جب ثمینہ تبسم نے مجھے اپنی کتاب”پرچم تلے”پڑھنے کو دی تو اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اسے ایک ماہرِ نفسیات کے طور پر پڑھوں اور اس کے بارے میں اپنی رائے لکھوں۔ کتاب پڑھ کر میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں کتاب کے ایک خاص پہلو کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرواؤں جو اس کتاب کی نفسیاتی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اہم ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ یہ پہلو ثمینہ تبسم کے قارئین کے لیے سودمند ثابت ہوگا۔
اس سوانح عمری میں ثمینہ تبسم کی شخصیت اور ان کے خاندان کی طرزِ زندگی کے جو بہت سے پہلو اجاگر ہوئے ہیں ان میں سے ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ثمینہ تبسم کے اکلوتے بھائی ٹیپو پاک آرمی میں آفیسر تھےاور عین جوانی میں ایک مشن میں شہید ہوگئے تھے۔ چونکہ ٹیپو کی موت کو شہادت کا نام دے دیا گیا اور روایت کے مطابق کہا گیا کہ شہید زندہ ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے آنسو نہیں بہائے جاتے۔ اس تصور نے پورے خاندان کے ایک فطری سوگ منانے کے عمل GRIEVING PROCESS کو تحت الشعور اور لاشعور میں دھکیل دیا۔ نہ کسی کو رونے کی اجازت تھی نہ آنسو بہانے کی اور نہ ہی سب کے سامنے غمزدہ ہونے کی۔ اسی لیے خاندان کا سارا دکھ‘ سارا کرب‘ ساری اذیت‘ سارا غم ایک طویل خاموشی میں ڈھل گیا اور یہ طویل خاموشی بیس سال تک جاری رہی۔ اس طویل خاموشی اور ضبط میں خود ٹیپو کی خواہش بھی شامل تھی۔ ثمینہ تبسم لکھتی ہیں
’ ٹیپو نے الوداع ہوتے وقت ہمیشہ کی طرح اپنا ماتھا امی کے سامنے جھکایا اور وہ اسے چومتے ہوئے رو پڑیں۔ اس نے اسی وقت امی کو کندھوں سے پکڑ کو مضبوط مگر دل گیر آواز میں کہا ’ امی جی ! ایک بات یاد رکھیں۔ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو آپ نے رونا نہیں۔ شہیدوں کی مائیں رویا نہیں کرتیں‘۔ امی کہتی ہیں میرا کلیجہ اچھل کر حلق میں آ گیا۔ اور میں نے لرز کر کہا کہ اللہ خیر کرے۔ کیسی باتیں کر رہے ہو۔ تو وہ بڑے مضبوط لہجے میں بولا ’ فوجیوں کی مائوں کو اپنے دل مضبوط رکھنے چاہئیں‘۔
اس خاموشی اور اس مضبوطی نے ثمینہ تبسم کے خاندان پر بہت ظلم ڈھائے اور ان کے NORMAL GRIEF کو نفسیاتی زبان میں COMPLICATED GRIEF میں بدل دیا۔ یہ وہ سوگ ہے جو لوگوں کو اندر ہی اندر سے توڑ پھوڑ دیتا ہے اور وہ نفسیاتی طور پر شکست و ریخت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ثمینہ تبسم کے خاندان کی کہانی پڑھ کر مجھے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ آج سے بیس برس پیشتر مجھے ایک رفیقِ کار ڈاکٹر رضیہ خان کا فون آیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ان کے دو مہمان کراچی سے آئے ہیں اور وہ ایک ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر رضیہ خان نے جب درخواست کی کہ میں اس جوڑے سے ملوں تو میں نے حامی بھر لی۔
میں پہلے شوہر سے علیحدگی میں ملا۔ اس نے بتایا کہ چھ سال پیشتر جب وہ اپنی کار میں کراچی سے لاہور جا رہے تھے تو کار کا ایکسیڈنٹ ہوا۔ کار میں ان کی بیگم بھی ان کے ساتھ تھیں۔ ماں باپ کو تو کچھ نہ ہوا لیکن ان کی جوان بیٹی حادثے میں فوت ہو گئی۔ وہ کہنے لگے کہ پچھلے چھ برس میں بہت دفعہ چاہنے کے باوجود انہوں نے ایک بار بھی بیٹی کی موت کا ذکر نہ کیا کیونکہ وہ اپنی بیگم کا دل نہیں دکھانا چاہتے تھے۔
جب میں ان کی بیگم سے اکیلے میں ملا تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ وہ کئی بار چاہتی تھیں کہ بیٹی کے بارے میں بات کریں لیکن وہ اپنے شوہر کا دل نہیں دکھانا چاہتی تھیں کیونکہ اس دن وہ گاڑی ڈرائیو کر رہے تھے۔ دونوں کی خواہش کے باوجود ان کے گھر میں چھ برس کی طویل خاموشی کے گہرے مہیب سائے لہراتے رہے۔
میں جب ان دونوں سے اکٹھے ملا اور دونوں کو بتایا کہ وہ دونوں اپنی بیٹی کا سوگ مل کر منانا چاہتے تھے تو وہ میرے سامنے گلے ملے اور دیر تک دھاڑیں مار مار کر روتے رہے جیسے اس واقعے کو چھ برس نہیں چھ گھنٹے ہوئے ہوں۔ اس جوڑے نے میرا شکریہ ادا کیا اور گھر چلے گئے۔ اگلے دن ڈاکٹر رضیہ خان نے مجھے فون پر مبارکباد دی کہ میرے انٹرویو کے بعد وہ جوڑا بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہے۔ ان کے دل اور سر سے بھاری بوجھ اٹھ گیا تھا۔
جو کام میں نے ماہرِ نفسیات بن کر کیا تھا وہی کام ثمینہ تبسم نے ایک لکھاری بن کر کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس کتاب کا بھی وہی اثر ہوگا جو میرے انٹرویو کا اس جوڑے پر ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ثمینہ تبسم یہ کتاب لکھتے ہوئے اس شدت سے روئیں جیسے اس حادثے کو بیس برس نہیں بیس گھنٹے گزرے ہوں لیکن کتاب لکھنے کے بعد بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہی ہیں۔ اب جو بھی یہ کتاب پڑھے گا وہ پہلے تو آنسو بہائے گا پھر بیس برس کی طویل خاموشی ختم کر کے اس دلخراش حادثے کے بارے میں گفتگو کرے گا۔ اس طرح پرانے زخم مندمل ہونے کی کوئی صورت نکلے گی اور یہ کتاب GRIEVING سے HEALING کے درمیان ایک پل کا کام کرے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وضاحتی نوٹ:
میں نے اس مختصر مضمون میں ایک ماہرِ نفسیات ہونے کی حیثیت سے صرف نفسیاتی حوالے سے اپنے تاثرات پیش کیے ہیں۔ جہاں تک مذہب اور فوج کا تعلق ہے ثمینہ تبسم اور میں دو مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ چونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کے مخلص دوست ہیں اس لیے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کے موقف کا احترام کرتے ہیں۔ ہماری نگاہ میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام ہی ایک مخلص دوستی کا سنگِ بنیاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں