بے ربط خیالات/رضوان ظفر گورمانی

میں یعنی منافقت اور مرعوبیت کا مارا لکیر کا فقیر انسان ۔منافقت یہ کہ اک طرف سیکس یا سیکس سے متعلقہ لطائف پہ بات کرنے یا کیے جانے پہ معترض رہتا ہے دوسری طرف آبادی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔گویا سیکس کرنا ہے جی بھر کر کرنا ہے لیکن اس پہ بات نہیں کرنی۔

سیکس کی جگہ مباشرت کا لفظ استعمال کریں تو قابل قبول ہوتا ہے Boobs کی جگہ بریسٹ کا لفظ استعمال کریں قابل قبول ہوتا ہے یعنی اک ہی چیز کے لیے اک لفظ غلط اور دوسرا صحیح کیسے ہو سکتا ہے؟

مقامی زبان میں کوئی بندہ چو.. کہے تو وہ غلیظ اگر وہی انسان انگلش میں ہپس بولے تو مہذب۔

مرعوبیت کا الگ ہی چکر ہے۔انسان جب تک سٹون ایج میں تھا تب تک کوئی فارمل تعلیم ڈگریاں بنگلے گاڑیاں کچھ نہیں چاہیے ہوتا تھا۔بس شادی کرو شکار کرو بچے پالو زندگی کے مزے لو۔پھر سرمایہ آیا سرمایہ داری آئی سرمایہ دار آئے۔پہلے مہندی کے پتوں کو بالوں پہ لگایا جاتا تھا پھر ہئیر کلر پاؤڈر آیا پھر ہئیر کلر ٹیوبز آئیں پھر ان کے شیڈز آئے پھر مردانہ اور زنانہ کلرز الگ ہوئے صابن سے شیمپو شیمپو سے خشکی والا شیمپو ہئیر فال والا شیمپو پھر کنڈیشنر سے جیل سے ہئیر کریم ہئیر سپرے،نہانے والے صابن سے منہ دھونے والا صابن پھر فیس واش پھر مرادنہ اور زنانہ فیس واش پھر کیل مہاسوں کا فیس ڈارک سپاٹ کا فیس واش یعنی پروڈکٹس کا اک جال بنا گیا اور مرعوبیت کا مارا انسان ان کے پیچھے دوڑ پڑا۔

زندگی کا اک بڑا حصہ آپ دوسروں کی نظر سے دیکھ کر گزارتے ہیں آپ کو ٹینڈے گوشت پسند ہے لیکن آپ میک برگر اور اٹالین پیزے کی طرف دوڑتے ہیں کیوں؟ کیونکہ زمانے کا چلن ہے۔آج کا اک غریب دو سو سال پہلے کے بادشاہوں سے زیادہ اچھی زندگی گزار رہا ہے۔اے سی فریج برف پنکھا ڈاکٹرز ایسا کچھ نہیں تھا بادشاہوں کے پاس مگر ہم مطمئن نہیں ہیں۔

بڑے شہر میں ہیں اربوں روپے کی میٹرو میں سفر کی بجائے لاکھوں کی گاڑی میں سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔فیول دھواں ٹریفک جام فضول خرچی سب کریں گے لیکن میٹرو یا لوکل بس میں نہیں بیٹھیں گے کہ لوگ کیا کہیں گے؟

صحت کا ستیاناس کر دیں گے لیکن سائیکل یا پیدل نہیں چلیں گے کیوں ؟ وہی لوگ کیا کہیں گے؟
چھوٹے شہر میں ہیں شام کو یا صبح ٹراؤزر شرٹ پہن کر جاگنگ پہ نکلتے ہیں لوگ آپ کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے آپ ایلین ہیں خواتین واک پہ نکلیں تو ایسے گھورتے ہیں کہ بندہ بندی اگلے دن ہوٹنگ کے ڈر سے گھر بیٹھ کر کولیسٹرول بڑھاتے رہتے ہیں۔

اس دنیا کو عارضی بولنے والے یہاں عیال کو پابندی سے ٹوپی والا برقعہ پہنانے والے مولانا صاحبان جب یو کے کینیڈا کی مساجد میں امام لگتے ہیں تو ان کے بیوی بچے سادہ سے حجاب اور فل بازو ٹراؤزر شرٹ میں جی بھر کر واک جاگنگ کرتی ہیں کوئی ان پہ دوسری نگاہ نہیں ڈالتا مگر یہاں اگر یہ کرنے لگیں تو لوگ ہی مولانا صاحب کا جینا اجیرن کر دیں گے۔
ہم اپنے رویوں میں عجیب ہیں اور پھر بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اشرف المخلوقات ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پتا نی کیویں ؟

Facebook Comments

رضوان گورمانی
رضوان ظفر گورمانی سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں روزنامہ خبریں سے بطور نامہ نگار منسلک ہیں روزنامہ جہان پاکستان میں ہفتہ وار کالم لکھتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply