پانچ جولائی سے جنرل ضیاء الحق نے اپنی آمریت کا آغاز کیا۔ یہ سارا دورِ آمریت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس عہد وہ ہُوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ پانچ جولائی کو مارشل لا سے ہٹ کر دیکھئے۔ اس زمانے میں خصوصی طور پر دینی اصطلاحات کا استعمال بھرپور طریقے سے کیا گیا۔ یعنی سیاست میں دینی ٹچ کا مناسب اور بروقت اظہار کسی نے دیکھنا ہو تو اسی عہد میں دیکھے۔ صرف استخارے کی مثال ہی لیجئے۔ ضیاء الحق نے 29 مئی 1988ء کو اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں اور محمد خان جونیجو کو بھی چلتا کر دیا۔ اس پر لطف یہ کہ ضیاء الحق نے جب جونیجو حکومت برطرف کی تو انہوں نے کہا کہ وہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے استخارہ کرتے ہیں، اس لئے اسمبلی توڑنے کا جو قدم انھوں نے اٹھایا ہے، اس کے بارے میں بھی تین دن تک استخارہ کیا ہے۔ استخارہ کرکے اسمبلیاں توڑنے والے جنرل کی 1934ء میں جالندھر میں پیدائش ہوئی۔ بڑے بڑے سیاسی ماہرین اس سے دھوکہ کھا گئے اور بڑے بڑے تجزیہ کار اس کی شخصیت کا درست تجزیہ نہ کرسکے۔
جنرل صاحب نے ابتدائی تعلیم جالندھر اور دہلی میں ہی حاصل کی، 1945ء میں انہوں نے فوج میں کمیشن حاصل کیا اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران برما، ملایا اور انڈونیشیا میں فوجی خدمات انجام دیں۔ برّصغیرکی آزادی کے بعد انہوں نے ہجرت کی، 1964ء میں انہیں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقّی دی گئی اور یہ صاحب سٹاف کالج کوئٹہ میں انسٹرکٹر مقرر ہوئے۔ دنیا انہیں یاد رکھے یا نہ رکھے، سرزمینِ فلسطین اور پیپلز پارٹی انہیں بہت یاد رکھے گی۔ ذوالفقار علی بھٹو سے یہ غلطی ہوئی کہ وہ اس جنرل کو ایک “پیشہ ورفوجی” سمجھ بیٹھے۔ غلطی تو غلطی ہوتی ہے۔ تجزیہ نگار اظہر سہیل کے مطابق مسٹر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو 8 جرنیلوں کو نظرانداز کرکے چیف آف آرمی سٹاف بنایا تھا۔ انہیں ضیاء الحق سے بڑی امیدیں تھیں۔ وہ دن میں مشورے کے لئے روزانہ کم از کم دو مرتبہ ضیاء الحق کو بلایا کرتے تھے اور ہر دفعہ سینے پر ہاتھ رکھ کر نیم خمیدہ کمر کے ساتھ پورے پروٹوکول کا اہتمام کرتے ہوئے جنرل صاحب بھٹو کو یقین دلاتے کہ سر! مسلّح افواج پوری طرح آپ کا ساتھ دیں گی۔ میرے ہوتے ہوئے آپ کو بالکل فکرمند نہیں ہونا چاہیئے۔[2]
ضیاء الحق صاحب تو یحیٰ خان کی طرح عیاشیاں اور ایوب خان کی طرح دھاندلیاں کرنے تک محدود نہیں تھے۔ ان کے تربیت یافتہ پروفیشنلز اور تھنک ٹینکس آج بھی جمہوریّت کی سرحدّوں پر پہرہ دے رہے ہیں۔ 1968ء کے دوران انہوں نے اردن کی شاہی افواج کی بھی خدمت کی۔ محمد ضیاء الحق ”جنگی تربیتی مشن“ کے کمانڈر کی حیثیت سے 1967ء سے 1970ء تک اردن میں اردنی فوجیوں کی تربیت کر رہے تھے۔ وہاں اردن کے بادشاہ کے اقتدار کو مضبوط کرنے اور ان کے مخالفین کو کچلنے کے لئے ضیاء الحق نے اپنے فرائض منصبی سے بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔ وہ بلیک ستمبر کی کارروائیوں میں شریک ہوئے۔ چنانچہ یہ کہا جاتا ہے کہ ایک سال میں ضیاء الحق نے جتنے فلسطینی مارے، اتنے آج تک اسرائیل نے نہیں مارے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس ایک سال میں تقریباً بیس ہزار فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، 1973ء تک ضیاء الحق نے پاک فوج کے پہلے بکتر بند یونٹ کے کمانڈر کی حیثیت سے اردن کی ایما پر فلسطینیوں کے خلاف جہاد کا فریضہ انجام دیا۔
فلسطینیوں کے خلاف ضیاء الحق کے مثالی جہاد کے اعتراف میں مرحوم شاہ حسین نے بریگیڈیئر ضیاء الحق کو اردن کے اعلیٰ اعزاز ”کوکب استقلال“ سے نوازا۔ 1975ء میں وہ پاکستان کے لیفٹیننٹ جنرل بنے۔ ذرائع کے مطابق اردن کے بادشاہ نے اپنے تجربے کی روشنی میں ذوالفقار علی بھٹو کو یہ مشورہ دیا کہ وہ ضیاء الحق کو آرمی چیف بنائیں۔ مسٹر بھٹو نے سمجھا کہ ضیاء الحق اردن کے بادشاہ کی طرح ان کی بھی مکمل تابعداری کریں گے اور ان کے مخالفین کو کچل کر رکھ دیں گے۔ یکم مارچ 1976ء کو مسٹر بھٹو نے کتنے ہی رنگین خواب دیکھتے ہوئے ضیاء الحق کو پاکستان آرمی کا چیف آف آرمی سٹاف بنا ڈالا۔ یہی فیصلہ مسٹر بھٹو کے اقتدار کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ ضیاء الحق کی عملی سیاست کا نچوڑ کچھ یوں ہے کہ “سیاست کا دین و اخلاق سے کوئی تعلق نہیں، لیکن سیاست کو دین و خلاق سے جدا کرنے کے بعد اس کا نام پھر سے دینی و اخلاقی سیاست رکھ دینا چاہیئے۔”
موصوف کی دین ِاسلام اور شریعت کے نام پر ڈرامہ بازیوں کو دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پشاور میں قاضی حسین احمد کو بھی یہ کہنا پڑا کہ شریعت آرڈیننس قانونِ شریعت نہیں بلکہ انسدادِ شریعت ہے۔[3] اس نے ذوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے عدالتی کارروائی کو استعمال کیا، بظاہر اس نے اپنے آپ کو عدالتی فیصلوں کا پابند بنا کر پیش کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھٹو کو قتل کروانے کے لئے، بھٹو کے شدید مخالف ججز کو لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تعینات کیا، اس بات کا اعتراف جیو ٹی وی پر افتخار احمد کو انٹرویو دیتے ہوئے جسٹس نسیم حسن شاہ کرچکے ہیں۔ یاد رہے کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کا تعلق ان چار ججوں سے ہے، جنہوں نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے بھٹو کو دی جانے والی سزائے موت کو باقی رکھا تھا۔ انٹرویو میں جسٹس صاحب کا کہنا تھا کہ بھٹو کے قتل کا فیصلہ حکومتی دبائو کی بناء پر کیا گیا تھا۔
پنجاب کے سابق گورنر مصطفیٰ کھر نے بھٹو کے قتل کے بعد 21 مئی 1979ء میں ڈیلی ایکسپریس لندن کو ایک بیان دیا تھا، جس کے مطابق بھٹو کو پھانسی سے قبل ہی تشدد کرکے ہلاک کر دیا گیا تھا اور پھر اس ہلاکت کو چھپانے کے لئے عدالتی کارروائی سجائی گئی اور بھٹو کی لاش کو سولی پر لٹکایا گیا۔ ان کے مطابق بھٹو پر تشددیہ اقبالی بیان لینے کی خاطر کیا گیا تھا کہ میں نے اپنے ایک سیاسی حریف کو قتل کرایا ہے۔ ضیاء الحق پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلا سیاست دان ہے کہ جس نے بے اصولی اور جبر و دھونس کا نام دینی سیاست رکھا۔ اس کی رنگارنگ سیاست کی چھتری کے سائے میں بڑی بڑی نامی و گرامی دینی و سیاسی شخصیتیں آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئیں۔ اسے پیرو مرشد اور مردِ مومن اور مردِ حق کہا جانے لگا۔ضیاء الحق نے نظامِ مصطفیؐ اور جہاد کی اصطلاح کا بھی بھرپور استعمال کیا۔
اُس نے امریکی ڈالر اکیلے نہیں سمیٹے بلکہ بانٹ کر کھائے۔ ڈالروں کی بندر بانٹ کی وجہ سے اُسے کسی طرف سے کسی خاص مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا تو اس نے شریعت آرڈیننس، زکوٰة آرڈیننس اور پتہ نہیں دین کے نام پر کیسے کیسے آرڈیننس جاری کئے اور لوگوں کو کوڑے مارے۔۔۔ اس سارے عہدِ حکومت میں تمام مخالفین کو دینی اصطلاحات کی زد پر رکھا گیا۔ استخارے سے لے کر کوڑے مارنے تک اور عدالتی طاقت سے لے کر جہاد تک جو کچھ بھی ہوا اکثر و بیشتر دین کے نام پر ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع
بادشا، نکولومیکاویلی، مقدمہ، مترجم محمود حسین۔
جنرل ضیاء کے ١١ سال از اظہر سہیل۔
ضیاء کے آخری ١٠سال از پروفیسر غفور احمد۔
• جنرل ضیاء کے آخری دس سال از پروفیسر غفور احمد
• اور الیکشن نہ ہوسکے از پروفیسر غفور احمد
• بھٹو ضیاء اور میں از لفٹیننٹ جنرل (ر)فیض علی چشتی
• اسلوب سیاست، خطبات علامہ عارف حسین الحسینی
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں