آج کے انسان کے لیے سائنسی اور مادّی ترقی کی معراج پر پہنچ کر بہت سے امکانات کے دَر وا ہورہے ہیں ‘لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ روحانی طور پر اتنے ہی بڑے صدمے‘ نفسی طور پر اتنی ہی بڑی بے اطمینانی‘ اور جذباتی طور پر اتنی ہی زیادہ تنہائی اور بے چارگی کا شکار ہے۔آج کا انسان چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ شمال میں ہو یا جنوب میں‘ پاکستان میں رہتا ہو یا امریکہ میں‘ مشرق وسطیٰ کا باسی ہو یا افریقہ کا‘ یورپ کے قلب میں ہو یا مشرق بعید کے ساحلوں پر‘ شہروں میں ہو یا دیہاتوں میں۔۔ اپنے طرزفکر‘ طرزمعاشرت‘ طرززندگی‘ ترقی اور پس ماندگی کے تمام تر فرق کے باوجود ‘ نوعیتوں اور درجوں کے لحاظ کے ساتھ ایک بہت بڑے روحانی بحران‘ جذباتی ابتلا اور احساس تنہائی کا شکار ہے۔ مختلف معاشروں میں اس روحانی بحران کا اظہار‘ نفرت‘ غصّے‘ انتقام‘ لاتعلّقی‘ عدم برداشت‘ خود غرضی‘ لذت کوشی اور جرائم کی مختلف شکلوں میں ہوتا رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی رنجشوں اور رقابتوں کے علاوہ بڑے بڑے جرائم کی تہہ میں بھی نفسیاتی عوارض اور جذباتی عدم توازن کارفرما ہوتا ہے۔ مغرب میں انسان کو اس کی نفسیات اور جذبات کی مختلف حالتوں کے ذریعے سمجھنے کی قابل قدر کوششیں کی گئی ہیں جن کا اعتراف نہ کرنا بے انصافی ہوگی۔قدیم زمانے میں علمِ نفسیات، فلسفے کی ایک شاخ کی حیثیت رکھتا تھا۔انیسویں صدی میں نفسیات پر اتنا کام ہوا کہ اس نے ایک علاحدہ علم کی حیثیت اختیار کرلی۔ یہ علم انسانی شخصیت،کردار،ذہن اور باطنی زندگی سے بحث کرتا ہے اس لیے اس علم سے واقفیت لازمی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اردو میں نفسیات کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا۔ تحقیق کے مطابق نفسیات پر پہلی کتاب انعام علی کی ’علم النفس‘ ہے جو 1885ءمیں شائع ہوئی تھی اور کسی انگریزی کتاب کا ترجمہ تھی۔ مولانا عبد الماجد دریا بادی نے غالباً 1916 میں ’ فلسفۂ جذبات ‘ اور ’ہم آپ‘ لکھی۔ اس کے بعد جامعہ عثمانیہ (حیدرآباد، دکن) کے دارالترجمہ نے نفسیات کی تقریباً دو درجن انگریزی کی کتابوں کے ترجمے کروائے،مثلاً احسان احمد نے ولیم جیمس کی کتاب Principles of Psychology کا ترجمہ ’اصولِ نفسیات‘ کے نام سے تین جلدوں میں کیا۔ اگرچہ یہ کتابیں درسی نوعیت کی تھیں لیکن ان کتابوں سے ایک بڑافائدہ یہ ہوا کہ مترجمین نے نفسیات کی انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات وضع کر لیے جن میں سے بیشتر آج بھی رائج ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعے نفسیات کے اصول و نظریات سے اردو داں طبقہ بھی فیضیاب ہوا۔ اردو میں نفسیات پر شائع ہونے والے بیشتر مضامین اور کتابوں کا تعلق تنقیدتعلیم اوربچوں کی نشوونما سے ہے۔ ان سے طلبہ،اساتذہ اور ادبا تو مستفیض ہوتے ہیں لیکن عام افراد فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ مشہور ادیب ابن فرید نے نفسیاتی تنقید کے علاوہ انسانوں کے نفسیاتی مسائل مثلاً ذہنی الجھن،ازدواجی زندگی کے مسائل وغیرہ پر بھی چند مضامین تحریر کیے ہیں لیکن موصوف بنیادی طور پر نقاد تھے۔ نفسیات کو اردو میں عام کرنے کے لیے جن بہت سی شخصیات نے مسلسل مضامین اور کتابیں تصنیف کیں ان میں ایک نام شہزاد احمد اور تخلص شہزاد ہے۔۱۶؍اپریل ۱۹۳۲ء کو امرتسر میں پید ا ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے(نفسیات) اور پھر ایم اے (فلسفہ) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۵۸ ء تھل ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں اسسٹنٹ ڈائرکٹر ، پبلک ریلشنز کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا۔۱۹۶۶ء میں آرٹس کونسل سے متعلق ہوئے۔ بعدازاں ایک سال ٹیلی وژن سے بھی متعلق رہے۔احمد ندیم قاسمی کی وفات کے بعد آپ کا تقرر ادبی ادارہ مجلس ترقی ادب کے صدرنشین کی حیثیت سے ہوا۔ آپ کی تصانیف کی تعداد 50 سے ذیادہ ھے ۔تراجم اور غیر نصابی نفسیات کا وقیع کام کرچکے ہیں جو متعدد جلدوں میں شائع ہوچکا ہے۔شہزاد احمد انسانی زندگی پر نفسیاتی حوالوں سے اور کائنات کے اسرار کو فزکس اور کوانٹم تھیوری سے سمجھنے والے دانشور تھے۔ انھوں نے اپنی دانش کو مطالعے کی کثرت سے فروغ دیا اور نفسیات کو اپنے مزاج کا اس طرح حصہ بنایا کہ یہ علم اشیا‘ مظاہر اور شخصیات کو کھوجنے کے لیے ان کی عینک بن گیا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں