دانتے – 6واں دائرہ (آخری حصّہ )/احمر نعمان سیّد

گزشتہ قسط پڑھنے کے لیے لنک کھولیے

 

 

 

 

 

6،آخری قسط

میلے بوج تک پہنچتے دانتے کا یہ جہنم کا سفر مشکل ہونے لگا ہے، سزائیں دیکھتے اس کی آنکھوں اور قلب پر بد اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ تیسویں کینٹو کے آخر میں دو ارواح کو لڑتے دیکھ کر ورجل سے کہتا بھی ہے کہ یہی دیکھتے رہے تو جلد ہی میں بھی یونہی لڑنے لگوں گا جس پر ورجل اسے چند نصائح سے نوازتے واپس ٹریک پر لاتا ہے۔

میلےبوج سے باہر جاتے دانتے کو ایک چنگھاڑسنائی دیتی ہے، جیسے کوئی بگل بجا رہا ہو، اسے معروف فرانسیسی نظم The Song of Roland یاد آتی ہے جو شاید بگل بجاتے گائی جاتی تھی، تاریکی کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دیتا، کچھ بلند میناروں کے ہیولے سے نظر آتے ہیں۔ ورجل اسے تسلی دیتا ہے، اور بتاتا ہے کہ یہ دیو ہیں جن کے دھڑ کنویں میں پھنسے ہیں، ان میں ایک دیو معروف نمرود ہے، جس کا تکبر ضرب المثل رہا ہے، جس نے آسمان پر جانے کو سیڑھیوں والا مینار بنایا تھا کہ خدا کا سامنا کر سکے،مگر اس سے پہلے ہی مچھر کے ہاتھوں مارا گیا۔ (شاید اس زمانہ میں بھی یہی تصور تھا کہ پرانے لوگ لمبے تڑنگے ہوتے تھے)۔ اسی متکبرنمرود کا دھڑ ایک کنویں میں پھنسا ہوا ہے؛ وہ کچھ بات کرتا ہے مگردانتے اور ورجل سمجھنے سے قاصر ہیں، عیسائیت میں اس پر ایک اور الزام لگتا آیا ہے کہ اس سے قبل دنیا کی ایک ہی زبان (عبرانی) تھی، مگر نمرود کے باعث دنیا میں مختلف زبانوں نے فروغ پایا، اسی وجہ سے شاید ناقابل فہم بتایا گیا۔

اس کے ساتھ ہی بےپناہ طاقتور دیو آن تیوس کنویں میں پھنسا ملتا ہے، جس کی مختلف کہانیاں ہیں کہ اس کے قدم جب تک زمین سے جڑے رہتے، اس کا مرنا ناممکن رہتا، عظیم ہرکولیس نے اسے ہوا میں بلند کیا اور ہوا میں ہی مارا تھا۔ انا تیوس اپنے جناتی ہاتھ میں ان دونوں کو اٹھا کر جہنم کے سب سے آخری طبق میں رکھ دیتا ہے۔

نواں طبقہ Cocytus
جہنم کا آخری درجہ یا دائرہ Cocytus ہے۔ اس نچلے ترین طبق میں برف ہے ( ہم جیسے جو ٹھنڈے ملکوں میں سرد جہنم دیکھ کر سوچتے تھے کہ جہنم ٹھنڈا ہو گا، دانتے کا جہنم ٹھنڈا ہی ہے)۔
اساطیر میں پاتال کے چار دریاوْں میں سے ایک cocytus تھا، جسے موت اور غم کا دریا بھی اکثر کہا جاتا ہے۔ یہاں اسے جھیل بتایا گیا ہے جو اس تمام نویں طبق میں پھیلی ہوئی ہے مگر جیسا بتایا کہ یہ ٹھنڈ کی وجہ سے منجمد ہے۔ اس میں ارواح مجنمد پڑی ہیں۔
یہاں چارمزید طبق ہیں جو دائروں rings کی شکل میں ہیں۔ ان سب میں قدر مشترک غداری ہے۔
پہلا، قابیل کے نام پر ہے، یہ وہ غدار ہیں جنہوں نے قابیل کی طرح اپنے اپنے رشتہ داروں سے غداری کی۔ ان کے سر اور گردن باہر ہیں باقی سب برف کے اندرہیں۔ ، دانتے ایک آدھ سے کچھ پوچھتا ہے وہ اس کی ہمدردی محسوس کر کے رو پڑتا ہےمگر ان کے آنسو نکلتے ہی جم جاتے ہیں۔ یہاں کی ارواح میں کسی کے کان سردی سے گل چکے ہیں تو کسی کا کوئی اور عضو فراسٹ بائیٹ کا شکار ہے۔
دوسرا انٹینورا کے نام ہے، یہ وطن یا قوم کے غداروں کا طبقہ ہے، انٹینورا ٹروجن کا میر جعفر تھا، ان کی گردنیں بھی برف میں دھنسی ہیں۔ ایک سر کو اس کے پاؤں سے ٹھوکر لگتی ہے۔ دانتے اس سے بارہا پوچھتا ہے پھر اس کے سر کے بال مٹھی میں پکڑ کر کھینچتا ہے وہ نہیں بتاتا ایک اور بتاتا ہے کہ یہ کون ہے (یعنی غدار ہے)۔ یہاں اگلینو ملتا ہے، جو کسی اور کا سر چبا رہا ہے۔
تیسرا وہ جو اپنے مہمانوں سے غداری کرتے ہیں۔ ان کے آنسوبھی ان کی آنکھوں میں جم جاتے ہیں۔ یہاں اسے وہ بھی ملتا ہے جس نے اپنے سسرال کی دعوت کی اور پھر سب کا قتل کر دیا۔
چوتھا خدا کے غداروں کا ہے، یہاں یہودا ہے جس نے عیسیٰ سے غداری کی تھی۔
اس کے آگے جھیل کے درمیان میں شیطان ہا ابلیس (لوسیفر) موجود ہے۔
ابن عربی نے پہلی بار سرد جہنم کا تصور دیا تھا، جہاں شیطان کی سزا اس کے دھڑ کا برف میں گلنا بتایا گیا( وجہ شاید یہ ہو کہ شیطان مسلم تصور میں آگ سے بنا ہے اور آگ کو آگ سے کیا سزا دینی، باقی شمالی امریکا میں رہتے سرد جہنم ہی حقیقت لگتا ہے۔)
ورجل اسے کہتا ہے کہ ابلیس یا لوسیفر کبھی بہت خوبصورت تھا( Lucifer = light bearer) لوسیفر کا مطلب ہی نور بکھیرنے والا ہوتا ہے مگر اب تکلیف نے اسے اتنا ہی خوفناک بنا دیا ہے۔ ساتھ ہی اسے رکنے کا کہتا ہے(ذرا تصرف کے ساتھ) “دیکھو ‘اسے’ جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو” (مجھے) مگر یہی ذہن میں ابھرا
Saying: “Behold Dis, and behold the place
Where thou with fortitude must arm thyself.”
دانتے جو منظر دیکھتا ہے، اس کے پاس الفاظ ناکافی ہو جاتے ہیں؛
I did not die, and I alive remained not Think for thyself now, hast thou aught of wit,
What I became, being of both deprived
ظلمت کا شہنشاہ ابلیس یہاں بےبسی سے سینے تک برف میں دھنسا ہوا ہے، اس کے تین مختلف چہرے ہیں (جو شاید عیسائیت میں تثلیث کے تصور کی ایک طرح کی پیروڈی کی ہے) ، تینوں کے مختلف رنگ ہیں، سرخ، پیلا اور کالا، اس کی ایک تشریح انسانی نسل سے بھی کی جاتی ہے، جیسے پیلے ایشیائی، سرخ، یورپین اور کالے افریقی۔
ایسا دیو ہیکل جسم، کہ ایک بازو میں کئی دیو سما جائیں۔ چہروں کے نیچے چمگادڑ جیسے بڑے بڑے پر پھڑپھڑا رہے ہیں، اسی پھڑپھڑاہٹ سے یخ ہوا کے جھونکے نکلتے ہیں جس وجہ سے یہاں ٹھنڈک  ہے۔ ابلیس تکلیف میں رو رہا ہے، کچھ لوگ اس جھیل یا دریا کو اسی مناسبت سے آنسو جھیل بھی کہتے ہیں۔ رونے کے ساتھ   وہ تین گناہ گاروں کے سر بھی چبا  رہا ہے، ایک یہودا ہے جس نے عیسی سے غداری کی تھی، دوسرے منہ میں بروٹس دبا ہے، تیسرے میں کیسیئس ، (ان دونوں نے قیصر روم یا جولیس سیزر سے غداری کی تھی)۔

یہ جہنم کا آخری منظر ہے، ابلیس سے کوئی بات چیت نہیں جس پر شاید ملٹن نے کہیں دانتے کا شکریہ بھی ادا کیا اور پھر ابلیس کی بات چیت اپنی شہرہ آفاق پیراڈائیز لوسٹ میں دکھائی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دانتے اور ورجل باہر نکل آتے ہیں اور نکلنا بھی دلچسپ ہے، یہ جناتی ابلیس کو سیڑھی کی طرف استعمال کرتے، یعنی اسکی گردن، بال، رانوں پر چڑھ کر نیچے جانا شروع ہوتے ہیں، دانتے دیکھتا ہے تو شیطان کے پاؤں (یعنی الٹا پڑا نظرآتا ہے)، ورجل بتاتا ہے کہ یہ آسمان سے یوں الٹا ہی یہاں گرا تھا، یعنی سر کے بل۔ یعنی وہ جو نیچے جا رہے تھے اصل میں اوپر کا سفر تھا، یعنی اوپر جانے کے لیے نیچے سے ہو کر جانا تھا جیسا کہ ورجل نے آغاز میں بتا دیا تھا اور یہ نیچے پاتال کی  تہہ ہی تھی۔
ورجل اب اسے کہتا ہے کہ یہ کرہ ارض کا بھی وسط ہے۔ باہرنکل کر دانتے کو آسمان نظر آتا ہے، جہاں ستارے جھلملا رہے ہیں۔
(ختم شد)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply