مثل برگ آوارہ/لکیر بھی نہ کھینچ پایا(14)-ڈاکٹر مجاہد مرزا

بارہ برس کا تموجن اور نو برس سے کچھ زیادہ کی آریانا، لگتا تھا کہ تاثّر سے خالی تھے۔ ان کے چہروں پر نہ وہ خوشی تھی جو کسی دوسری جگہ جاتے ہوئے بچوں کو ہوتی ہے اور نہ ہی کسی اکتاہٹ یا اضطرار کے اثرات مترشح تھے۔ تموجن راستے بھر کم و بیش خاموش رہا تھا البتہ آریانا باتیں کرتی رہی تھی۔ یونہی بچوں والی باتیں۔ ہم لاہور پہنچ گئے تھے۔ میں انہیں لے کر اپنی بڑی بہن کے ہاں پہنچا تھا جہاں گاؤں سے میری منجھلی بہن بھی پہنچی ہوئی تھی۔ یہ منجھلی بہن ایک طرح سے میری ماں تھی اگرچہ وہ مجھ سے عمر میں کوئی دس سال ہی بڑی تھیں لیکن مجھے انہوں نے ہی پالا پوسا تھا۔ میں ان کا بہت پیارا بھائی تھا۔ انہیں اپنے پیارے بھائی کے دکھ کا اس سے بھی زیادہ دکھ تھا۔ جب انہوں نے بچوں کو میرے ہمراہ دیکھا تو ان کی باچھیں کھل اٹھی تھیں۔ وہ اس قدر خوش ہوئی تھیں کہ لگتا تھا جیسے اس کے پیر زمین پر نہ ہوں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے اور وہ بھتیجے بھتیجی کو بار بار چومے جا رہی تھیں۔ بچے بھی کھل اٹھے تھے اور پھوپھی سے کھل کر باتیں کرنے لگے تھے۔
شام کو میں اور خوشی سے پھولی ہوئیں بچوں کی پھوپھی بچوں کو لے کر باہر نکلے تھے۔ میں نے دیکھا تھا کہ آریانا نے بہت ہی دیہاتی قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اس کے پاس بہتر کپڑے بھی ہونگے لیکن چونکہ میں اس کی ماں کی پسند سمجھتا تھا جو ایک بے رنگ علاقے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بھڑکدار رنگوں والے کپڑے، نمایاں دکھائی دینے والے سونے کے زیور اور خود کو سربرآوردہ کرنے کی خاطر بلند آواز میں اظہار خیال کرنے کو پسند کرتی تھی چنانچہ اس نے چھوٹی سی بچی کو بھی ویسے ہی کپڑے پہنائے ہوئے تھے جیسے اسے خود پسند تھے۔ میں بچوں کو مناسب کپڑے خرید کر دینا چاہتا تھا۔ ہم چاروں لبرٹی مارکیٹ پہنچے تھے جہاں میں نے بچوں کو ان کی پسند کے کپڑے خرید کر دیے تھے البتہ کپڑے پسند کرنے میں میرا مشورہ ضرور شامل تھا۔ پھر ہم وہیں ایک معروف فوٹوگرافر کے سٹوڈیو پہنچے تھے۔ میں نے بچوں کو کہا تھا کہ ایک ایک کر کے اندر والے کمرے میں جاؤ اور نئے کپڑے پہن لو، اترے ہوئے کپڑے پیکٹوں میں رکھ دو۔ تموجن تو فورا” ہی شہری بابو بن کر نکل آیا تھا البتہ آریانا ہچکچا رہی تھی۔ شاید اس کی ماں نے اسے اوڑھنی اوڑھے رکھنے کی تلقین کی ہوگی، جو کپڑے اسے اب پہننے تھے وہ یورپی طرز کے تھے، گھٹنوں تک سکرٹ اور بلاؤز۔ پھوپھی اس کے ساتھ اندر گئی تھی اور یوں آریانا بھی ننھی پری بن کر برآمد ہوئی تھی۔ اپنا نیا حلیہ دیکھ کر بچے خوش ہوئے تھے۔ ظاہر ہے میں بھی خوش تھا اور بچوں کی پھوپھی تو انتہائی خوش تھیں۔ مجھے فوٹوگرافر نے کرسی پر بٹھایا تھا اور بچوں کو میرے ادھر ادھر کھڑا کرکے ایک یادگار تصویر بنا دی تھی۔ بچے دو روز میرے اور رشتے داروں کے ساتھ رہے تھے۔ میں انہیں ان پارکوں اور ان ریستورانوں میں لے گیا تھا جہاں میں انہیں روس جانے سے پہلے ان کی ماں کے ہمراہ لے کر جایا کرتا تھا۔ پھر بچوں کو اپنے بھانجے کے ساتھ روانہ کر دیا تھا تاکہ وہ انہیں ان کی ماں کے پاس چھوڑ آئے۔ بچے جاتے ہوئے اداس بھی تھے اور خوش بھی۔
میں کسی حد تک مطمئن ہو گیا تھا۔ مجھے کبھی شبہ نہیں تھا کہ میمونہ بچوں کے ساتھ کسی کو چاہے وہ اس کا خاوند ہی کیوں نہ ہو کوئی برا سلوک کرنے دے سکتی ہے۔ تاہم غیر تو غیر ہوتا ہے اور وہ بھی پولیس والا اور جاٹ۔ جی ہاں مجھے اپنے مخادیم ذاتوں میں سے ہونے پر فخر تھا۔ میں برلاس تھا اور میری دادی منہاس راجپوت البتہ ماں شیخ تھی مگر وہ تاجر برادری والے شیخوں سے نہیں تھیں بلکہ ان کے والد کائستھ سے مسلمان ہو کر شیخ کہلائے تھے، یہی وجہ تھی کہ میری والدہ اپنی ذات شیخ کو شین پر زبر لگا کر ادا کرتی تھیں کیونکہ ان کے گھرانے کو دولت کا نہیں بلکہ علم کا چسکہ تھا۔ انہیں اپنے بچوں کی ذات پر بھی فخر تھا اگرچہ وہ خود بہت عبادت گذار تھیں اور انہیں علم تھا کہ اسلام میں ذات پات نہیں ہوتی مگر ان کا عرب سے نہیں بلکہ برصغیر سے تعلق تھا۔ جب ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک چھوٹے قصبے علی پور ضلع مظفرگڑھ میں سکونت اختیار کی تھی تو وہاں ان کی ہندوستان میں جائے سکونت سے آئے ہوئے لوہاروں نے بھی خود کو مرزا مغل کہلانا شروع کر دیا تھا۔ میری ماں کو اس کا بہت قلق تھا اور انہوں نے مجھے اور میرے چھوٹے بھائی اویس کو تلقین کی تھی کہ اگر کوئی تمہاری ذات پوچھے تو ان گنواروں کی مانند صرف مغل مت کہنا بلکہ مغل پٹھان کہنا۔
اب مغل پٹھان مجاہد برلاس کے بچے ایک جاٹ کی سرپرستی میں تھے۔ وہی جاٹ جنہوں نے ہمایوں کو دہلی سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ یہ جاٹ اور گوجر غنڈوں کے انبوہ تھے جنہوں نے پہلی بار ہندوستان کی نوزائیدہ مغل سلطنت کو مشکل میں ڈالا تھا۔ ہمایوں کو ایران فرار ہونے اور وہاں سے واپسی پر راستے میں اپنی فوج میں لڑاکا جری بہادروں کو بھرتی کرتے ہوئے دہلی کے تخت کو پھر سے اپنے قبضے میں لینے کے دوران بلوچوں نے اس کی بہت مدد کی تھی مگر امتداد زمانہ دیکھیے کہ چند صدیاں گذرنے کے بعد بلوچ اور جاٹ نے مغل اقلیم پر قبضہ کر لیا تھا، جی ہاں میمونہ بلوچ تھی جو بقول کسے جو کرنا ہوتا ہے پہلے کر لیتے ہیں اور پھر چاہے پشیمان ہوتے پھریں۔
دس پندرہ روز کے بعد میں بدیس لوٹ گیا تھا۔ ہوائی اڈے پر ڈرائیور ولیری مجھے لینے کی خاطر کھڑا تھا۔ وہ مجھے دفتر لے گیا تھا جہاں ندیم موجود تھا۔ ہم اپس میں گلے ملے تھے، ندیم نے میرے چہرے پر اطمینان محسوس کرکے کہا تھا،” چچا لگتا ہے دورہ کامیاب رہا”۔ میں نے اسے مختصرا” بتایا تھا۔ اتنے میں ایک لڑکی کوئی “کاروباری تجویز” لیے ہوئے پہنچی تھی۔ ہم چاروں یعنی وہ لڑکی ، مظہر، ندیم اور میں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے تھے تاکہ لڑکی کی “کاروباری تجویز” سنیں۔ ویسے تو مظہر کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ لڑکی خود انگریزی بول لیتی تھی۔
پہلے یہ جان لیجیے کہ “کاروباری تجویز” اس ملک میں سب سے زیادہ مستعمل اصلاحات میں سے ایک اصطلاح تھی۔ کوئی بھی کاروبار کرنے سے پہلے “کاروباری تجویز” دیا جانا ضروری تھا جسے ہماری زبان میں “کاروباری پیشکش ” کہا جا سکتا ہے کہ جس کا لین دین کرنا ہو، یا تو اس شے کا نمونہ دکھایا جائے یا اس کے بارے میں بتایا جائے۔ وہ لڑکی کسی یونیورسٹی کی طالبہ تھی۔ خوش شکل اور سنجیدہ تھی البتہ وہ جو “کاروباری تجویز” لے کر آئی تھی، کوئی اتنی دلکش تجویز نہیں تھی۔ وہ روس کے کسی گھڑی ساز کارخانے کی نمائندگی کر رہی تھی اور کچھ گھڑیوں کے سامپل لے کر آئی تھی۔ مظہر کی اور میری توجہ گھڑیوں سے زیادہ لڑکی پر تھی۔ مظہر نے اس کا فون نمبر لے لیا تھا اور وہ چلی گئی تھی۔ مظہر اور ندیم کے ادھر ادھر ہوتے ہی میں نے حسام کی نوٹ بک سے اس کا نمبر نقل کر لیا تھا مبادا ۔ ۔ ۔ اس لڑکی کا نام یولیا تھا اور ذات زوبکووا۔
ندیم کا کنبہ میری پاکستان سے واپسی سے ایک روز پہلے لوٹ گیا تھا۔ اب اس گھر میں ندیم اکیلا تھا چنانچہ اس نے مجھ سے کہا تھا کہ بجائے علیحدہ علیحدہ رہ کر بور ہونے کے چلو وہیں اکٹھے رہتے ہیں۔ شام کو ہم اکٹھے چلے گئے تھے اور پھر جی بھر کے باتیں کی تھیں۔ ندیم کاروباری شخص تھا، جس سودے میں منافع نہ ہو بلکہ الٹا نقصان کا خدشہ موجود ہو اس پر وہ لکیر کھینچ دیا کرتا تھا چنانچہ سب سننے کے بعد اس نے مجھ سے کہا تھا، “چچا، لکیر ڈال دو۔ بچے بڑے ہونگے، چاہیں گے تو خود تمہارے پاس آ جائیں گے۔ میمونہ نے جانا تھا چلی گئی بس بھول جاؤ”۔ مگر میں انسانی تعلقات کو کاروبار کی تزازو میں رکھ کر تولنے کا عادی نہیں تھا اور پھر انسانی رویے کوئی روپے پیسے تو ہوتے نہیں کہ جن کا لین دین کرنے کے بعد ان کی نوعیت و ہئیت ہی بھلا دی جائے، اس لیے خاموش رہا تھا۔ ندیم نے اس کی خاموشی سے جان لیا تھا کہ وہ اس معاملے پر لکیر کھینچنے سے عاری رہے گا۔جاری ہے

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply