کی کسی کمپنی نے کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی اور ہماری ریاست کی تحقیر ہوگئی کہ دنیا کی کسی کمپنی کو اعتبار نہیں ہے کہ ہم گیس لے کر پیسے کہاں سے دیں گے۔؟
در حالانکہ ہمارے وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ نہیں کریں گے اور پاکستان نے تمام ادائیگیاں بروقت کر دی ہیں۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ اس ملک نے اگلے ایک سال میں پچیس ارب ڈالر دینے ہیں، یہ کیسے دے گا؟ کیونکہ ظاہری صورتحال کافی مشکل لگ رہی ہے۔ ڈار صاحب نے درست خدشے کا اظہار کیا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہم ڈیفالٹ کریں اور پھر یہ لوگ ہمارے ساتھ ہماری مرضی کے مطابق مذاکرات کریں۔ یہ خود ایسے حالات پیدا کرتے ہیں، جس میں کسی آزادی خواہاں ملک کے پاس کوئی اور آپشن ہی نہیں رہتا۔ اگر ابھی پاکستان کو چائینہ کے بنک بیل آوٹ نہ کرتے تو اب تک پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہوتا۔ کچھ عرصے سے پلان بی کی بازگشت سنی جاری تھی اور کل پاکستان کی تاریخ کا ایک ہم اور تاریخی فیصلہ ہوا۔ اگر اس پر مکمل عمل درآمد کر لیا جائے تو ہماری سمت درست ہوسکتی ہے۔
سپیشل انویسٹمنٹ کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، اس میں وفاق، صوبے اور پاکستان فوج بڑے سٹیک ہولڈر کے طور پر شامل ہیں۔ بہت سے ماہرین کہہ چکے ہیں کہ اس کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا ریفارمز کے لیے ایک کمیٹی کی ضرورت ہے۔ شبر زیدی صاحب بھی کہہ چکے ہیں کہ اکانومی کو سیاست سے الگ کر دیں، اکنامکس کی پالیسی پندرہ سال ایک ہو، چیمبر آف کامرس کے غیاث الدین بھی یہی تجویز دے چکے ہیں کہ ایسی ایک کمیٹی بنانا ہوگی۔ کافی عرصے سے چارٹر آف اکانومی کی بات ہو رہی تھی۔ کچھ فیصلے ریاستی سطح پر کر لیے گئے ہیں۔ کاش یہ بیس سال پہلے کر لیتے، بہرحال اب کر لیے گئے ہیں۔ اب آرمی چیف کو بھی اس میں شامل کرکے فوج کو ایک شراکت دار کے طور پر کردار دیا گیا ہے۔ اس میں تین شعبوں میں سرمایہ کاروں کو مکمل سہولیات دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ زراعت، معدنیات اور آئی ٹی شامل ہیں۔

عرب ممالک کی بڑی خواہش ہے کہ وہ اپنی فوڈ سکیورٹی کے لیے پاکستان کی زرخیز زمینوں پر اربوں ڈالر انویسٹ کریں۔ مگر یہاں ہر سرمایہ کار سرمایہ کاری کرکے ذلیل ہوتا ہے، اس لیے اب یہ شرائط تھیں کہ ون ونڈو سہولت دو، جس میں تمام سٹیک ہولڈر ایک جگہ پر موجود ہوں، سرمایہ کار وہیں پر آئے اور اس کے سارے کام ایک جگہ ہو جائیں۔ اس پر اب بڑی تیزی سے کام آگے بڑھ رہا ہے، بلکہ بہت سے قوانین تبدیل ہو رہے ہیں، مثلاً کراچی پورٹ کا کنٹینر ٹرمینل بیچنے کی تیاری تھی، اس کے لیے قوانین تبدیل کیے گئے ہیں اور مقدمہ بازی، صوبہ، وفاق اور ضلع کے چکر ختم کیے گئے ہیں۔ مصدق ملک کے مطابق دوست ممالک نے پچیس ارب ڈالر کا فنڈ قائم کیا، اسی طرح آئل ریفائری کے ذریعے چودہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ پانچ سال میں ایک سو بارہ ارب ڈالر لانے کا پلان ہے، جس کے ذریعے کئی ملین نوکریاں پیدا ہوں گی۔ حکومت نے سخت فیصلے لیے، جن کے اثرات آرہے ہیں۔ مالیاتی خسارہ پندرہ ارب ڈالر سے صرف ڈیڑھ ارب ڈالر رہ گیا۔ یہ بہت اچھی خبر ہے اور یہ بھی اچھی خبر ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے بغیر آٹھ نو ماہ ملک چلا لیا ہے۔ تھوڑی اور ہمت کریں اور اس سے مکمل جان چھڑا لیں تو پاکستان کے لیے بہت اچھا ہوگا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں