میں نے گائناکالوجسٹ محترمہ طاہرہ کاظمی صاحبہ کو ذاتی طور پر نہ پڑھا اور نہ ہی میرا اُن کی وال تک جانے کا آج تک اتفاق ہوا ہے، حالیہ مقفل جائے مخصوصہ کے بارے میں اپنے لبرلز ، مارکسسٹ اورکچے کے لیفٹسٹ دوستوں کی دیواروں پر محترمہ کی تحریر کی کانٹ چھانٹ ہوتی دیکھ کر مجبور ہوا کہ ذرا اس پر بات کی جائے۔
ہم پاکستان نامی سرزمین کے باسی ہیں جس کا اپنا شعبہ صحت کہتا ہے کہ پاکستان کی ۷۵ فی صد آبادی کو کسی نا کسی نفسیاتی عارضے کا سامنا ہے یعنی ہمارے اردگرد موجود ہر 100 میں سے 75 لوگوں کا کسی نا کسی طرح نفسیاتی مسئلہ موجود رہتا ہے۔
بائیس کروڑ کی آبادی کو ہی درست مان لیں تو لگ بھگ 16 کروڑ پچاس لاکھ نفسیاتی مریض ہمہ وقت ہمارے ارد گرد رہتے ہیں اور بہت ممکن ہے ہم میں بھی کوئی ایسا پہلو ہو جسے ماہر نفسیات کی اشد ضرورت ہو۔ہمارے معاشرے کی در و دیوار پر دو اشتہار ہمارے بچوں کو بچپن میں ہی پڑھنے کو مل جاتے ہیں, مردانہ کمزوری اور خواتین کے پوشیدہ امراض۔۔ ہم نے بڑی محنت، لگن اور ایمانداری سے حاصل کی ہے اپنی سماجی ترقی کی یہ معیاری منزل۔ ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ایک ہیجان بھرا گیا ہے ہم ہر موضوع پر انتہاؤں سے چیخنے کو شعوری مباحثہ بنا دیتے ہیں۔
محترمہ لکھتے وقت اس موضوع کو سندھ اور دیگر علاقوں سے جوڑ نے سے گریز برت لیتیں یا قبائل کو نشانے پر رکھے بغیر اس مسئلے کو سامنے لاتیں تو مختلف گائناکالوجسٹ کے بیانات کو سامنے رکھ کر ایک مقالاتی بحث تخلیق کر سکتی تھیں مگر مجھے لگتا ہے ان کی کوشش اُدھوری رہ گئی یا جان کر اُدھوری رکھی گئی ہے،سماج میں موجود ایسے نفسیاتی مسائل کو کسی قبیلے یا مقام مخصوص سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ پدر سری معاشرے میں مرد عورتوں کے حوالے سے لاکھوں طرح کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں اور عورتیں اپنے مرد ساتھیوں کی طرف سے ایسے ہی مبتلائے غم ہوتی ہیں۔
ہو سکتا ہے کوئی نفسیاتی مریض سندھ میں اس مرض کا شکار ہو ممکن ہے کسی مریض کا تعلق ژوب سے ہو، سچ ہوگا کہ کوئی مریض قبائلی علاقے سے ہُوا ہوگا۔ مگر کیا ہم کسی ایک مریض کا کارنامہ سارے قبیلے کی رسم و رواج قراد دے سکتے ہیں؟
ہرگز نہیں۔۔
میں نے اپنے ساتھ کام کرتے ایک سعودی ورکرسے زیادہ شادیوں کی وجہ پوچھی تو اُس نے نہایت مختصر جواب دیا تھا بچے کی پیدائش کے بعد عورت بیکار ہے، دوسری لے آؤ۔
میرے نزدیک یہ وہاں کئی سوسائٹیز کا مشترکہ نفسیاتی مسئلہ ہوسکتا تھا میں اُسے اُن کی رسم و رواج نہیں کہوں گا کہ سارے ہی سعودی صرف اس ایک وجہ کے لئے دوسری بیوی لاتے ہیں کہ بیوی بچہ پیدا کر کے بیکار ہوگئی۔ یہ نفسیاتی مسائل کی شکلوں میں سے شکل ہے کوئی بیوی پر شک کرے اور اُسے جائے نازک پر تالا لگا دے۔

یہاں خواتین کی تو موت کے بعد بھی عزت نہیں بخشی جاتی، سب مسائل موجود ہیں کسی بھی طرز تشدد سے انکار ممکن نہیں، یہاں چھوٹے بچوں کو بعض علاقوں میں بیوی کے متبادل کے طور پر ساتھ رکھا جاتا ہے، یہ بے سمت دوڑتا ہجوم ایک بکھرا ہوا ریوڑ ہے اور ہر ایک جگہ کوئی نا کوئی سماجی حیوان اپنی حیوانیت کے ہاتھوں مجبور ہے۔ مسئلہ ان معاشرتی مسائل سے نجات کا راستہ بنانا، ایک انسانی سماج کے لئے لڑنا ہے، جہاں انسانی جسم سیکس کے کھلونے نہیں مجسم انسانی شعور کی بلند ترین پہچان لئے ہوں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں