تین چار افراد کا خاندان رات کے وقت ایک ایسے علاقے سے گذر رہا ہے جہاں گھر اور سڑک کے درمیان ریلوے کی کئی پٹریوں پر مبنی چوڑا سا جنکشن اسٹیشن ہے، چونکہ کسی ٹرین کا وقت نہیں ہے اس لیے خاندان نے بے فکر ہوکر پٹریاں پار کرنی شروع کردیں۔ اس خاندان کے ساتھ ایک تین چار سال کے بچے کے لیے تو یہ ایک عجیب تجربہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک کھیل تھا کہ جونہی اس بچے کو کوئی پٹری پار کرنی ہوتی اس کا ایک بازو امی پکڑتیں اور ایک بازو ابوّ پکڑتے، اور وہ بچہ دونوں کے ہاتھوں میں جھول کر پٹری پار کرلیتا۔ یہ قافلہ کچھ آگے بڑھا، پٹریاں ختم اور سڑک شروع ہو چکی ہے۔ اب سڑک پر پٹریاں تو نہیں ہیں لیکن کیا ہوا اس بچے کے لیے کھیل کے سامان کے طور پر بجلی کے کھمبوں اور درختوں کا سایہ تو موجود ہے ناں۔ اس بچے نے ان سایوں کو بھی اسی طرح امی ابو کے بازووں اچھل اچھل کر پار کرنا شروع کردیا، امی ابو لاکھ سمجھاتے رہے کہ بیٹا یہ پٹریاں نہیں ہیں، ان سے ٹھوکر لگنے کا کوئی خطرہ نہیں ہے، آرام سے پار کرو، لیکن بچے کو معلوم تھا کہ وہ کسی خطرے کی وجہ سے تو پٹریاں اچھل کر پار نہیں کررہا تھا کیونکہ امی ابوکے ہوتے کسی خطرے کی کیا فکر، اس کو تو ایک کھیل مل گیا تھا۔
وقت نے کچھ کروٹیں اور بدلیں ، وہی بچہ اپنے ابو کے ہمراہ ایک اسکول کے ہیڈماسٹر صاحب کے سامنے بیٹھا تھا، ہیڈماسٹر صاحب ابو کو یہ سمجھا نے کوشش کررہے تھے کہ میں آپ کی بات کا میں اعتبار کررہا ہوں کہ یہ بچہ پانچ سال سے کچھ بڑا ہے، لیکن دیکھنے میں تین سال سے زیادہ کا نہیں لگتا ہے۔ میں اس کو داخل تو کرلیتا ہوں لیکن تیسری کلاس میں نہیں بلکہ پہلی کلاس میں لوںگا، وہ بھی شرط یہ ہے کہ اس بچے کو ٹیسٹ پاس کرنا پڑے گا۔ یہ کہہ کر ہیڈماسٹر صاحب نے اسی وقت کچھ اعداد جمع تفریق کے لیے دیے ، بچے نے یہ سوالات بڑے آرام سے حل کرلیے، پھر کچھ اردو الفاظ کی املاء لکھوائی، اس میں بھی کوئی غلطی نہ تھی، ہیڈماسٹر صاحب کچھ دیر کو سوچوں میں ڈوب گئے اور اپنی دراز سے ایک کاغذ نکال کر بچے کو دیا اور کہا کہ بہ آوازِ بلند پڑھو، بچے نے پڑھنا شروع کیا ” بخدمت جناب ہیڈماسٹر صاحب۔۔۔۔۔“ ابھی اتنا ہی پڑھا تھا کہ ہیڈماسٹر صاحب نے روک دیا اور پوچھنے لگے کہ بیٹا گھر میں کتنی دیر اور کس سے پڑھتے ہو؟ بچے نے جواب دیا کہ میں گھر میں تو بالکل نہیں پڑھتا ہوں، ہاں بس گھر میں بچوں کے جو رسالے آتے ہیں یا اخبار میں جو بچوں کا صفحہ آتا ہے صرف وہی پڑھتا ہوں، یہ سن کر ہیڈماسٹر صاحب ابو سے گویا ہوئے کہ میں اپنے خیال سے رجوع کرتا ہوں یہ بچہ تو تیسری ہی نہیں پانچویں کلاس یا اس سے بھی اوپر داخلے کا حقدار ہے۔ لیکن مجبوری یہ ہے کہ عمر کے حساب سے تیسری جماعت میں ہی داخل ہوسکتا ہے۔کاش آپ ہی کی طرح دیگر والدین بھی بچوں کے رسالوں کو وقت کا زیاں نہ سمجھیں۔
وقت نے دھیرے دھیرے کچھ قدم اور آگے بڑھا دیے۔ گلی میں ایک شور سا برپا تھا، ایک ہنگامہ سا مچا ہوا تھا، ہاں اِدھر، آگے دو، پیچھے پھینکو، لیفٹ سے بچ کر، رائٹ کو پھینک، غرض یہ بھانت بھانت کی آوازیں گلی کے لڑکوں کے ہاکی میچ میں اٹھ رہا تھا۔ سڑک کے دواطراف میں دو دو پتھر رکھ کر گول بنایا گیا اور کوئی ہاکی لے کر آیا کوئی بلاّ اور کوئی ڈنڈا لے آیا اور آپس میں میچ شروع ہوگیا، گلی گلی ہاکی کا رواج صرف اس وجہ سے تھا کہ اولمپک ، ورلڈ کپ، ازلان شاہ، چیمپینز ٹرافی غرض ہاکی کا کون سا ایسا اعزاز تھا جو پاکستان کے پاس نہیں تھا، اب ایسے میں بھی نوجوانوں کو ہاکی کا بخار نہیں چڑھے گا تو کب چڑھے گا۔ وہی لڑکا بھی اسی میچ میں شامل تھا، اتنے میں ابو کی آواز آئی اور اس لڑکے کی سِٹّی گم ہوگئی کیونکہ ابھی باہر آتے ہوئے تو امی نے کلاس لی تھی کہ ایک مہینہ نہیں ہوا اور تم نے چپل توڑ ڈالی، اگر چپل پہن کر ہاکی کھیلو گے تو چپل کیسے سلامت رہ سکتی ہے۔ ابو کی آواز سننا تھی کہ فوری طور پر امی کا پورا لیکچر ذہن میں تازہ ہوگیا اور یہی خیال آیا کہ آج امی نے دھمکی پر عمل کرہی ڈالا ہے اور ابو سے شکایت کرہی دی ہے، بس اب شامت آئی کہ آئی۔ وہ لڑکا فوری طور پر ابو کے پاس پہنچا تو کہانی ہی الٹی تھی، ابو نے پوچھا کہ تم ڈنڈے سے ہاکی کیوں کھیل رہے ہو، اور دیکھو چپل بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ پھر حکم صادر کیا کہ کھیل چھوڑو اور فٹا فٹ منہ ہاتھ دھوکر آجاؤ۔ اس کے بعد قریبی مارکٹ لے گئے اور وہاں سے ایک نئی ہاکی اور نئے پی ٹی شوز دلوا کر کہا کہ بیٹا دنیا میں جب بھی اور جو بھی کام کرو اس کے تقاضے ہمیشہ پورے کرو۔ اب یہ الگ بات کہ گھر پہنچ کر معلوم ہوا ابو گھر سے اپنے لیے نئے جوتے خریدنے نکلے تھے لیکن محدود بجٹ میں یا تو اپنے جوتے خرید سکتے تھے یا لڑکے کے لیے ہاکی اور پی ٹی شوز۔
وقت مزید آگے بڑھا، ابو بلوچستان کے مختلف علاقوں کے سرکاری دورے پر گئے، وہاں دورانِ سفر ایک حادثہ کی باعث ابو کو شدید زخمی حالت میں پہلے کوئٹہ کے ہسپتال اور پھر کراچی کے جناح ہسپتال میں منتقل کردیا گیا، ابو تقریباً دو ماہ اس حالت میں ہسپتال میں داخل رہے کہ بستر سے اٹھنا تو دور کی بات کروٹ لینے کی بھی گنجائش نہیں تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ گردن کا مُہرہ نکل چکا ہے، ابو کا سی ٹی اسکین دنیا کے کئی نیورولوجسٹس نے دیکھا اور ان کی پہلی پیشگوئی یہ ہوتی تھی کہ جس شخص کی یہ رپورٹ ہے وہ یقیناً زندہ نہیں بچا ہوگا، اگر بچ بھی گیا ہوگا تو بستر پر معذوری کے عالم میں زندگی بسر کررہا ہوگا۔ لیکن ابو نے اپنے عمل سے یہ سبق دیا کہ انسان کی خود ارادی اتنی مضبوط چیز ہے کہ اس کے سامنے دنیا کا کوئی مرض اپنی نہیں چلا سکتا ہے اور پھر صحتیاب ہونے کے بعد تقریباً دو عشرہ ابو اس شان سے جیے کہ دیکھنے والے کو یہ بالکل اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ سامنے جو شخص بیٹھا مسکراہٹیں بکھیر رہا ہے اس کے گردن کا مہرہ اپنی جگہ چھوڑ چکا ہے اور نہ تو اس شخص کو موت نے شکست دی اور نہ ہی کوئی معذوری اس کا مقدر بن سکی۔
وقت اور آگے بڑھا ، ابو سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوگئے ، اپنا وقت اپنی ذاتی لائبریری میں گذارنے لگے، وقت گذاری کی خاطر روزنامہ “امت” میں فکاہیہ کالم لکھنے لگے، وہ اپنے اصل نام یعنی ”شاہ محی الحق فاروقی“ کے نام سے امت میں ”کھٹے میٹھے انار“ کے مستقل عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے اور ان کے قارئین اس سلسلے کو اتنا پسند کرتے کہ کچھ لوگ تو کسی نہ کسی ذریعہ سے فون نمبر یا گھر کا پتہ معلوم کرلیتے اور کالموں کے اس سلسلے کی پسندیدگی کا اظہار کیا کرتے۔
دو ایک بار اُسی بیٹے کو جو خود بھی باپ بن چکا تھا ،اپنا کالم دکھا کر مشورہ کیا کہ یہ جملہ جو میں نے اِس طرح لکھا ہے اگر تم لکھتے تو کس طرح لکھتے؟ بیٹے نے لاکھ سر پیٹا کہ میں نے آپ سے قلم پکڑنا سیکھا ہے، میں آپ کو کیا مشورہ دے سکتا ہوں، بولے کہ بات رُتبے یا علم کی نہیں بلکہ مشاہدے کی ہے۔ میرا اپنا مشاہدہ ہے لیکن میں یہاں آج کے نوجوان سے مخاطب ہوں لہٰذا میں اسی کے مشاہدے اور انداز میں لکھوں گا تو بات بنے گی۔ ابو نے یہاں بھی اپنے عمل سے ثابت کیا کہ آپ کا علم اور مشاہدہ بہت وسیع ہوسکتا ہے لیکن اگر بات کرنی ہے تو اس مخاطب کی ذہنی سطح کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے۔
.2011ء کا آخر آخر چل رہا تھا ، ابو کی طبعیت تو معمولی سی خراب تھی ہی لیکن خوشی اور مصروفیت دیدنی تھی، ہوتی بھی کیوں ناں؟ ابو کی چہیتی پوتی 25ِ دسمبر کو ابو کے لاڈلے نواسے کا گھر آباد کرنے والی تھی، ابو کے لیے تو دو گنا خوشی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ ابو شادی کے ایک دن بعد ہی 27 دسمبر کو جو امراض قلب کے ہسپتال پہنچ گئے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ شادیوں میں تھکن نے ان کی صحت پر برا اثر ڈالا لیکن میرا یہ خیال ہرگز نہیں ہے، میرا خیال یہ ہے بچپن میں جو میں نے ایک بار ابو سے ”شادی مرگ“ کا مطلب پوچھا تھا اس کا عملی مطلب آج سے ٹھیک چھ سال قبل 2011ء کے بالکل آخری دن یعنی 31ِ دسمبر کو ابو نے امراضِ قلب کے ہسپتال میں آخری سانس لے کر بتایا۔
ایک وقت وہ بھی آتا ہے جب مسحور کن الفاظ بولتی زبانوں میں لکنت آجاتی ہے، انسان گونگا ہوجاتا ہے، دفتروں کے دفتر سیاہی بکھیرتے قلم سوکھ جاتے ہیں،ہنستا بولتا انسان خلاوں میں گھورنا شروع کردیتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟؟؟ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کسی ایسے کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا موقع آئے جس نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا، ہاتھ پکڑ کر لکھنا سکھایا، زبان سنبھال کر بولنا سکھایا، آنکھ جھکا کر سننا سکھایا، سینہ تان کر ڈٹ جانا سکھایا، بولنے سے پہلے تولنا سکھایا، برائی میں بھی بھلائی کا پہلو ڈھونڈنا سکھایا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت کرنا سکھایا، ہار کر جیتنا اور جیت کر ہارنا سکھایا، مشکلات سے نبٹنا سکھایا، حرام و حلال کی تمیز سکھائی، زمانے میں سر اٹھا کر جینا سکھایا۔۔۔۔
آج اس کو ہم سے بچھڑے پورے چھ سال ہو گئے ہیں، لیکن آج اس کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے زبان اس لیئے گنگ ہے کہ اس نے تو سب کچھ سکھایا لیکن ہم ہی نالائق تھے کہ کچھ نہ سیکھا، یہی سوچتے رہے کہ ابھی تو شجرِ سایہ دار سر پر موجود ہے، ابھی تو دنیا کی آسائشوں سے لطف اندوز ہولیں، اس شجر کا سایہ تو گھر کی بات ہے۔
ابو نے ہمیشہ ایک ہی سبق دیا کہ جو کچھ ہو اس سے آگے بڑھنے کی جدوجہد کرنا تمہار ا حق ہے، لیکن کسی کو دھکا مارنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا کہ دھکا وہی مارتا ہے جس میں صلاحیت کی کمی ہوتی ہے، اور حق حاصل کرنا تمہارا حق ہے لیکن حق چھیننا حق سے روگردانی کی پہلی سیڑھی ہے۔

آج سے ٹھیک چھ سال پہلے 31 دسمبر 2011 کو یہ شجر ہم سب کو اس دنیا کی کڑی دھوپ میں جھلستا چھوڑ کر مقامِ رحمت کی طرف روانہ ہو گیا۔ہاں ابو میں آپ سے صرف یہی کہہ سکتا ہوں:
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور…!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں