پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ان دنوں ایک نئی بحث نے جنم لیا ہے جو کہ مبینہ مجرموں کے پولیس کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ سے متعلق ہے۔
پولیس کریمینل ریکارڈ سسٹم کے جس معاملے پر تنقید کی جا رہی ہے، اس کی وجہ بڑے پیمانے پر ایسے افراد کا اس سے متاثر ہونا جو صرف الزامات کی زد میں آئے اور بعد ازاں ان کے مقدمات ختم ہو گئے لیکن ان کے نام اب بھی سسٹم میں موجود ہیں۔
پاکستان سے سعودی عرب کاروبار کی غرض سے جانے والے ایک شہری جو اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے، وہ بھی ایسے ہی ایک معاملے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
محمد عدیل (فرضی نام) نے ہم سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گزشتہ برس سے پولیس کے خلاف مقدمہ لڑ رہے تھے کیونکہ ان کا نام جرائم پیشہ افراد کی فہرست میں ظاہر ہو رہا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’میں لاہور کا شہری ہوں اور میرے اوپر ایک مقدمہ بنا جو کہ ذاتی رنجش سے متعلق تھا لیکن بعد میں وہ مقدمہ واپس لے لیا گیا۔‘
’میں کاروبار کی غرض سے سعودی عرب چلا گیا اور وہاں جب کاروباری کاغذات کی جانچ پڑتال کا معاملہ آیا تو پولیس ریکارڈ میں میرا نام جرائم پیشہ افراد کی فہرست میں تھا۔ میرا وہ کاروباری معاہدہ نہ ہو سکا اور میں ملک واپس آیا تاکہ اپنا نام کلئیر کروا سکوں‘
محمد عدیل نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی اور کئی ماہ کی قانونی جنگ کے بعد عدالت نے ان کا نام جرائم پیشہ افراد کی فہرست سے نکالنے کا حکم دے دیا۔

صرف یہی نہیں حال ہی میں کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ گروپوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں درج ہونے والی ایف آئی آرز کے بعد ان طلبہ کے نام بھی اس کریمینل ریکارڈ مینجمنٹ سسٹم میں داخل کیے جا چکے ہیں۔
دستاویزات کے مطابق صرف پنجاب یونیورسٹی کے 200 طلبہ کے نام اس میں موجود ہیں۔
خیال رہے کہ پنجاب کے محکمہ پولیس میں کافی عرصے سے سسٹم کو آٹومیشن پر اور ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے جس میں ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر دیگر معاملات میں بہتری بھی رپورٹ ہوئی ہے۔
البتہ پولیس کریمینل ریکارڈ سسٹم میں نام کیسے درج ہو گا، اس پر کوئی واضح پالیسی موجود نہیں ہے۔ محض ایف آئی آر کے بعد سے ہی لوگوں کا نام اس ریکارڈ میں آنا شروع ہو جاتا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں