قرآن حکیم نے جن دس امور کو “الدین” بتایا ہے ان میں ایک عہد کی پاس داری ہے. عہد پورا کرنے کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور قیامت کے روز بدعہدی کی بازپرس سے ڈرایا گیا ہے. بنی اسرائیل کے جس قدر ناز نخرے اٹھائے گئے اس کی انسانی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی. انہیں عالمی قیادت سے محروم کرنے کی وجہ یہی بتائی کہ
تمہارے ساتھ طے تھا
تم مجھ سے کیا گیا وعدہ پورا کرو گے، میں تم سے کیا گیا وعدہ پورا کروں گا.
لیکن
تم نے اس کی خلاف ورزی کی، اس لیے مجھ پر اب کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی.
یوں تو ہمیں ایک سے زائد احادیث بھی ایسی ملتی ہیں جن میں رسول اللہ نے اللہ سے کہا کہ میرا تجھ سے یہ عہد ہے….. اور اس کے جواب میں تو مجھے……
لیکن ہمارے پاس دوطرفہ معاہدے کی جو سب سے گراں قدر دستاویز ہے وہ “سورہ فاتحہ” ہے
جس میں ہم پہلی تین آیات میں اللہ کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور پھر ایک دوطرفہ معاہدہ کرتے ہیں
ایاک نعبد و ایاک نستعین
اس معاہدے کی رو سے میں نے صرف اس کی غلامی کرنی ہے اور اس نے جواب میں میری مدد کرنی ہے
مدد کا طریقہ کیا ہوگا
اھدنا الصراط المستقيم
اس آیت کی آفاقی وسعتوں کو سمیٹ کر ہم نے تنگ تر دائرے میں بند کر دیا ہے، جبکہ یہ آیت فرد سے لے کر بین الاقوام تک اور دانتوں کے خلال سے لے کر انسانی زندگی کی تمام تر ضروریات تک سب کو محیط ہے.
آیت کی رو سے کام، محنت اور جد و جہد میں نے خود کرنا ہے لیکن اس کی درست جہت، صحیح طریقہ اور ثمر اور ڈائریکشن اللہ نے بتانی ہے. مثلاً آپ جاب کی تلاش میں ہیں، بزنس کرنا چاہتے ہیں، شادی کے لئے ساتھی چاہیے، مکان بنانا ہے، سودا سلف خریدنا ہے، بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی ہے، اولاد کی تربیت کیسے کی جائے، ملک و قوم کو سنوارنے کی کون سی راہ اختیار کی جائے، کس مضمون میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی جائے غرضیکہ کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی ضرورت ہے، اسے پورا کرنے کے لیے دنیا میں متعدد آپشنز پھیلے ہوئے ہیں. کون سا آپ کے لئے مناسب ترین ہے، آسان ہے، نفع بخش ہے، یہ تو وہی جانتا ہے
اور جب آپ اسے کہیں گے کہ
اھدنا الصراط المستقيم
تو وہ ربوبیت کی مسند پر فائز ہونے کی وجہ سے دستوری طور پر اور رحمان و رحیم ہونے کے ناتے جذباتی رشتے سے اور دوطرفہ معاہدے کی بنا پر قانونی طور پر پابند ہے جسے اس نے خود کہا کہ میں نے خود پر فرض کرلیا (کتب علی نفسہ الرحمۃ)
وہ لازماً آپ کی ہر ضرورت کی تکمیل کے لیے آپ کو آسان ترین راستہ بتائے گا.
بس ہم اپنی طرف سے کبھی بدعہدی نہ کریں.
یاد رہے کہ جہاں ہر ہر کام میں صراط مستقیم کی تلاش ہوتی ہے اور ہونی چاہیے وہیں اس امر کی ضرورت ہے کہ اقوام و ملل کے لیے صراط مستقیم کا ایک واضح چارٹ موجود ہو جس پر پورے سماج اور سماج کے ہر فرد نے عمل پیرا ہونا ہو.
ہم سب نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں. اس پوری سورت میں ہم اللہ سے صرف ایک چیز مانگتے ہیں
اور وہ ہے
اھدنا الصراط المستقيم
ہمیں سیدھی راہ پر چلا
کیا آپ نے کبھی جاننے کی کوشش کی کہ وہ سیدھی راہ کون سی ہے جس پر چلنے کی دعا ہمیں سکھائی گئی بلکہ ہر رکعت میں یہ دعا کرنے کی تلقین کی گئی.
اگر آپ اہل علم سے پوچھیں تو آپ کو اس کی اتنی لمبی چوڑی تشریح ملے گی کہ ممکن ہے آپ اپنے علم و دانش کے باوجود پریشان ہو جائیں جب کہ عرب کے ناخواندہ لوگ تو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آتے تو یہ چاہتے کہ انہیں بس مختصر سا دین بتا دیا جائے جس پر وہ عمل کر کے کامیاب ہو جائیں.
سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم اسی سے کیوں نہ پوچھیں جس نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ صراط مستقیم ہے کیا؟
اس نے اس میں کوئی ابہام نہیں رکھا، نہ طول طویل فہرست دی، نہ کسی دوسرے کے حوالے کیا کہ اس سے پوچھو
بلکہ اس نے چند چیزیں گنوا کر یہ کہا
ان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ
یہ ہے میرا صراط مستقیم، اسی پر چلو اور اس کے علاوہ دوسرے راستوں کو نہ اختیار کرو مبادا سیدھی راہ سے بھٹک جاؤ
وہ چند چیزیں کیا ہیں جو صراط مستقیم ہیں :
1-میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، صرف میری عبادت کرو
2_والدین سے حسن سلوک کرو
3 – افلاس کی وجہ سے اولاد کو قتل نہ کرو
4-بے حیائی کے قریب تک نہ جاؤ، ظاہری ہو چاہے پوشیدہ.
5-کسی بے گناہ کو قتل نہ کرو
6-یتیم کے مال میں اس کے مفاد کے برعکس تصرف نہ کرو
7-ماپ تول میں کمی نہ کرو بلکہ پیمانے پورے رکھو اور پورا پورا ماپ تول کر دو.
8-جب بھی بات کرو عدل و انصاف کی بات کرو، خواہ تمہارے کسی قریبی رشتہ دار کے خلاف ہو.
9- وعدے پورے کرو
10-بخل اور فضول خرچی نہ کرو بلکہ رشتہ داروں، مساکین اور مسافروں کی خبر گیری کرو
11-جس بات کا علم نہ ہو وہ کبھی نہ کرو
12-اکڑ کر نہ چلو اور تکبر نہ کرو
یہ ہے صراط مستقیم اور یہی وہ اسلام ہے جو آدم سے لے کر سید المرسلین تک یکساں رہا، تمام انبیاء کرام نے اسی کی دعوت دی اور قیامت کے فیصلے اس پر ہونے ہیں.
قدیم الہامی کتابوں میں بھی یہی تعلیم ہے. موسی علیہ السلام کو جو لکھی ہوئی تختیاں دی گئی تھیں ان پر یہی رقم تھا اور قرآن نے سورہ انعام (151_153)اور الإسراء (23_36) میں مسلمانوں کو بھی یہی صراط مستقیم بتایا ہے.
طفیل ہاشمی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں